Zulfiqarcheema@hotmail.com
ہر محفل میں حکیم اللہ کی موت کا ذکر ہورہا ہے مگر ہم موت کی بجائے زندگی کا ذکر کریںگے جو چھوٹی سکرین کے طفیل پانچ سو سال بعد حورم سلطان کو نصیب ہو ئی ہے۔ ترکی کا ڈب کیا ہو ا ڈرامہ’’ـمیرا سلطان ‘‘ بہت مقبول ہے جسے عوام خصوصاًخواتین بڑے شوق سے دیکھتی ہیں، میرال اوکے( Meral Okay) کا لکھا ہوا یہ ڈرامہ سلطنت ِعثمانیہ کے دسویں حکمران سلیمان خان، شاہی خاندان، حرم کی کنیزوں، غلاموں ، مصاحبوں، شاہی محل کی غلام گردشوں میں جنم لینے والی کہانیوں اور درونِ خانہ ہونے والی سازشوں کی فلمی کہانی ہے۔ اگر اُس زمانے میں پرائیوٹ چینل ہوتے تو ہر تین منٹ کے بعد کسی محلّا تی خبر کی بریکنگ نیوز چلتی۔ ڈرامے کا مصنف (جو چند ہفتے قبل وفات پاگیاہے) ایک قسط میں جتنے موڑ ڈالتا ہے اتنی ہی کنیزیں مرواتا ہے۔ لگتا ہے ڈرامے کا ڈائریکٹر ہماری پنجابی فلموں کے کسی ڈائریکڑ کی شاگردی میں رہ چکا ہے جس نے ڈرامے میں لباس سمیت ہر قسم کی وہ بیہودگیاں وافر مقدار میںڈالی ہیں جو پست درجے کی فلموں کا حصّہ ہوتی ہیں۔ عثمانی سلطنت کے بارے میںپہلے بھی کچھ پڑھ سن رکھا تھا،ڈرامے کی کچھ قسطیںدیکھ کر سلطان سلیمان کے بارے میں مزید جاننے کا تجسّس پیدا ہوا۔کچھ تاریخی حقائق قارئین سے بھی Share کرنا چاہوں گا۔ ڈرامہ دیکھ کر لگتا ہے کہ سلطان کا زیادہ وقت حورم اور دیگر کنیزوں کی کمپنی میں ہی گزرتا تھا۔ اور وزیراعظم ابرہیم پاشاکے بھی یہی معمولات تھے۔ تاریخی حقائق ایسے نہیں ہیں۔
جری اور بہادر عثمانیوں کی تقدیر کا آغاز چودھویں صدی میں انقرہ کے قریب ایک چھوٹی سی زمینداری سے ہوا۔ ایک صدی بعد وہ درّہ دانیال کو عبور کر کے ایک تنگ آبنائے پر سے اپنی کشتیاں پار لے گئے اور قسطنطنیہ کی تہری فصیلیں پار ہ پارہ کرکے اس پرقابض ہوگئے۔ عثمانیوں کے عروج کی داستان حیرت انگیز ہے ، وہ وسط ایشیا کے پہلے جنگجو تھے جنہوں نے یورپ پر یورش کی اور وہاں حکومت قائم کی۔سولہویں صدی تک وہ ایک سُپر پاور بن چکے تھے جنہوں نے خیرالدین باربروسا کی مدد سے اس وقت کی سب سے بڑی نیوی تیار کی اور سمندوں پر تسلط قائم کیا۔ مسلم ترکوں کے پا س اُسوقت اتنے بحری جہاز تھے کہ اس وقت کے تمام یورپی ممالک کے جہاز جمع کیے جائیں تو بھی وہ عثمانی سلطنت سے کم تھے۔
قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) طاقتور رومن ایمپائر کا پایۂ تخت تھا جسے مسلمانوں نے پہلے بھی کئی بار فتح کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔ 1453میں ساتویں عثمانی ترک حکمران سلطان محمد ثانی نے قسطنطنیہ تسخیر کیا اور سلطان محمد فاتح کہلایا۔ اس عظیم فتح کے بعد محمدفاتح نے مفتوح عیسائیوں کا قتلِ عام نہیں کیا بلکہ یہ قانون نافذ کیا کہ ’’ آج کے بعد مسلمان اور عیسائی رُتبے میں برابر ہونگے۔‘‘ سلطان محمد کے بیٹے بایزید نے تخت نشین ہو کر ایک اور حکم جاری کیا جس کی رُو سے عثمانی ترکوں پر لازم تھا کہ وہ یورپ کے اُن ملکوں کے باشندوں سے زیادہ تعلیم حاصل کریں جنہیں انہوںنے تسخیر کیا تھا۔ ان دونوں سلطانوں کے ساٹھ سالہ دور میں ہر دو قوانین پر سختی سے عمل کیاگیا۔ بایزید کی زندگی ہی میں اس کے بیٹے سلیم نے بغاوت کردی مگر بوڑھے باپ سے شکست کھائی اور اپنے سسرال کریمیا کے تاتاریوں کے پاس پناہ حاصل کی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد بایزید نے سلیم کو بلا بھیجا اور اس کے حق میں تخت سے دستبردار ہوگیا۔ سلطان سلیم بڑا زیرک اور سخت گیر تھا۔ اس کے دور میں ترکوں نے شمالی افریقہ کے علاوہ فلسطین سمیت پوری سرزمین عرب کو فتح کیا اور یورپ کی جانب یورش کی۔ یورپی حکمران عثمانی ترکوں کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھنے لگے تھے۔سلطان سلیم کی وفات پر پاپائے روم لیودھم شکر بجالایا کہ کچھ عرصے کیلئے ترکوں کا خطرہ ٹل گیا کیونکہ ترکوں کا سلطان جو افق پر شہابِ ثاقب کی طرح چمک رہا تھا یورپ میں داخل ہوتے ہی غروب ہو گیا۔ اس کی وفات پر پاپائے
روم نے خوشیاں منانے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ سارے رومتہ اکبری میں بھجن گائے جائیں ۔
سلطان سلیمان اپنے والد سلطان سلیم کی وفات کے بعد 1520میں26سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اس کی تخت نشینی پر ایک یورپین صحافی نے لکھا ’’ کہ ایک نوجوان میمنہ ایک خوفناک شیر کا جانشین بنا ہے کیونکہ سلیمان آرام کی زندگی گزارنا چاہتا ہے ‘‘ یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔
ہیرالڈلیم لکھتا ہے کہ
’’ عثمانی روایات کے مطابق نئے سلطان سلیمان کی تاجپوشی یا حلف برداری کی رسم شہید صحابی حضرت ایوب ؓ انصاری ( جنہیں ہجرت کے وقت میزبانِ رسول ﷺ ہونے کا شرف حاصل ہوا) کے مزار پر ہوئی۔ یہاں کے متولّی اور بزرگ سلطان کو تلوار پیش کرتے، سلطان کی کمر سے تلوار باندھنے کے بعدبزرگ درویش ہاتھ پکڑ کر سلیمان کو ایک بلند چبوترے پر لے گیا۔ عوام کا بہت بڑا اجتماع اس تقریب میں موجود تھا۔ مردِبزرگ نے باآوازِ بلند کہا کہ ’ ’ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کو سلطان بنایا جارہا ہے۔ اے آلِ عثمان کے سرتاج ! خدا تجھے نیک ہدایت دے۔کیونکہ اگر تو غلط راستے پر چلا تو خدا تیرا ساتھ نہ دے گا۔ ‘‘ والد کو قبر میں اتارنے کے ساتھ ہی نئے حکمران سلیمان نے حکم دیا کہ اس کے والد کے مقبرے کے ساتھ ایک مسجد، بیماروں کیلئے شفاخانہ ،مسافروں کیلئے سرائے اور حصولِ علم کیلئے ایک مدرسہ قائم کیا جائے۔ عوام میں یہ تاثربہت جلدپھیل گیا کہ سلطان سلیمان کے پاس جو بھی انصاف طلب کرنے کیلئے حاضر ہوا اس کے ساتھ انصاف کیا گیا خواہ وہ اجنبی ہو ، کسان ہو یا عیسائی رعایا ہو۔
ٌٌسلطان سلیمان نے بہت سی جنگوں کی خود کمان کی ۔ بے پناہ بہادر اور ذہین سلطان کی یلغار اور تلوار کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ ذرا سوچئے یورپ آج ہمارے لاکھوں نوجوانوں کیلئے امکانات اور آرزئوں کی جنت اور عالمی سیاست کا پردھان ہے ۔ سلیمان کے برق رفتار گھوڑوں نے چند سالوں میں ہی آدھے یورپ کو روند ڈالا۔ سلطان نے جدھر کا رُخ کیا فتح کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ شہر اور ملک یکے بعد دیگرے ا س کے قدموں میں ڈھیر ہوتے گئے۔ پہلے ہی سال بلغراد فتح ہوگیا پھر بَوڈاپسٹ اور ہنگری فتح ہوا اور اس کا حکمران لوئیس مارا گیا۔وہ رہوڈز پر چارسو بحری جہازوں کے ساتھ حملہ آور ہوا اور اسے فتح کیا، بلقان کی ساری ریاستیں اس کے زیرِنگیں آ گئیں۔ روس غیرمعروف تھا اور انگلستان اور جرمنی اس وقت کمزور ملک تھے ۔فرانس کے حکمران نے سلطان سے دوستی کرکے عافیت حاصل کی۔ اٹلی کا بڑا حصہ سلطنت کا حصہ بنا ،ہنگری فتح کرنے کے بعد سلطان کی فوجیں آسٹریا کی دہلیز پر پہنچ گئیں تو وہاں کا حکمران فرڈیننڈ فرار ہوگیا۔ ترک فوجوں نے کئی ماہ تک ویانا کا محاصرہ کیے رکھا۔ موسم کی شدّت محصورین کا ساتھ نہ دیتی اور سلطان واپسی کا قصد نہ کرتا تو آج یورپ کی تقدیر مختلف ہوتی۔ سلطان نے مشرق کا رُخ کیا تو تبریز تک جا پہنچا اسے چھوڑ کر بغداد پر تسلط قائم کیا، یمن، مسقط، اومان، مراکش، تیونس، الجزائر، انڈونیشیا، فلسطین اورعرض ِحجاز سب مسلم عثمانی سلطنت کے حصے تھے ۔ عثمانیوں نے ارضِ حجاز کی فتح کے بعد حرمین کی توسیع و تزئین بے پناہ عقیدت سے مکمل کی۔ بغداد کی فتح کے بعد سلطان سلیمان نے امام ابو حنیفہؒ اور حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے مقبروں کی تعمیر و تزئین کرائی۔ مشہور کہاوت ہے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ مگر سلطان کے انصاف کا یہ عالم تھا کہ ایک جنگ کے دوران سوار کو عصا سے اس لئے زدکوب کیا گیا کہ اس نے کھیت میں پکی ہوئی فصل کو کچل ڈالا تھا اور پھر ایک بار اپنے ہی ایک بندوقچی کا سر اس جرم پر قلم کر دیا گیا کہ اس نے باغ سے پھل چرائے تھے۔پاپائے روم کے قریب ترین صحافی یعنی اس کے پریس سیکرٹری نے لکھا ہے ’’ جنگ کے عالم میں ترکوں کا فوجی نظم وضبط اس لئے اعلیٰ ہے کہ وہ انصاف اور ضبط ِنفس پر مبنی ہے۔ اس لحاظ سے ترک رومیوں سے برتر ہیں۔‘‘
مسلم حکمرانوں میں سے سلطان سلیمان کی شخصیت کے بارے میں یورپی رائیٹرز نے سب سے زیادہ لکھا ہے۔ شیکسپیئر نے بھی اپنی شاعری اور ڈارموں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ غیرمسلم مؤرخین اُس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ وہ طویل قامت اور باوقار تھا اس کی طبیعت سے متانت اور اپنے آپ پر اعتماد کا اظہار ہوتا تھا۔ جو اسے دیکھتا اس کی
تعریف کرتا اور دعائیں دیتا تھا۔ وہ بہت ذہین، متوازن اور نفاست پسند تھا۔ دریائے ڈینیوب سے لے کر دریائے نیل کے دھانے تک کوئی دروازہ ایسا نہ تھا جو اس پر بند ہو ۔تین بَراعظموں پر اس کا تسلّط تھا۔بلاشُبہ عثمانی ترکوں کی حکومت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی اور سلطان سلیمانِ اعظم دنیا کا طاقتور ترین انسان تھا جس کے دربار میں یورپی ملکوں کے نمائندے اسی طرح عاجزانہ اور خوشامدانہ انداز اختیار کرتے جس طرح آج کل تیسری دنیا کے ملکوں کے نمائندے امریکہ ، یورپ اور چین میں کرتے ہیں ۔یہ حقائق تاریخ کا حصہ ہیں اور تاریخ کا یہ باب مسلمانوں کیلئے ہمیشہ باعثِ افتخار رہے گا۔ جب غلام ہندوستان کے شہری انگریز سے آزادی حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے تھے تو ایک جلوس کے قریب ہی لاہور کی مال روڈ پر پر صفائی کر تے ہوئے ایک عیسائی خاکروب نے دوسرے پوچھا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا ’’ ایہہ ساڈے کولوں آزادی منگدے پھردے نے‘‘ (یہ ’’ہم‘‘ سے آزادی مانگ رہے ہیں) خاکروب نے اپنا رشتہ عیسائی انگریز حکمرانوں کے ساتھ جوڑ لیا اور یہ رشتہ آج بھی کمزور نہیں ہوا۔ تو کیا ہندوستان کے مسلمانوں کا ان عثمانی ترکوں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں بنتا جنہوں نے حرم کی پاسبانی اور گنبد ِخضریٰ کی نگہبانی کیلئے ساری عقیدتیں اورمحبتیں نچھاور کر دیں۔ایک دانشور دوست نے کئی بار کہا ہے کہ جب یورپی مؤرخین کی تحریر پڑھتا ہوں کہ ’’ سلطان سلیمان کے نام سے یورپی حکمرانوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں اور اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سے ان کے دل لرزتے تھے ‘‘ تو قلب و دماغ ہی نہیں روح تک جھوم اٹھتی ہے۔ مگر جب اقبالؒ پوچھتا ہے کہ ’’ تھے آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر ِفردا ہو!تو سوائے ندامت کے کوئی جواب بن نہیں پڑتا۔ سلطان سلیمان چھیالیس سال تک وقت کی سُپر پاور کا حکمران رہا ۔ اس کی سلطنت کی وسعت اور شان و شوکت کے پیشِ نظر مورّخ اسے سلیمانِ اعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اور یورپ میں وہ Suleman the Magnificent (سلیمان عالیشان ) نام سے معروف ہے۔ دنیائے اسلام میں اس کی قانونی اِصلاحات کے باعث اسے ’’ سلیمان قانونی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سلیمان کو علم و ادب سے خاص شغف تھا پانچ زبانوں پر عبور رکھنے والا سلیمان شاعر بھی تھا۔ وہ تیغ اورقلم دونوں کا دھنی تھا۔ اُس وقت کے یورپی مؤرخ عثمانی سلطنت کی طاقت اور وسعت کو ان کی جفاکشی اور بہادری سے منسوب کرتے مگر بہت سے راز دانوں کے نزدیک ان کی حیرت انگیز طاقت کا راز وہ ’’درسگاہ‘‘ تھی جو سلیمان کے جدِامجد سلطان محمد فاتح نے تعمیر کرائی تھی۔ آج کل کے کیڈٹ کالج کے طرز پر بنائے گئے اس ادارے کا ڈسپلن انتہائی سخت تھا اس کے ہوسٹلوں میں آٹھ سے اٹھارہ سال کے چھ سو لڑکے رہتے تھے۔ پہلی تیس پوزیشنیں حاصل کرنے والے سلطان کے مقربین بنتے اور انہیں نظم و نسق کے اعلیٰ عہدے دیئے جاتے۔ سلطان سلیمان نے خود بھی اسی سختی اور پابندی کے ساتھ تعلیم وتربیت حاصل کی تھی۔ کئی یورپی مؤرخین کی رائے میں عثمانی ترکوں کے ’’ اس مدرسے کی تعلیم و تربیت کا معیار یورپ کے تعلیمی اداروں سے کہیں بلند تھا۔‘‘ راز کھل گیا کہ ان کی عظمتوں اور اوجِ کمال تک پہنچنے کا موجب تعلیم۔ حصولِ علم کا جنون تھا۔جہاں تک حرم کا تعلق ہے یورپی مورخ ہیرالڈلیم لکھتا ہے کہ ’’ محل سرائے میں ایک دالان حرم کے حصے کو سلطان کے دیوان خانے سے جدا کرتاتھا۔ جب سلطان حرم میں داخل ہونے لگتا تو دستور کے مطابق پہلے کہلا بھیجتا۔ حرم کی عورتیں پردہ دار تھیں۔ ‘‘ ایک اور یورپین رائیٹرنے لکھا ہے کہ ’’یہاں کی عورتیں خوبصورت اور خوش اندام ہوتی ہیں۔ وہ جب باہر نکلتی ہیں تو نقاب پہنے ہوتی ہیں ،سڑکوں پر وہ برقع کی آستینوں میں اپنے ہاتھ چھپا لیتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا ہاتھ بھی کسی کو نظر آجائے تو انہیں بے حیا اور بیسوا سمجھا جائے گا۔‘‘ بحیثیت ِسلطان سلیمان کا گھر فوج کے خیموں میں تھا وہ بہت کم حرم سرا میں جایا کرتا تھا ۔‘‘ مگر ترک حکمرانوںمیں مطلق العنان بادشاہوں والی خامیاں بھی تھیں۔ بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر سلیمان نے اپنے وزیراعظم ابراہیم پاشا اور دو بیٹوں مصطفےٰ اور بایزید کو قتل کرا دیا۔ اس کے دامن پر لگا ہوا یہ داغ کبھی نہ مٹ سکے گا۔ عثمانی ترک بے شک اپنے پیشروؤ ں جیسے نہ تھے، ترک فوج کا مقابلہ یرموک اور قادسیہ میں لڑنے والے مسلمانوں سے نہیں کیا جاسکتا کہ وہ درسگاہِ رسالتمآبؐ کے تربیت یافتہ تھے اور آفتاب کی روشنی ان جیسے اعلیٰ کردار کے انسانوں کو پھر کبھی نہ دیکھ پائے گی۔ ذاتی کردار میں صلاح الدین ایوبی ان سے ارفع تھا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود عثمانی ترک بشمول سلطان سلیمان آج کے دور کے ہم جیسے مسلمانوں سے بہتر مسلمان اور بہتر انسان تھے۔