• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ایسے بہت سے منطقے ہیں جہاں پاک چین تعاون کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ ان میں سے کم ازکم تین شعبے اہمیت کے حامل ہیں : (a) پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی تکمیل ، جیسا کہ پن بجلی ، توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع اور کوئلے سے بجلی پیدا کرتے ہوئے نیشنل پاور گرڈ کی پیداواری گنجائش بڑھانا۔ایم ایل ون ریلوے ٹریک منصوبہ کئی برسوں سے منظوری اور مالی وسائل کا منتظر ہے ۔ ہر گزرتے برس کے ساتھ نہ صرف منصوبہ مہنگا ہوتا جارہا ہے ،اس پر مستزاد یہ کہ اقتصادی خسارے میں ریلوے کے بوسیدہ نظام کے نقصانات بھی شامل ہوتے جارہے ہیں ۔ گوادر کی بندرگاہ کو فعال بنانے کیلئے وہاں پانی اور بجلی کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر درکار ہے ۔ گوادر سے چین اور دیگر خطوں میں سامان کی نقل و حمل اس وقت شروع ہوسکتی ہے جب قراقرم ہائی وے ، مغربی راہداری ، خضدار رتوڈیرو سڑک مکمل ہوجائے ۔

(b) چین کے ساتھ نظرثانی شدہ آزادانہ تجارتی معاہدے کے باوجود چین کی منڈیوں میں پاکستانی برآمدات کے حجم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوپایا ۔ نجی شعبے کے ساتھ مل کر ایک قابلِ عمل منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کی کابینہ باقاعدگی سے نگرانی کرے گی۔ اس کا مقصد 2030 تک چین کو ہونے والی مجموعی درآمدات کا کم از کم ایک فیصد حاصل کرنا ہے۔ اس کیلئے کارکردگی سے منسلک مراعات، آزاد ٹیکس اور کاروبار کرنے میں آسانی اور ریگولیٹری نظام درکار ہوگا۔ پاکستانی پیشہ ور افراد اور منیجرز کو چینی کمپنیوں کے ساتھ کچھ وقت کیلئے وابستہ رہنا چاہیے تاکہ وہ اس کی مارکیٹ کے حالات، معیار اور ضروریات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔(c) چینی کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے اعلیٰ سطح پر بھرپور کوششیں کی جانی چاہئیں جو مزدوری کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے خصوصی اقتصادی زونز میں اپنے منصوبوں کو منتقل کرنے کا رجحان رکھتی ہیں تاکہ وہ مسابقت کی دوڑ میں شریک رہ سکیں۔

افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں

پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تعاون کا انحصار خوشگوار اور قابل اعتماد سیاسی تعلقات کے قیام اور باقی دنیا کی طرف سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ایسا ہوجاتا ہے ،ا ور یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی، تو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کوباآسانی ایسی شکل دی جاسکتی ہے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو۔ پاکستان افغانستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے ۔ اس کی اشیا اور خدمات کی برآمدات چند سال قبل سالانہ 3 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں ۔ افغانستان کراچی بندرگاہ کے ذریعے دوسرے ممالک سے تجارت کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک سے منگوائے جانیوالے کوئلے کی جگہ افغانستان سے منگوائے جانیوالے کوئلے نے لی ہے ۔ تجارت کو مزید فروغ دینے کیلئے ضروری اشیا پر ٹیرف کی شرح کم کی جائے، نان ٹیرف رکاوٹیں کم کی جائیں، نئی سرحدی گزرگاہیں متعارف کروائی جائیں اور افغان کاروباری اداروں کو درپیش رکاوٹیں دور کرنے کیلئے تجارتی سہولت فراہم کرنے والے قوانین میں نرمی کی جائے۔ ایکسپورٹ امپورٹ بینک پاکستانی برآمد کنندگان کو موجودہ حد سے اوپر افغانستان کو سامان کی بڑھتی ہوئی ترسیل کیلئے رعایتی برآمدی ری فنانسنگ سہولیات فراہم کریں۔ پاکستان افغانستان کو سمندر تک مختصر ترین رسائی فراہم کرتا ہے لیکن اس کیلئے درکار ریل اور سڑک کی مال برداری کی سہولیات بہتر حالت میں نہیں ہیں جن سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ نئے آنے والوں کو داخلے کی اجازت دیکر اور کیریئرز کے درمیان مسابقت کو فروغ دیکر نقل و حمل کے شعبے کو آزاد کرنا، موجودہ شاہراہوں کی توسیع اور ریلوے کے سب سیکٹر کو دوبارہ بحال کرنا دوطرفہ اور ٹرانزٹ تجارت دونوں کو آسان بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔ افغانستان سے کان کنی کے شعبے کی برآمدات کیلئے ضروری ہوگا کہ بندرگاہوںتک مال برداری کیلئے ٹرانسپورٹ موجود ہو۔ مغربی راہداری کے ذریعے قندھار کو گوادر سے جوڑنا ممکن ہے ، لیکن اس کیلئے راستہ تلاش کرنا ہوگا ۔حکومت پاکستان ،پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے افغانستان میں صنعتی زونز کے قیام پر غور کرے۔ افغانستان کو ایل ڈی سی کا درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے پاکستانی نجی سرمایہ کار افغان شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں ان زونز میں صنعتیں قائم کر سکتے ہیں ۔سی پیک میں افغانستان کو بھی شامل کیا جائے اور چین، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی معاہدے کے تحت انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے متعلقہ فریقوں کو ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ چین ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں پیش پیش رہ سکتا ہے۔ پاکستانی نجی سرمایہ کار صنعتیں لگا سکتے ہیں اور ہنر مند افرادی قوت لا سکتے ہیں۔ افغانستان سرمایہ کاری کے بہاؤ اور مسائل کے حل کیلئے ون اسٹاپ شاپ قائم کر سکتا ہے ۔ اسکے نوجوانوں کیلئے ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہونگے۔ صنعتی زونز کے علاوہ افغانستان تعمیرات، فوڈ پروسیسنگ اور ریٹیل میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کو فوری فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ ان کی نقل و حمل کے اخراجات کم ہونگے ۔ وہ صارفین کے ذوق اور ترجیحات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ ایگزم بینک (EXIM Bank) سرمایہ کاری کی تجاویز کی جانچ پڑتال کیلئے ایک بہترین دفتر کاکردارادا کرے گا۔ یہ بینک فنڈنگ اور فنڈنگ کے علاوہ دیگر سہولیات فراہم کرسکتا ہے، جیسا کہ ضمانت اور تجاویز کے قابل ہونے کی جانچ ۔ خدمات کے تبادلے کے شعبے میںپاکستان نے بینکنگ اور انشورنس، ٹیلی کمیونی کیشن، آئی ٹی سے چلنے والی خدمات، انجینئرنگ کنسلٹنسی، آرکیٹیکچر اور اکاؤنٹینسی میں اچھی شہرت حاصل کی ہے۔ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو موجودہ آپریشنز اور اپنے نوجوان پیشہ ور افراد کو ملازمت کیلئے ان شعبوں میں مہارت کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کے معروف ہسپتال، میڈیکل لیبارٹریز، کلینک، نرسنگ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، جنرل اور اسپیشلائزڈ یونیورسٹیز اور کالجز، ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ کے ادارے اپنے افغان اور سی اے آر ہم منصبوں کیساتھ شراکت داری اور معاہدے کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کواپنی بھرپور صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے کام کرنا ہو گا جس کیلئے معیاری تعلیم شرط ہے۔ اس قسم کی تعلیم کی استطاعت ایک اہم بات ہوگی جس کیلئے پاکستانی تجربہ کارآمد ہوگا۔ آنیوالے برسوں میں پاکستان کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں کیساتھ آزادانہ تجارت اور دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدوں پر بات چیت کرنی چاہئے۔ درمیانی مدت کیلئے پاکستان کی بندرگاہوں پر افغانستان کی معاونت کیساتھ ایک مشترکہ کسٹم یونین بنانا چاہیے اور اسکے بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان سامان آزادانہ طور پر منتقل ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک کے اشتراک سے محصولات حاصل کرنے اور کاروبار کرنے کی لاگت کم کرنے میں بھی مدد حاصل ہوگی ۔ (جاری ہے)

تازہ ترین