• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منیٰ جاوید، ناظم آباد، کراچی

سرسبز و شاداب میدان، بَل کھاتے دریا، صحت بخش آب و ہوا اور معتدل موسم جیسے ماحولیاتی عناصر کسی مُلک کے باشندوں کی پُرسکون زندگی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔ 

تاہم، گزشتہ چند برسوں سے دُنیا ماحولیاتی آلودگی کی صُورت جن مسائل سے نبرد آزما ہے، ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا بنیادی سبب ’’گلوبل وارمنگ‘‘ ہے، جو گرین ہاؤس گیسز اور آبی بخارات کے سورج کی شعاؤں کے انجذاب کے باعث عالمی درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ خصوصاً صنعتی دَور میں اس میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور اسی بے ہنگم انداز سے نِت نئی صنعتوں کے قیام کے ساتھ تیل، گیس اور کوئلے کے بے جا استعمال میں اضافے کے نتائج آج پاکستان سمیت پوری دُنیا بھگت رہی ہے۔ 

گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی ویسے تو کئی وجوہ ہیں، مگر ان میں ایندھن کے حصول کے لیے فوسل فیولز کا استعمال سرِ فہرست ہے۔ واضح رہے کہ ان دنوں گاڑیوں اور جہازوں کے ایندھن کے لیے بھی فوسل فیول کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی کے سبب بھی درختوں میں موجود کاربن کے ذخیرے کا اخراج ہوتا ہے، جو گرین ہاؤس گیسز کا بنیادی جُزو ہے۔ دوسری جانب گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں درجۂ حرارت بڑھنے کے سبب گلیشیرز پگھل کر سطحِ سمندر میں اضافہ کر رہے ہیں، جس سے ساحلی علاقوں کے زیرِ آب آنے کا خطرہ ہے۔

پاکستان جہاں سیاسی، انتظامی اور اقتصادی مسائل کا شکار ہے، وہیں ماحولیاتی آلودگی نے بھی وطنِ عزیز کو شدید متاثر کیا ہے۔ 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا کے بدترین فضائی آلودگی انڈیکس رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے، جب کہ زندہ دِلوں کا شہر، لاہور دُنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں اِس وقت تیسرے نمبر پر ہے۔ 

نیز، موسمِ سرما میں لاہور میں ’’اسموگ‘‘ (دُھویں اور دُھند کا امتزاج) میں بھی خاصا اضافہ ہو جاتا ہے، جس کے باعث حدِ نگاہ انتہائی کم رہ جاتی ہے اور ٹریفک حادثات خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسموگ بھی گرین ہاؤس گیسز اور کچھ دوسرے کیمیائی مادّوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

یہاں تشویش ناک اَمر یہ بھی ہے کہ ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی 2023ء کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی میں اضافے کے سبب شہریوں کی اوسط عُمر میں چار سال تک کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔ انڈیکس کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان میں صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیز، یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ فضائی آلودگی میں اضافے سے دماغی صحت کے مختلف امراض لاحق ہو سکتے ہیں، جن میں اینزائٹی اور ڈیپریشن سرِ فہرست ہیں۔ 

دوسری جانب گلوبل وارمنگ کے سبب ’’پاکستان کا واٹر ٹینک‘‘ کہلانے والے گلیشیرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے باعث جون 2022ء میں مُلک کے مختلف حصّوں میں آنے والے سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ اس سیلاب کے نتیجے میں مُلک کا ایک تہائی حصّہ پانی میں ڈوب گیا اور بے تحاشا جانی و مالی نقصان ہوا۔

موسمیاتی تبدیلیوں ہی کے سبب وقت گزرنے کے ساتھ موسمِ گرما میں ’’ہِیٹ وَیو‘‘ کی صُورت درجۂ حرارت میں پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بالخصوص، کراچی تو موسمِ گرما میں ’’آگ کی بھٹّی‘‘ کی شکل اختیار کر جاتا ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق رواں سال ہیٹ ویو نے سیکڑوں افراد کی جانیں لیں۔ منصوبہ بندی سے عاری آبادکاری نے شہرِ کراچی کو ’’کنکریٹ کے جنگل‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے اور یہاں ہریالی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ 

شہر میں کافی تعداد میں درخت نہ ہونے کے سبب سیمنٹ کی دیواریں سورج کی کرنیں جذب کر کے گرمی کی شدّت میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں، جب کہ شدید گرمی کے دوران غیر علانیہ لوڈشیڈنگ مزدور طبقے کو بے حد متاثر کرتی ہے، جس کی وجہ سے مُلک کی مجموعی پیداوار میں کمی واقع ہونے کے ساتھ گھروں کا سکون بھی تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی تحفّظ کی اہمیت و افادیت کا اندازہ مقامی انگریزی معاصر کی ایک رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جس کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے نتیجے میں ہر سال کم از کم ایک لاکھ 28ہزار افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، جب کہ عالمی بینک اور ماحولیاتی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو آئندہ برسوں میں شدید درجۂ حرارت، قحط، خشک سالی اور سیلاب جیسے مسائل کا سامنا ہو گا۔ اس ضمن میں اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ ’’موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان جس قدر متاثر ہوا، اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘

مذکورہ بالا تمام حقائق اس خطرے کی طرف نشان دہی کر رہے ہیں کہ اگر ماحولیاتی تحفّظ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے، تو نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان کاسامنا کرنا پڑے گا۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے، بجلی پیدا کرنے کے قابلِ تجدید ذرایع جیسا کہ ہوا، پانی اور شمسی توانائی کا استعمال کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کے لیے مُلک بَھر میں ’’بلین ٹِری‘‘ جیسے منصوبے شروع کیے جائیں۔ 

نیز، روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں بائی سائیکلز اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو ترجیح دی جائے اور جس قدر ممکن ہو، پیدل سفر کیا جائے۔ یعنی عوام اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے دل و جان سے کوشش کریں۔