• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرنسپل سیکرٹری سابق وزیراعظم نواز شریف

ویسے تو پچھلے کئی برسوں سے مملکت خداداد میں جس طرح جھوٹ، فریب اور کھلے عام دغابازی کی حکمرانی ہے اس نے بہت حد تک مجھ جیسے لوگوں کو جو بہرطور رب بزرگ و برتر اور اس کے یوم حساب پر یقین رکھتے ہیں، ذہنی طور پر ایسی بات کیلئے تیار کردیا ہے جس کا سچائی سے دور تک کا بھی واسطہ نہ ہو۔ پھر بھی جب یہ واضح تاثر ابھرا کہ شاید مجھے جیل بھیجنے کی وجہ میرے کچھ اعمال یا کردار تھا اور اب اعظم خان کے ساتھ بھی وہی ہونے جارہا ہے تو یقین نہیں آیا۔ شاید اس لئے بھی کہ مجھے ہمیشہ یہ گمان رہا ہے کہ صحافی ان تمام حقائق سے بخوبی واقف تھے اور ہیں جنکی وجہ سے مجھے بے بنیاد، من گھڑت اور مکمل جھوٹ پر مبنی الزامات پر جیل بھیجا گیا۔ خیر میری خوش گمانی اپنی جگہ اور الزامات اپنی جگہ، سو میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کم از کم کچھ ایسے حقائق ضرور سامنے رکھوں جن سے دانستہ طور پر یا غیردانستگی میں اغماض برتا گیا ہے۔

لوگوں کو اچھی طرح سے علم ہے کہ میں آج تک کسی ’’منافع بخش‘‘ عہدے پر براجمان نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اسکی خواہش رکھی ہے۔ میری ملازمت کے ابتدائی دس سال بلوچستان میں گزرے جنہیں میں آج بھی بہترین دنوں میں شمار کرتا ہوں۔ اس دوران میں نے کیسے اپنی فرائض نبھائے۔ یہ جاننا ہو تو آج بھی کوئٹہ میں جنگ کے سب سے معتبر نمائندے یا خود ذاتی طورپر تحقیق کرلیجئے بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ ایسا کرتے ہوئے کوئٹہ میں کسی سے بھی میرے اور میرے محتسب جاوید اقبال کے کردار اور دیانت دونوں کا تعین کرلیا جائے وہ اس لئے کہ جن دنوں میں کوئٹہ میں اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز تھا تو وہ بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے اور ہم ایک ہی عدالتی احاطے میں کام کرتے رہے۔ میں نے ہمیشہ ایسے عہدوں پر کام کیا جو مشکل سمجھے جاتے تھے اور کسی سے بھی پوچھ لیا جائے اوتھل ضلع لسبیلہ کے صحرا سے لے کر وزیراعظم ہائوس اور اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار کی ریگزاریوں تک، میں نے ایک ہی جذبے، لگن اور محنت سے کام کیا۔ رہی وزیراعظم کے سیکرٹری کے طور پر تعیناتی تو جب مجھے اس کیلئے کہا گیا تو میں نے وزیراعظم نوازشریف سے اس پر اختلاف کیا اور انہیں قائل کرنے کیلئے تین افسران کے انٹرویو کرائے۔ عظمت رانجھا، ندیم حسن آصف اور حسیب اطہر، تینوں آج بھی حیات ہیں اور سب سے علیحدہ علیحدہ تصدیق جاسکتی ہے ۔ اسکے باوجود وزیراعظم نے میری تقرری کے احکامات جاری کئے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیںکہ میں نے اس حیثیت میں اسی جوش اور جذبے سے کام کیا جو اس عہدے کا تقاضا تھا لیکن کسی ایک لمحے کیلئے بھی قانون اور قاعدے سے متضاد کوئی رائے دی نا ہی کسی ایسے حکمنامے پر بلاجواز دستخط کئے۔ وزیراعظم ہائوس میں ان پانچ برسوں میں تعینات کسی بھی افسر یا اہلکار کو بلائیں، حلف لیں اور پوچھیں کہ کیا ایک لمحے یا ایک مرتبہ کبھی انہیں یہ کہا گیا کہ کسی فائل پر اپنا نقطہ نظر لکھنے سے پہلے پوچھ لیں۔ اسکے برعکس ہر ایک کو بارہا کہا کہ آپ کا کام بغیر کسی دبائو کے قانون اور قاعدے کے مطابق فائل دیکھنا ہے اور اس پر تحریری رائے دینا ہے۔ اگر مجھے اور وزیراعظم کو اس سے اختلاف ہوگا تو اسے تحریری طورپر قلم زد (Overrule) کریں گے، زبانی نہیں میری گرفتاری کے بعد چار ماہ تک ایک ٹیم وزیراعظم ہائوس میں بیٹھی ایک ایک کاغذ چھانتی رہی اسکی بھی جس سے وہ چاہے تصدیق کرلیں یا پھر خود ارباب شہزاد اور اعظم خان سے ہی پوچھ لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اس سے بھی بڑھ کر میرے خلاف بنائے جانے والے دونوں ریفرنس چھان لیں کہ کسی ایک بھی ایسے فیصلے کا ذکر ہے جس سے مجھے کوئی فائدہ ملا ہو یا جو براہ راست یا بالواسطہ میرے کسی عزیز، رشتہ دار یا دوست کے فائدے کیلئے ہو۔ کیا میرے خاندان کا کوئی شخص کسی سرکاری عہدے کے آس پاس بھی پھٹکا ، کیا کس نے وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں سے یا ان کے زیرانتظام اداروں سے ایک پائی، کوئی کنٹریکٹ، کوئی فائدہ لیا؟ کیا کسی کے اکائونٹ سے تحقیقات کے دوران کوئی TT، کوئی ناقابل تصدیق (Untraceable) رقومات ملیں؟ اس کے باوجود مجھے دو ایسے مقدمات میں ملوث کیا گیا اور آج تک عدالتی حاضریوں سے گزارا جارہا ہے جن میں سچائی کا رتی بھر بھی شائبہ نہیں۔ میں نے بدترین (Media Victimisation) کے باوجود آج تک اپنے آپ کو

