• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران اور اسرائیل کی دشمنی کے درمیان جو ایک پردہ سا تھا، وہ بھی اب ہٹ چُکا ہے۔ پہلے ایران اپنی پراکسیز کے ذریعے اسرائیل سے زور آزمائی کر رہا تھا اور اب دونوں ایک دوسرے پر براہِ راست حملے کر رہے ہیں۔ ماہرین ہی کیا، عام لوگ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ حملے کسی ایسی صورتِ حال کا پیش خیمہ تو نہیں، جو مشرقِ وسطیٰ کو ایک بڑی جنگ میں جھونک دے۔

مقامی اور عالمی رہنماؤں کو بھی سخت تشویش لاحق ہے، لیکن وہ صُورتِ حال میں بہتری کے لیے کچھ کر بھی نہیں رہے اور یہ بہت اچنبھے کی بات ہے۔پہلے سب امریکا کو کوستے تھے، اب سمجھ نہیں آتا کہ روس، چین اور یورپ کیا کر رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ اور دیگر کئی ایسے فورمز موجود ہیں، جہاں سے سیز فائر کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے، مگر نہیں ہو رہی۔ 

ڈھائی سال سے یوکرین میں جنگ جاری ہے، جس میں ایک بڑی عالمی طاقت اور ویٹو پاور، روس براہِ راست ملوّث ہے۔ دوسری طرف غزہ اور لبنان میں جو فوجی تصادم ہو رہے ہیں، اُن میں امریکا اور یورپ، اسرائیل کے ساتھ ہیں۔یہ بات تو کُھل کر سامنے آ چُکی ہے کہ ایران ہو یا اسرائیل یا پھر اُن کے اتحادی، کوئی بھی بڑی جنگ نہیں چاہتا۔ یہ بات بھی بار بار ذہن میں آتی ہے کہ کیا یہ بڑی طاقتیں بھی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنا کوئی خاص ایجنڈا رکھتی ہیں، کیوں کہ بات مذمّتی بیانات، اظہارِ افسوس اور پناہ گزینوں کے لیے ادویہ و خوراک کی فراہمی سے آگے نہیں بڑھتی۔ 

ایران کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے اتحادی مسلّح گروہوں کو ایک سال میں خاصا نقصان اُٹھانا پڑا۔ حماس کے دو سرکردہ رہنما شہید ہوچُکے ہیں اور اب وہ اپنے نئے سربراہ کے نام کے اعلان سے گریزاں ہے کہ کہیں وہ بھی نشانے پر نہ آجائیں۔ اِسے حماس کی حکمتِ عملی بھی کہا جاسکتا ہے اور مجبوری بھی۔ حزب اللہ کے نئے لیڈر کے لیے تو اسرائیل نے کہہ دیا ہے کہ وہ ہِٹ لسٹ پر ہیں۔

حزب اللہ، مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں، بلکہ شاید دنیا کی سب سے طاقت وَر ملیشیا ہے اور یہ صرف ایک ملیشیا ہی نہیں ہے بلکہ گزشتہ بیس سال سے لبنان کی اصل حُکم ران بھی ہے کہ حکومتیں اِسی کے اشاروں پر چلتی ہیں اور لبنانی فوج اس کے سامنے بے بس ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران، مشرقِ وسطیٰ میں اپنی تمام جارحانہ پالیسیز حزب اللہ ہی کے ذریعے نافذ کرتا ہے۔شام کی خانہ جنگی ہو، عراق میں طاقت کا مظاہرہ، فلسطین میں حماس کی پُشت پناہی یا حوثی باغیوں کی یمن میں کارروائیاں، اِن سب میں حزب اللہ کا اہم و کلیدی کردار رہا ہے۔

اِسی کے ذریعے ان تمام گروہوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی گئی۔ فوجی ماہرین کے مطابق، ایران کو، اور شاید خطّے کو بھی، اس کا ایک فائدہ یہ تھا کہ ایران اور اسرائیل براہِ راست ایک دوسرے پر حملوں سے بچے ہوئے تھے، گو کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے کئی انٹیلی جینس آپریشنز کے ذریعے ایران کو شدید نقصان بھی پہنچایا، جن میں جنرل سلیمانی کا قتل، ایران کے نمایاں جوہری سائنس دانوں کی ہلاکتیں اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانا شامل ہیں۔ ہانیہ جیسے بڑے رہنما کا ایران میں قتل بھی ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔اِس سارے تنازعے میں ایران کو سب سے زیادہ نقصان اُن پابندیوں سے ہوا، جو دنیا کی اِس چوتھی بڑی تیل پیدا کرنے والی مملکت پر عائد کی گئیں۔

