• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاڈلے کے انتخاب کی طرح، اس کی نااہلی بھی متنازعہ ہوچلی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک طویل تؤقف کے بعد سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپٹ پریکٹسز، غلط بیانی، اثاثے چھپانے اور بدعنوانی کی بنیاد پر وقتی طور پر اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا ہے جس سے وہ پہلے ہی مستعفی ہونے کا اعلان کرچکے تھے مگر اپنے استعفیٰ کو اسپیکر کے روبرو کنفرم کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ واحد صادق و امین کے ”کرپٹ“ قرار دئیے جانے پر جہاں اتحادی جماعتوں کو ”چور بھی کہے چور چور“ کا جوابی بیانیہ بنانے کا موقع ملا ہے تو وہیں وکلا کے جم غفیر کی لا متناہی موشگافیوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے اور اس کے عدالتی اختیار کو متنازعہ بنادیا ہے۔ عمران خان کی سیاست پر پردہ ابھی گرا نہیں، اس کھیل کے کئی ایکٹ ابھی عدالتی اسٹیج پر کھیلے جانے ہیں اور معاملہ گلیوں یا پھر ووٹ سے حل ہونے کی بجائے عدلیہ کے پلیٹ فارم پر طے کیا جانا ہے۔ فریقین کے مابین ایک طویل قانونی جنگ میں عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ میں ان کے اپنے فیصلے کی بے مثال نظیریں نظام انصاف کیلئے سوہان روح بنی رہیں گی۔ ایک اور سابق وزیراعظم اور جماعت کے سابق صدر جناب نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور صدارت سے عدالتی علیحدگی ایک آسیب کی طرح عمران خان کے قانونی مستقبل پر چھائی رہے گی، تب معلوم پڑے گا کہ صداقت و امانت کی کسوٹیوں پر سیاست کی حشر سامانیوں میں کیا زقند لگتی ہے۔ سیاہی کس کے منہ پر لگتی ہے یا پھر کس کے گناہ کس کے صدقے سے معاف ہوتے ہیں جسے ”لیول پلینگ فیلڈ“ کی تیاری کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ آخری تجزیے میں کامیابی مقتدرہ ہی کا مقدر رہتی ہے۔ بھلے فنانشل ٹاسک فورس کی گرے لسٹ کی سولی پہ چڑھایا جانا ہو یا اس سے اتروائے جانے کیلئے دہشتگردی کے گناہوں سے خلاصی پانے کیلئے ریاست کو کتنی ہی ناک سے لکیریں نکالنی پڑیں، ”تمہیں نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا“ کے مصداق سہرہ مقتدرہ ہی کے سر ہے۔ وزارت خارجہ اور بیچارے حماد اظہر، بلاول بھٹو اور حنا ربانی کھر مبارک بادیں کیا وصول کرتے، ٹرافی پہلے ہی کوئی اور اُچک چکا تھا۔

تاریخی طور پر مجذوب جمہوریت کے مقدر میں سیاستدانوں کی نااہلیاں ہی رہی ہیں، یا پھر ان زخموں پہ کی جانے والی احتجاجی سیاست۔ پروڈا تھا یا ایبڈو، نیپ، عوامی لیگ پر پابندی تھی یا بھٹو کی پھانسی، محترمہ بے نظیر بھٹو کا دن دہاڑے قتل یا پھر میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور پارٹی صدارت سے قانونی بے دخلی، سب منہ پھاڑے مقتدرہ کے تراشے ایک اور عوامی کلٹ کو ہڑپ کرنے کھڑے ہیں۔ لاڈلا، لاڈلا نہ رہا، اک عذاب بن گیا۔ لیکن اب متحارب سیاست کو کون عقل کے ناخن دے۔ جس طرح بھٹو کی پھانسی پہ قومی اتحاد والوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی پہ تحریک انصاف نے بھنگڑے ڈالے تھے، اسی طرح عمران خان کی نااہلی پر اتحادی پارٹیاں مبارکبادیں وصول کرتی نظر آرہی ہیں۔ فوج کے سیاست سے تائب ہونے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے واضح اعلانات کے باوجود نظریں پارلیمنٹ پر نہیں جی ایچ کیو میں تبدیلی پر ہیں۔ جب سیاست کا یہ دیوالیہ پن ہو تو پھر بیچاری پارلیمنٹ کی بے نوری پہ کون نوحہ گری کرے۔ مملکت اور سیاست کے مستقبل کا فیصلہ اگرعوام کے حق رائے دہی نے نہیں کرنا، عدالتوں جو مقتدرہ ہی کا حصہ ہیں، نے کرنا ہے تو پھر سیاست کے لیے مغفرت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

حیرانی الیکشن کمیشن کے فیصلے پہ نہیں ہوئی، حیرانی اس پر ہے کہ اس محفوظ فیصلے کا اعلان حالیہ ضمنی انتخابات سے پہلے کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی اور حیرانی اس پر بھی ہے کہ قائد انقلاب نے لواحقین کو صبر کرنے کی استدعا کی اور معاملہ عدالتوں کے سپرد کرنے کا اشارہ دیا۔ بھلا عدالتوں نے کب سیاست و جمہوریت کی شان میں اضافہ کیا ہے، جواب اُمید کی جائے۔ اس سے قطعٔ نظر کہ عدالت عالیہ و عظمیٰ اپنے ہی سابقہ فیصلوں کی تشریح میں کیا نیاکرتی ہیں، سیاستدانوں کو پرانے گناہوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے جمہوری و آئینی عمرانی معاہدے پہ اتفاق کرنے کے لیے اپنی ہی پارلیمنٹ سے باوقار رجوع کرنا چاہیے۔ سیاستدانوں کے جھگڑے کوئی اور ضامن نمٹائے گا تو ان کے ہاتھ کیا آئے گا؟ ویسے بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ سیاست کو مسخ کرنے کی عدالتی و عسکری مداخلتوں سے ملک سنورا نہ جمہوریت آئی۔ آئندہ بھی اس کی توقع کوئی نابینا ہی کرسکتا ہے۔ سیاستدانوں کے غیر سیاسی اور غیر جمہوری طریقوں سے پہلے کوئی لیڈر اپنے تاریخی رول سے بے دخل ہوا ہے، نہ بھٹو، نہ نواز شریف ہوئے اور نہ اب عمران خان تاریخ کے کوڑے کی نذر ہوں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آئینی و جمہوری حکمرانی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا اور تاریخی شرمندگی ہی کا بار بار سامنا کرنا پڑا جو پاکستانی ریاست کی ناکامی کا ایک بڑا مظہر ہے۔

چلیے سیاست کے میدان سے نہ سہی، عالمی سفارتی محاذ سے اچھی خبر آئی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر کے گرے لسٹ سے نکل گیا ہے۔ لیکن اس خود اصلاحی کے عمل میں لگتا ہے گندم کے ساتھ ساتھ گھن بھی پس گیا ہے۔ دہشت گردی کی فنڈنگ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی سول سوسائٹی کی تنظیموں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ جو وقتی استثنا اکنامک افیئرز ڈویژن اور وزارت داخلہ نے دیا بھی ہے تو وہ سیلاب زدگان کی بحالی تک محدود ہے۔ اتھاریٹیرئین ڈھانچوں کے ہاتھوں سول سوسائٹی کی تنظیموں کا قتل جمہوریت کے دائر ہ عمل کو مخدوش کرتا ہے۔ اسلئے جو بندشیں سول سوسائٹی کی تنظیموں پر لگائی گئی ہیں، وہ فوری طور پر اٹھائی جائیں۔ اس کے باوجود کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے باہر بیٹھی ہے، آج کل پارلیمنٹ میں ریاستی تشدد، جبری اغوا اور دیگر حساس موضوعات پر اچھی پیشرفت ہورہی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ یہ پارلیمنٹ دور رس معاشی و سماجی اصلاحات، اداراتی دائرہ ہائے کار، انتخابات، عوامی حکمرانی و پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے بڑے آئینی و قانونی اقدامات کرے۔ یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آئے اور اپنا مقدمہ پارلیمنٹ میں لڑے۔ اصل سوال انتخابات کے مہینے کا نہیں ہے، خود پارلیمنٹ کے استحقاق کا ہے۔ اس استحقاق اور بالادستی کو قائم کیے بغیر اگلے انتخابات سے بھی سیاسی بحران حل نہ ہوگا۔ انتخابات سے قبل سیاستدانوں کو سیاست و مملکت کے گراؤنڈ رولز طے کرناہوں گے۔ وگرنہ یہی بیہودہ کھیل چلتا رہے گا۔ آج ایک شکار کل دوسرا۔ سیاست دان کب تک اپنی نکیل اداروں کے حوالے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ناک کاٹتے رہیں گے؟ پارلیمنٹ میں جاؤ اور پھر عوام سے رجوع کرو!

تازہ ترین