روکا ہے کہ زیرسماعت مقدمات پر بات نہ کروں لیکن کوئی بھی اینکر جس روز چاہے روبرو بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہوں لیکن صرف اسی وقت جب وہ پروگرام براہ راست نشر ہو اور آپ چاہیں تو نیب سے کسی بھی شخص یا خود جاوید اقبال کو بلوالیں کہ وہ بھی روبرو ہوجائے۔ رہی بات باقی منافع بخش عہدوں کی تو میں شاید ان معدودے چند پرنسپل سیکرٹریوں میں ہوں جنہوں نے کہنے کے باوجود ورلڈ بینک یا ADBیا کسی اور بھی ادارے میں جانے سے انکار کیا نہ صرف یہ بلکہ اس متعلقہ فائل پر میرا لکھا ہوا وہ نوٹ آج بھی محفوظ ہے جس میں، میں نے کہا ہوتا کہ ایسی تمام تعیناتیاں ایک سلیکشن پروسیس (Selection Process) کے ذریعے ہونی چاہئیں اور نہ صرف یہ کہ وزیراعظم یا وزیر خزانہ یا متعلقہ وزیر کو اس پر براہ راست تقرری کا اختیار نہیں ہونا چاہئے بلکہ وزیراعظم اور متعلقہ وزیر کے اسٹاف میں تعینات کوئی بھی سرکاری ملازم سرے سے اس کیلئے اہل ہی نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ یہ Conflict of Interestکے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے نظام کار اور احتساب کا کمال تو یہ ہے کہ ایسے عہدوں پر اپنی تقرریوں کے براہ راست حکمنامے جاری کرنے والے تو ایماندار، صادق اور امین پھرتے ہیں اور مجھ جیسا شخص بے ایمان…جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ ایک تکلیف اور کی جائے اس وقت کی وزارتوں اور اداروں میں تعینات کسی بھی شخص سے پوچھا جائے کیا میں نے کبھی کسی کو کسی منفعت بخش عہدے پر تعینات کرنےکے احکامات دیئے؟ احکامات تو چھوڑیئے کیا سفارش بھی کی؟ ان میں سے کئی آج بھی اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور ان میں سے کئی ایک میرے خون کے پیاسے بھی ہیں، سو مجھے یقین ہے کہ تکلف نہیں کریں گے۔ یہ بھی پوچھا جائے کہ مجھ سے پہلے یا بعد میں یہ تقرریاں کیسے ہوتی رہیں۔

لوگوں کو شاید یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ ’’آشیانہ‘‘ میں مجھ سے متعلق الزامات کا ٹرائل آج چار سال کے بعد بھی شروع نہیں ہوسکا جبکہ ناجائز اثاثوں کے کیس میں پہلے نیب نے ریفرنس فائل کرنے میں تقریباً ایک سال کا وقت لیا اور باقی 3سال میں سے 2سال سے زائد عرصہ متعلقہ عدالت میں کسی جج کی تعیناتی ہی نہیں کی گئی۔ یہ صورتحال آج بھی ہے اور 31مئی 2022ء سے عدالت خالی ہے اور ہم پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ میں نے پچھلی حکومت کی فسطائیت کا بھی مقابلہ کیا ہے اور اس حکومت کا بھی کررہا ہوں۔ اس سے میرے خاندان کو کیا کیا نقصانات ہوئے اور ہورہے ہیں اس کا حساب ایک دن یہاں نہیں تو اللّٰہ کی عدالت میں ہوگا کیونکہ مالی نقصانات سے بہت زیادہ اہم وہ ذہنی کرب اور دکھ ہے جو میری بیوی، بچوں، بھائیوں اور ان کی اولاد کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ کبھی وقت ملے تو یہ ضرور سوچیں کہ وہ کو ن سے عوامل تھے اور ہیں جن کی بنیاد پر یہ سب سلسلہ چل رہا ہے۔

میں نے گزشتہ چار سال سے انتہائی صبر سے بدترین اور بے بنیاد Victimisation کا سامنا کیا ہے اور صرف اس لئے زبان نہیں کھولی کہ میں ایک حساس عہدے پر کام کرتا رہاہوں اور بدقسمتی سے پورا سچ بولنے کا بھی عادی ہوں۔ اگر کچھ کہوں گا تو اپنی عادت کے مطابق کسی پر پردہ نہیں ڈالوں گا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ میں آپ ہی کی وساطت سے سپریم کورٹ سے یہ درخواست کررہا ہوں کہ وہ نیب کے قوانین اور مقدمات کے متعلق جو کیس سن رہے اس میں مجھے بھی طلب کرلیں اور صرف چند منٹ میرے دو کیسوں کا احوال بھی سن لیں شاید انہیں درست فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ واضح کرتا چلوں کہ میں نہ تو نیب کے قوانین میں ترمیم کا حامی تھا اور نہ ہی آج بھی ایک لفظ کا حصہ دار۔ میری طرف سے آج تک کسی عدالت میں کسی ترمیم شدہ قانون کے تحت کسی رعایت کی درخواست کی گئی نہ کی جائے گی۔ اس کے باوجود شاید معزز بنچ مجھے کھلی عدالت یا چیمبر جہاں بھی سننا پسند کرے، سن لے، ان کا فیصلہ آسان بھی ہوجائے گا اور انہیں اس نام نہاد احتساب کی حقیقت اور اصلیت سے واقف بھی۔

تازہ ترین