اِن پابندیوں نے ایران کو اقتصادی طور پر کہیں کا نہ چھوڑا۔ اِسی لیے سابق صدر، حسن روحانی نے نیوکلیئر ڈیل کے ذریعے اِن پابندیوں سے نکلنے کی کوشش کی، لیکن وہ ٹرمپ اور ایران کے سخت گیر رہنماؤں کی وجہ سے ناکام رہے۔ ہانیہ، شنوار اور حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں کے منظر نامے سے ہٹنے کے بعد ایران کے پاس شاید اِس کے علاوہ کوئی راستا نہیں بچا تھا کہ وہ اسرائیل کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کردے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں اب بھی اہم اور فیصلہ کُن طاقت ہے۔اِسی لیے ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کے26 اکتوبر کے حملے کے بعد بیان میں کہا کہ’’ اِسے زیادہ سمجھا جائے، نہ کم۔‘‘ ایران نے براہِ راست حملوں کی شروعات کرتے ہوئے اسرائیل پر ایک بڑا میزائل حملہ کیا تھا اور اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ کئی اہم اسرائیلی تنصیبات تباہ کرنے میں کام یاب رہا۔

ایرانی جدید میزائلوں کا دفاعی نظام توڑ کر اسرائیلی شہروں اور تنصیبات تک پہنچنا، فوجی ماہرین کے نزدیک ایران کی فوجی کام یابی کی نشان دہی کرتا ہے۔ نیز، حزب اللہ کا ایک ڈرون، اسرائیلی وزیرِ اعظم کے گھر پر گرا، لیکن نیتن یاہو اور اُن کے اہلِ خانہ گھر پر موجود نہ تھے۔یہ حملہ ایک طرح سے ایک دوسرے کی اعلیٰ لیڈر شپ کو نشانہ بنانے کے سلسلے کی کڑی تھا۔

اُدھر 26 اکتوبر کے حملے سے متعلق اسرائیل اور مغربی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل، ایرانی تنصیبات کو نقصان پہنچانے میں کام یاب رہا۔ان ذرائع کے مطابق سیٹلائیٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر کے مطابق ایران کی متعدّد عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ ان میں ایک ایسا مقام بھی ہے، جو ماضی میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق جانا جاتا تھا، جب کے دوسرے مقام پر میزائل تیار ہوتے ہیں۔

جن چار عمارتوں کی تباہی کا بتایا گیا، وہ ایران کے راکٹ ساز پروگرام سے تعلق رکھتی ہیں اور ماضی میں اسے ایٹمی پروگرام سے بھی جوڑا گیا۔ایک اور ہدف سے متعلق کہا گیا کہ یہ وہ فوجی اڈّا ہے، جہاں بلاسٹک میزائل تیار ہوتے ہیں۔ سمنان صوبے میں بھی میزائلوں کے مختلف پارٹس بنانے والے پلانٹ کی دو عمارتیں نشانہ بنیں، جب کہ آبادان آئل ریفائنری کا ایک یونٹ بھی اِس حملے کی زد میں بتایا گیا۔ اکثر میڈیا میں اِن ہی مقامات کا ذکر کیا گیا اور شاید اِسی لیے آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ’’ اِن حملوں کو کم سمجھا جائے اور نہ زیادہ۔‘‘

ایران اور اسرائیل کے درمیان سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور درمیان میں مشرقِ وسطیٰ کے کئی اہم ممالک آتے ہیں، اِسی لیے فوجی ماہرین کا قیاس ہے کہ زمینی جنگ کے امکانات بہت کم ہیں، تاہم، حملوں کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ دونوں ممالک اپنی بہترین فضائی قوّت ایک دوسرے کے خلاف براہِ راست استعمال کر رہے ہیں، لیکن جنگ کا صرف ایک ہی پہلو نہیں ہوتا۔

اِن دنوں اکانومی وار، ملٹری سائنس کا ایک اہم ترین سبجیکٹ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی بار مُلک، جنگیں جیت کر اور ممالک پر قبضے کر کے بھی ہار جاتے ہیں، کیوں کہ وہ اقتصادی طور پر اُنھیں سنبھال نہیں پاتے۔اِس ضمن میں برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس کی حُکم رانی میں سورج نہیں ڈوبتا تھا، لیکن دوسری عالمی جنگ کی فتح کے باوجود، وہ ہار گیا اور اُسے اپنی تمام نوآبادیاں آزاد کرنی پڑیں۔ وجہ یہ ہے کہ اقتصادی طور پر اُنہیں اپنے قابو میں رکھنا اُس کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔جنگ کی سب سے بڑی قیمت اقتصادی طور ہی پر ادا کرنی پڑتی ہے، جو عوام ادا کرتے ہیں کہ عوام جان سے بھی جاتے ہیں اور اُن کے گھربار، روزگار بھی تباہ ہوتے ہیں۔ 

اُنھیں’’آزمائش میں ثابت قدم رہنے‘‘ اور’’ قربانی کے لیے تیار رہنے‘‘ کا پیغام دیا جاتا ہے، جب کہ لیڈر زیرِ زمین بنکرز میں چُھپے ہوتے ہیں۔ ایک سال کی جارحیت نے اسرائیل کو تقریباً 59ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا، جب کہ اس کی کُل سالانہ آمدنی530 ارب ڈالرز ہے۔ یہ اس کی طویل ترین جنگ ہے، ورنہ وہ ہمیشہ اپنی جنگیں دنوں اور ہفتوں میں نمٹاتا رہا ہے۔ اِس سال بَھر کی جنگ سے اِس کی ترقّی کی رفتار کم ہوئی۔ خاص طور پر ہیومن ریسورسز پر بہت دباؤ پڑا ہے، جو پہلے ہی بہت کم ہے۔

اسرائیل کی کُل آبادی نوّے لاکھ ہے۔ اُسے جنگ میں ریزرو فوجیوں کو بھی بُلانا پڑا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو صنعتوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی، ٹیکنیکل اداروں اور کاروبار سے منسلک ہیں، جن پر اسرائیل کی ترقّی کا دارومدار ہے۔ ایسے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک بتائی جاتی ہے، اب اِتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں کی جنگ میں شمولیت اور اِتنے لمبے عرصے تک اپنے اصل کام کاج چھوڑنے سے مختلف شعبے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

اُدھر ایران کی معاشی حالت بھی ابتر ہے، جب کہ حال ہی میں اسے اپنے دفاعی بجٹ میں200فی صد کا اضافہ کرنا پڑا ہے۔افراطِ زر اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ ایرانی ریال کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ناقابلِ یقین حد تک کم ہے۔ اُسے تیل اور دوسری اشیاء اسمگلنگ کے ذریعے فروخت کرنی پڑ رہی ہیں۔حالات کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں ہونے والے تمام انتخابات کا بنیادی سوال’’ معیشت کو کیسے بہتر بنایا جائے؟‘‘ رہا۔ اِس مرتبہ بھی منتخب ہونے والے صدر کا منشور یہی ہے کہ مغربی ممالک سے تعلقات بہتر کیے جائیں تاکہ معیشت بحالی کی طرف گام زن ہو سکے۔

تو کیا ایسے میں ایران اور اسرائیل کسی بڑی یا طویل جنگ کے متحمّل ہوسکتے ہیں؟ اِکّا دُکّا حملے کرنا اور بات ہے، جس سے یقیناً میڈیا ہیڈلائنز بنتی ہیں اور دونوں طرف کے حمایتی واہ واہ کرتے ہیں، لیکن عوام پر کیا گزرتی ہے، اس کے مناظر یوکرین، غزہ لبنان، یمن، روس اور ایران میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہوں اور کھانے کے لیے دنیا بَھر سے بھیک مانگی جارہی ہو، تو جنگوں کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔تارکینِ وطن اور اس سے جڑے مسائل خود بخود پیدا نہیں ہوئے، لوگ اِتنے پاگل تو نہیں ہیں کہ بغیر کسی وجہ کہ اپنا مُلک چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھاتے پِھریں۔

غزہ، پھر لبنان اور اب براہِ راست ایران اور اسرائیل میں فوجی تصادم، عالمی طاقتوں کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر دونوں بڑی طاقتوں، امریکا اور روس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب جنگوں کو خیرباد کہہ دیا جائے اور تمام ممالک کی توجّہ اپنے عوام کی خوش حالی پر ہو۔ ’’سرد جنگ‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی، چھوٹے اور کم زور مُلک ایک دوسرے سے لڑتے اور تباہ ہوتے رہے۔

اِن میں تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ بڑی طاقتیں ہوں یا یورپ اور دیگر اہم خطّوں کے ممالک، اب ان میں سے کوئی بھی جنگوں میں اُلجھنا نہیں چاہتا، لیکن مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی، جو بار بار فوجی تصادم کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اِس ساری کمٹ منٹ پر پانی پھیر دیتی ہے۔

امریکا میں حال ہی میں صدارتی انتخابی مہم میں جس طرح دونوں جماعتوں نے اسرائیل کی حمایت کی، اِس سے نہیں لگتا کہ وہ اسرائیل کی حمایت سے فی الحال پیچھے ہٹیں گی۔حزب اللہ، حوثی یا حماس، ایران کے براہِ راست جنگ میں آنے کے بعد اب تہران سے کسی بڑی اور فوری امداد کی توقّع مشکل ہی سے کرسکتے ہیں۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطی میں مسلّح گروہوں کا کردار بتدریج گھٹتا جائے گا اور غالباً اِس یک طرفہ جنگ کو طول دینے کا ایک ہدف یہ بھی ہے اور اِسی لیے امریکا یا مغرب، اسرائیل کی پُشت پناہی کر رہا ہے، کیوں کہ اُنہوں نے ان تمام گروپس کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے اور وہ ان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

گزشتہ سال چین نے ایک غیر معمولی سفارتی کام یابی کے ذریعے سعودی عرب اور ایران میں معاہدہ کروایا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ دونوں ممالک میں سفارت کاروں کی تعیّناتی ہوئی اور صدر رئیسی سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اقوامِ متحدہ یا پھر بڑی طاقتوں کی چھتری تلے کوئی ایسی کانفرنس منعقد ہونی چاہیے، جس میں وہ روڈ میپ طے کیا جائے، جس سے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ختم ہوسکے۔مسئلے کی جڑ فلسطین پر اسرائیل کا غاصانہ قبضہ ہے، تو حالات میں بہتری کے لیے اسے حل کرنا ناگزیر ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ یک طرفہ خون ریزی رُکنی چاہیے، جو اسرائیل کی طرف سے جاری ہے۔

اگر امریکا، چین، روس اور یورپی ممالک ایک پیج پر آجاتے ہیں، تو ایسا روڈ میپ تیار کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ یہ تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی مشرقِ وسطیٰ میں جنگ نہیں چاہتا، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا، تو اب تک جنگ شروع ہوچُکی ہوتی۔ نیز، یہ بھی طے ہے کہ امریکا اور یورپ مضبوطی سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور حقِ دفاع کے نام پر اُسے ہر قسم کی فوجی، مالی اور سفارتی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

مسلم دنیا مخمصے کا شکار ہے، حالاں کہ مسلم اُمّہ کی نمائندہ تنظیم، او آئی سی کو اِن حالات میں عملی قدم اُٹھانا چاہیے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلم ممالک اور اُن کی تنظیمیں اب کسی قابل نہیں رہیں۔ انہوں نے گزشتہ تین سو سال میں ایسی کون سی ترقّی کی ہے، جس کی مدد سے یہ جدید فوجی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ صرف تیل کی دولت ہے، جسے نکالنے کے لیے بھی وہ مغرب اور روس کے محتاج ہیں۔

گو کہ ایران نے بہت سے جدید ہتھیاروں کی تیاری میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے، لیکن کیا پابندیوں کے بعد اس کی معیشت میں اِتنا دَم خم ہے کہ وہ ایک اور دس سالہ جنگ کا متحمّل ہوسکے۔ ان سارے عوامل پر بڑے ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔کون کہتا ہے کہ اسرائیل غاصب نہیں، جارح نہیں، لیکن صرف یہ کہنے یا سُننے سے جو کچھ ہوسکتا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اِسی لیے ہر قدم کو پہلے سیز فائر کی طرف جانا چاہیے اور پھر اس کے بعد فلسطین کے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، جو مشرقِ وسطی میں پائے دار امن لاسکے۔ بے گناہ شہریوں کا قتلِ عام ہر حال میں بند ہونا چاہیے۔

سنڈے میگزین سے مزید