• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ ہمارا بھی قصور ہے؟...صبح بخیر۔۔۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود

قوموں کا وقار قوموں کے کردار کا مرہون منت ہوتا ہے اور اس حوالے سے بقول اقبال قوم کا ہر فرد ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر فرد قومی کردار کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی قوم کا معتدبہ حصہ جھوٹ، لاقانونیت، دھوکہ دہی اور منشیات اسمگلنگ کا مریض ہو اورعالمی برادری اس قوم کو ایماندار، اصول پرست اور قانون کی پابند سمجھ لے۔ ہماری اکثریت جو کچھ بھی ہے دنیا ہمیں بحیثیت قوم اس حوالے سے جانتی اور پہچانتی ہے بلکہ اس پہچان کے عمل میں وہ اقلیت بھی پس جاتی ہے جس کا دامن پاک و صاف ہے اور ا سے بھی محض ایک دھوکے باز، جھوٹی و قانون شکن اور بے اصولی قوم کا فرد ہونے کی سزا ملتی ہے۔ اس ضمن میں میرے سامنے ہزاروں مثالیں ہیں جن کا ذکر کروں تو کتاب بن جائے گی لیکن اگر تجربات اور مشاہدات کا نام کتاب ہے تو پھر ہر کالم ایک کتاب ہی ہوتا ہے۔
وزیر آباد کی ایک مشہور اور معزز فیملی طوسی فیملی ہے جن کے ایک بزرگ کو قائد اعظم ؒ نے قیام پاکستان سے کئی برس قبل اپنے پاس بلا کر بمبئی والے گھر میں مہمان رکھا۔ قائد اعظم ان کی علمی وسعت اور تحریر سے متاثر تھے۔ ان کے ایک صاحبزادے جدہ میں ڈاکٹر ہوا کرتے تھے۔ شروع شروع میں وہ انگلستان میں پریکٹس یعنی ڈاکٹری کرتے تھے بعدازاں وہ سعودی عرب ہجرت کر آئے جہاں ان کی قابلیت کے سبب ان کو شاہی خاندان کے علاج معالجے اور قرب کا اعزاز حاصل رہا۔ کئی برس قبل میں عمرے کے لئے سعودی عرب گیا تو دو روز کے لئے جدہ میں قیام کیا۔ نہ جانے انہیں کیسے خبر ہوئی دوسرے دن وہ میرے پاس تشریف لائے اور کھانے کے لئے اپنے گھر لے گئے۔ انہوں نے قائد اعظم سے محبت ورثے میں پائی تھی اور اس محبت نے ان کے دل میں عقیدت کا روپ دھار لیا تھا اور شاید میرے اور ان کے درمیان یہی ایک قدر مشترک تھی۔کھانے کے دوران ان کے مرحوم والد گرامی طوسی صاحب اور قائد اعظم کے درمیان خط وکتابت کا ذکر ہوتا رہا اور پھر ہوتے ہوتے دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو ہونے لگی۔
ڈاکٹر طوسی صاحب سرخ و سپید رنگت کے حوالے سے بظاہر انگریز لگتے تھے ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ جب میں انگلستان سے ہجرت کرکے جدہ منتقل ہوا تو میں اپنے ساتھ لندن والے گھر کا سارا فرنیچر اور سازو سامان بھی لایا۔ سامان میرے جدہ پہنچنے کے کئی روز بعد آنا تھا کیونکہ اسے بذریعہ بحری جہاز بھیجا گیا تھا۔ ڈاکٹر طوسی کے بقول کہ انہوں نے جدہ میں گھر لیا، ڈیرہ لگایا تو چند دنوں کے بعد انہیں اطلاع ملی کہ ان کے سامان کے کارٹن بندر گاہ پر پہنچ چکے ہیں چنانچہ وہ سامان کی کلیرنس کے لئے جدہ بندرگاہ پہنچے اور سعودی کسٹم کے ا یک افسر کے کمرے میں جاکر اسے بتایا کہ میں لندن سے آیا ہوں اور اپنے سامان کی کلیرنس کے لئے حاضر ہوا ہوں۔