• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امریکی ڈالرتاریخ کی سب سے بڑی اُڑان بھرنے کے بعد اب اپنی قدرکھونے جارہا ہے، پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہونے سے اقتصادی صورتحال میں بہتری کی امید پیداہوگئی ہے،میڈیا اطلاعات کے مطابق انٹر بینک میں روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، عالمی کاروباری سرگرمیوں میں ڈالر کی قیمت میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے اورڈالرانٹربینک میں223 روپے کی سطح تک پہنچ گیا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں امریکی ڈالر کی تیزی سے بڑھتی قیمت نے ہماری ملکی معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ میں نے26جولائی 2018ء میں اپنے کالم بعنوان "ڈالر کی اونچی اڑان، ذمہ دار کون؟ـ میں سخت اظہار تشویش کیا تھا، حالانکہ اس وقت ڈالر 131 روپے کا ہوا تھا اور رواں برس ڈالر ناقابلِ یقین حد تک 240روپے تک جا پہنچا تھا۔ ڈالر کے بے قابو ہونے پر ہمیشہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی جا تی ہے،عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ڈالر کی قیمت کے تعین کا سب سے زیادہ اہم فیکٹر ڈیمانڈ اینڈ سپلائی ہے، کسی بھی چیز کی طرح اگرمارکیٹ میں ڈالر کی طلب زیادہ ہو گی تولامحالہ طور پر اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گا۔تاہم پاکستان میں روپے کی بے قدری کے عوامل اتنے سادہ نہیں ہیں،میں گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں موجود تھا جہاں میرے سامنے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھا کر اربوں روپے کمانے والوں میں مبینہ طور پرکچھ بینک بھی ملوث ہیں، گورنرا سٹیٹ بینک نے بینکوں کے نام لیکرکمیٹی کو بتایاہے کہ پہلے مرحلے میں آٹھ بینکوں کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں جبکہ دوسرے مرحلے میں باقی بینکوں کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں گی ۔میری نظر میں پاکستان میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے اور روپے کی بے قدری کی ایک بڑی وجہ پاک امریکہ تعلقات بھی ہیں، جب بھی پاکستان کے سفارتی تعلقات امریکہ سے بہتر رہے ہیں، پاکستان میں روپے کی قدر مستحکم رہی ہے اورپاکستانی روپیہ اس بری طرح سے بے قدری کا شکار نہیں ہوا ہے ، تاریخی طور پر قیام ِ پاکستان کے وقت 1947ء میں ایک امریکی ڈالر پاکستانی تین روپے 31پیسے کے برابرتھا، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی جانب سے امریکی دورے کا دعوت نامہ قبول کرنے سے نہ صرف ہماری خارجہ پالیسی کو ایک درست سمت مل گئی بلکہ پاکستانی روپے کی قدر بھی مستحکم ہوگئی، تاہم جب صدر ایوب خان نے 1958ء میں ملک میں مارشل لا نافذکیا تو ایک امریکی ڈالر چار روپے 76 پیسے پر پہنچ گیا، صدر ایوب کے زمانے میں پاک امریکہ تعلقات مثالی ہوگئے اورڈالر 1971ء تک اسی سطح پر برقرار رہا۔ اکہتر کی جنگ کے بعد امریکہ کو سانحہ مشرقی پاکستان کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈالرکی قدر بڑھتے بڑھتے 1977 تک نو روپے 90 پیسے تک پہنچ گئی۔صدر ضیاء الحق کو بھی امریکہ کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا جنکے دورِ اقتدار میں ڈالر دس گیارہ روپے کے آس پاس رہا لیکن نوے کی دہائی کے آغاز پر ڈالر کی قیمت اٹھارہ روپے تک پہنچ گئی۔نوے کی دہائی میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کیلئے رسہ کشی کا آغاز ہوگیا،پاکستان کے ہر مسئلہ کا ذمہ دارامریکہ کو ٹھہرایاگیا، عوام میں اپنا بیانیہ مقبول بنانے کیلئے امریکہ کو بطورسازشی کردارپیش کیے جانے لگا اور امریکی ڈالرساڑھے 49روپے تک جاپہنچا۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں سال 2000ء میں امریکی ڈالر کی قدر 53روپے تھی جو انکے زوال کے وقت 2008ء میں ساڑھے70روپے تک پہنچ گئی۔امریکہ کے قریبی اتحادی جنرل مشرف کے بعد 2009سے لیکر 2018ء تک ہماری ملکی سیاست میں امریکہ کا نام منفی انداز میں گونجتا رہا،کبھی سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ، کبھی نیٹو کی سپلائی کی بندش اور کبھی ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن، ان سب واقعات نے سفارتی سطح پر ہماری پوزیشن کمزور کی ، دوطرفہ تعلقات میں سردمہری کی وجہ سے ڈالر نے اپنی اڑان بھرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 2018ء تک 122روپے تک جاپہنچا۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں 2019ء میں ڈالر کی قدر 150روپے ہوگئی جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے تک ڈالر 180روپے کا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میںپی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ پاک امریکہ تعلقات میں مزید دوریوں کا باعث بن گیا، ایک پراسرار سائفر کی آڑ میں امریکہ کے خلاف الزام تراشی شروع کردی گئی،جلسے جلوسوں میں امریکہ کے بارے میں منفی زبان استعمال کی جانے لگی ، پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں وسیع ہونے پرڈالر 240روپے تک پہنچ گیا، ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح نے ہماری معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، امپورٹ ایکسپورٹ کا توازن درہم برہم ہوگیا، باہر سے سامان امپورٹ کراکر مقامی کرنسی میں بیچنے والے تاجر شدید خسارے میں چلے گئے ۔تاہم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورہ امریکہ نے یہ امید پیدا کردی ہے کہ دونوں ممالک آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرلیں گے،امریکہ میں جس شاندار طریقے سے جنرل باجوہ کو پروٹول دیا گیا ہے، اس سے حالات میں بہتری کی امید پیدا ہوگئی ہے اور پاکستانی روپے کی قدر پر بھی خوشگوار اثرپڑا ہے، قبل ازیں وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے بھی اپنے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کا موقف بھرپورانداز میں پیش کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا پاک فوج نے ہمیشہ آگے بڑھ کر پاکستان کی حفاظت کی ہے ، چاہے وہ ہماری ملک کی سرحدیں ہو، نظریاتی اساس ہو یا پھر معاشی چیلنج ،ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک اہم کردار ہمیشہ سے رہا تھا،رہا ہے اور رہے گا ۔امریکہ ہو یا چین، عالمی برادری کوبھی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ڈالر مستحکم رہے تو ہمیں عالمی ا یشوز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، ہمارے سیاستدانوں کو کسی صورت ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہیں دینا چاہئیں جس سے پاکستان کے سفارتی تعلقات امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے خراب ہوں اور اس کا براہ راست اثر پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین