• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے دو چار سو سال بعد ، جب یہ دنیا تباہ ہو کر نئے سرے سے آباد ہورہی ہوگی، اور اُس وقت کا ’انسان‘ آج کے ہوموسیپئن کے بارے میں تحقیق شروع کرے گا، تو اُس وقت مائیں اپنے بچوں کو غالباً اِس قسم کی کہانی سنائیں گی کہ ایک زمانہ تھا جب لوگ نظریہ ارتقا پر یقین نہیں رکھتے تھے اور انہیں یہ بات ہتک آمیز لگتی تھی کہ اُن کے جدِّ امجد بن مانس تھے۔میں یہ اندازہ تو نہیں لگاسکتا کہ بچے جواب میں ماؤں سے کیا پوچھیں گے لیکن جب انہیں بتایا جائے گا کہ نظریہ ارتقا کا انکار کرنے والوں میں ترقی یافتہ ممالک کے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل تھے تو میری طرح آنے والی نسل کا اعتباربھی پڑھائی لکھائی سے اٹھ جائے گا۔لیکن اِس میں قصور شاید کسی کابھی نہ ہوکیونکہ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اُس کا شجرہ نسب بن مانسوں کے گروہ سے ملایا جائے اسی لیے ہم اکثر یہ جملہ سنتے ہیں کہ ’’میں نظریہ ارتقا پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘اورشاید اِس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ نظریہ مذہب سے متصادم لگتا ہےحالانکہ یہ خلط مبحث ہے مگر یہ موضوع کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔آج صرف اُس شخص کا ذکر کرنا ہے جسےگزشتہ ماہ طب کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا، اُس کا نام ڈاکٹر’سوانتہے پے بو‘ ہے ،یہ ماہر حیاتیات ہے اور اِس کا تعلق سویڈن سے ہے۔ڈاکٹر سوانتہے پے بو نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیاہے جس نے ارتقا کے شعبے میں تہلکہ مچا دیاہے،اُس نے انسانوں کا ایک نیا گروہ Denisovan دریافت کیا ہے جس کے وجود سے ہم پہلے لا علم تھے ۔یہ دریافت کوئی آسان کام نہیں تھا، ڈاکٹر سوانتہے اور اُس کی ٹیم نے 2008 میں سربیا کے ایک غار سےملنے والی انسانی انگلی کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا، یہ بہت محنت طلب کام تھا جس میں کئی برس لگے جس کے بعد وہ اِس حتمی نتیجے پر پہنچے کہ اِس ڈی این اے کی ترتیب اب تک کے انسانوں کی اقسام میں پائے جانے والے ڈی این اے سے مختلف ہے ، اسے Denisovan کا نام دیا گیا۔اِس مرد ِ عاقل نے اپنی تحقیق سے یہ بھی ثابت کیا کہ ہزاروں برس پہلے ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہوموسیپئن، نیابنڈرتھل اور ڈینی سوان اکٹھے تھےاور اِن میں باہمی اختلاط بھی ہوا تھا جس کا ثبوت آج کے جدید انسان کے ڈی این اےسے ملتا ہے ، دیسی زبان میں کہوں تو آج کے انسانوں میں جو ’ڈنگر پن‘ پایا جاتا ہے اُس کی وجہ انہی نیانڈرتھل اور ڈینی سوان کا ڈی این اےہے۔ڈاکٹر سوانتہے کا دوسرا کارنامہ نیاینڈرتھل کے جینوم کی ترتیب کو سمجھنا ہے ، عام زبان میں جینوم سے مراد کسی بھی خلیے میں پائے جانے والی ڈی این اے کی ’ہدایات‘ ہیں جیسے انسانوں میں یہ ہدایات کروموسوم کے تیئس جوڑوں میں پائی جاتی ہیں ، جینوم کی ترتیب لگانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا خاص طور سے پرانی انواع میں یہ کام تقریباً نا ممکن ہوتا ہے مگر ڈاکٹر سوانتہے نےاِس نا ممکن کام کو ممکن کر دکھایا۔

نظریہ ارتقا پر ڈارون کے زمانے سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں، حالانکہ یہ بات اب نظریے سے کہیں آگے نکل چکی ہے، ڈارون کے بعد جینیاتی سائنس اِس قدر ترقی کرچکی ہے کہ ارتقا کو جھٹلانا اب ممکن نہیں رہا مگر اِس کے باوجودآج بھی کروڑوں لوگ ارتقا کو تسلیم نہیں کرتے ، اُن کا خیال ہے کہ یہ محض ڈھکوسلہ اور فریب ہے اور اِس فریب کا پردہ خود بہت سے سائنس دان چاک کرچکے ہیں۔ ایسے لوگوں کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ ارتقا کو ثابت کرنے کے لیے جن ناقابل تردید شواہد یا ثبوتوں کی ضرورت ہے ، سائنس اب تک وہ پیش نہیں کرسکی، مثلاً تا حال ایسے بہت سے missing link( حلقہ مفقود) ہیں جن کا کوئی جواز موجود نہیں ۔ویسے تو یہ بحث کسی طور بھی یہاں سمیٹی نہیں جا سکتی البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتاہے کہ دنیا میں اب تک ستاسی لاکھ کے قریب انواع دریافت ہو چکی ہیں ، اربوں سال سے ارتقا کا عمل جاری ہے ، یہ ممکن ہی نہیں کہ اِن تمام سپیشیز کے جینوم کی ترتیب لگا کر ثابت کردیا جائے کہ اِن کا جد امجد ایک تھا، مگر یہ ضرور ممکن ہے کہ کچھ جانداروں کے ڈین این اے کا موازنہ کرکے دیکھا جائے کہ آیا وہ ارتقا کے عمل سے گزرے یا اسی حالت میں ہی پیدا ہوئے جس حالت میں آج نظر آتے ہیں ،اور جب یہ دیکھا گیا تو ناقابل تردید ثبوت اکٹھے ہوئے جن کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جانداروں کا ارتقا ہوا اور وہ اُس شکل میں پیدا نہیں ہوئے جس میں وہ آج نظر آتے ہیں ۔لیکن آپ ایسے جتنے بھی ثبوت لے آئیں کوئی نہ کوئی حلقہ مفقود ضرور رہے گا جس کی بنیاد پر ارتقائی عمل پر اعتراض کیا جا سکے گا جس کا قیامت تک جواب دینا ممکن نہیں ۔

ہر سال جب نوبل انعام کا اعلان کیا جاتا ہے تو یہ بات تقریباً طے شدہ ہوتی ہے کہ طب، ریاضی ، کیمیا اورطبیعات وغیرہ کے شعبوں میں انعام پانے والے مغربی ممالک کے لوگ ہی ہوں گے ،اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دنیا کے تمام ذہین فطین لوگ وہاں پیدا ہوتے ہیں اور سب نالائق ہمارے ہاں، وجہ اِس کی وہ ماحول ہے جو تحقیق اور جستجو کے لیے وہاں میسر ہے ۔ جس طرح انسان اپنی توانائیاں جب کسی شعبے میں صرف کرتا ہے تو اُس شعبے میں کمال حاصل کرلیتا ہے اُسی طرح معاشرہ جب اجتماعی طور پر کسی ہنرکو پروان چڑھانے میں مدد کرتاہے تواُس ہنر کے ماہر افراد معاشرے میں پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی قابل لوگ پیدا ہوتے ہیں مگر معاشرےمیں اُن کے ہنر کی مانگ نہیں ، یہاں کمالِ فن کا کوئی طلب گار نہیں اوریہاں ایکسیلنس کاکوئی مول نہیں ۔ ہم اگر اسی طرح عامیانہ پن کو پروان چڑھائیں گے اور اپنے نوبل انعام یافتہ افراد کو مطعون کریں گے تو ہماری یونیورسٹی میں حیاتیات پڑھانےوالا نوبل انعام کی چاہ کرنے کی بجائے گریڈ انیس میں انکریمنٹ لگوانے کو ترجیح دے گاکیونکہ اُس کے لیے چراغ راہ اور منزلِ مراد یہی ہے۔

تازہ ترین