سعودی افسر نے انہیں خوش آمدید کہا، قہوہ پیش کیا اور ان کے کاغذات کا معائنہ کرنے لگا۔ کاغذات دیکھ کر اس نے کہا کہ آپ اپنا سامان لے جائیں، اس میں ہمارے مزید معائنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ا س نے طوسی صاحب سے پاسپورٹ مانگے تاکہ کارروائی مکمل ہوجائے۔ طوسی صاحب نے اپنے خاندان کے پاکستانی پاسپورٹ سامنے رکھے تو وہ سعودی افسر ٹھٹکا اور لاشعوری طور پر اس کے منہ سے نکلا کہ میں تو آپ کو برطانوی سمجھا تھا اگر آپ پاکستانی ہیں تو ہمیں آپ کے کارٹن کھول کر سامان کی چیکنگ کرنا ہوگی۔ طوسی صاحب کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ دیکھتے ہی اس کا نہ صرف چہرے کا رنگ بدل گیا بلکہ رویہ اور سلوک بھی بدل گیا اور اس کے لب و لہجے پر بھی افسرانہ تمکنت چھاگئی۔ طوسی صاحب اس کے انداز دیکھ کر پریشان ہوگئے لیکن انہوں نے اپنے آپ پر قابو پاکر اسے کہا کہ بے شک آپ سارا سامان چیک کریں،یہ آپ کا اختیار ہے۔ کھانے کی میز پر میں ڈاکٹر طوسی صاحب کی گفتگو سن رہا تھا اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کھانے کا لقمہ حلق سے نیچے نہیں اتررہا کیونکہ بحیثیت قوم ہم سب اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔
طویل عرصہ قبل ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے میں ا ٓسٹریلیا کے شہر سڈنی گیا۔ سرکاری ملازمت کے حوالے سے میرے پاس نیلا پاسپورٹ تھا جو حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری افسران کو جاری کیا جاتا ہے۔ عام تصور کے مطابق دنیا بھر میں نیلے پاسپورٹ پر مقابلتاً بہتر سلوک کیا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ سڈنی ائیر پورٹ پر مسافروں کی لمبی قطاریں تھیں اور دنیا بھر کے لوگ تھے جن کے پاسپورٹوں پر امیگریشن والے مہریں لگا لگا کر جلدی جلدی فارغ کررہے تھے۔ میری باری آئی تو امیگریشن والے نے میرا پاسپورٹ بغور دیکھا، ویزے پر نظر ڈالی اور مجھے ایک طرف بیٹھنے کا حکم دے کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ میں ایک طرف صوفے پر بیٹھ کر تماشہ دیکھنے لگا کوئی پندرہ بیس منٹ بعد جب ہجوم چھٹا اور امیگریشن افسر فارغ ہوا تو مجھے بیٹھے رہنے کا حکم دے کر میرا پاسپورٹ لے کر دفتر کے ا ندر چلا گیا۔ میں صوفے پر قیدیوں کی مانند بیٹھا یہ سوچتا رہا کہ مجھے اپنی قوم کے مجرموں کے کرتوتوں کی سزا دی جارہی ہے۔ وہ کوئی نصف گھنٹے کے بعد لوٹا اور مہر لگا کر میرا پاسپورٹ میرے حوالے کردیا۔ جب میں نے پوچھا کہ میں اس سلوک کا سزاوار کیوں ہوا تو اس نے سوری بولا، افسوس کا اظہار کیا، مسکرایا اور کہنے لگا کہ کل ہی چھ پاکستانی کشتیوں کے ذریعے سڈنی میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہوئے پکڑے گئے ہیں جس کے بعد پاکستانیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایات موصول ہوئی ہیں۔ میں آپ کے ویزے کی تصدیق کے بغیر آپ کی آمد کی مہر نہیں لگا سکتا تھا اس لئے آپ کو زحمت ہوئی۔ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ باہر نکلا تو ہمارے قونصلیٹ کا ملازم جو مجھے لینے آیا تھا پریشان کھڑا تھا کہ شایدہماری حکومت کے ایک معزز افسر کو ڈی پورٹ کردیا گیا ہے۔ میں نے اسے اپنی رام کہانی بتائی تو اس نے واقعے کی تصدیق کی۔ہم دونوں کچھ دیر تک اس صورتحال پر کڑھتے رہے بلاشبہ غربت ایک لعنت ہے اور غربت ہی ان تمام مسائل کی جڑ ہے لیکن جن قوموں میں غیرت کی کچھ رمک باقی ہوتی ہے وہ غربت کے باوجود اپنے قومی وقار کا سودا نہیں کرتیں۔ اس حوالے سے میں نے گزشتہ پچیس برسوں میں چین میں ایک خاموش انقلاب آتے دیکھا ہے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی کے دوران1980-90میں چین میں قابل رحم حد تک غربت نظر آتی تھی ۔سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی اتنی غربت نہیں ہے جس کے مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے چین میں1986-87میں دیکھے لیکن فاقہ کشی اور زندگی کی تمام سہولتوںسے محرومی کے باوجود چینی غیر قانونی طریقوں کے ذریعے کم کم ہی بیرون وطن جاتے تھے۔ غربت کے باوجود ان سے اتنا برا سلوک نہیں ہوتا تھا جتنا پاکستانیوں سے آج ہوتا ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں جس طرح چین نے خوشحالی کی منازل طے کی ہیں اس سے چین کو عالمی سطح پر مزید وقار حاصل ہوا ہے اور چینیوں کو مزید احترام ملا ہے۔ اس احترام کو کمانے میں ہر چینی نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔
یہاں تک لکھ چکا ہوں تو مجھے وہ باریش، نہایت سادہ لوح، عاجز اور خالص دیہاتی بزرگ یاد آرہا ہے جو جدہ ایر پورٹ پر قطار میں میرے آگے کھڑا تھا۔ اس کا بیٹا مزدوری کرنے سعودیہ گیا تو اس نے کچھ رقم بچا کر اپنے اباجی کو عمرے کے لئے بلایا تھا۔ وہ باہر کھڑا شیشے کی دیواروں سے ابا جی کو آتے دیکھ کر خوش ہورہا تھا اور اباجی بھی اللہ کے گھر کی زیارت کی لگن میں ڈوبے ہوئے لگتے تھے۔ انہوں نے نئی قمیض دھوتی اور نئے جوتے پہنے ہوئے تھے جو شاید انہیں کبھی عید پر بھی نصیب نہیں ہوئے تھے۔ وہ سامان لے کر کسٹم آفیسر کے پاس پہنچے ،کسٹم آفیسر نے رعونت سے بابا جی کو جوتے اتارنے کا حکم دیا جو انہیں اشاروں سے سمجھانا پڑا۔ کسٹم آفیسر نے جوتے میز پر رکھے اور ٹوکے سے دو ،دو ٹکڑے کردئیے کیونکہ اسے شبہ تھا کہ ان میں ہیروئن چھپائی گئی ہوگئی۔ بابا جی کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ حیرت کا بت بنے کھڑے تھے۔ مجھ پر نظر پڑی تو نہایت بھولپن سے پوچھا پتر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے؟ میں نے صدمے پر قابو پاتے ہوئے عرض کیا بابا جی آپ کو پاکستانی ہونے کی سزا ملی ہے۔ اب آپ اپنا اٹیچی کیس لے کر باہر چلے جائیں آپ کی شنوائی ا للہ پاک کی عدالت میں ہوگی۔ وہ صبر و تحمل کی تصویر بنے چلے گئے اور میں اپنی توہین کا انتظار کرنے لگا اور دل میں دعا کرنے لگا اے میرے رب میری قوم کو ہدایت دے۔
تازہ ترین