• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ چاہے کتنے ہی اچھے بیٹس مین کیوں نہ ہوں، آپ چاہے کتنے ہی اچھے بالر کیوں نہ ہوں، آپ چاہے کتنے ہی اچھے آل رائونڈر کیوں نہ ہوں اور آپ کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے آپ کو ٹیم کا کپتان بنا دیا جائے، یقین رکھیں آپ تن تنہا کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ تن تنہا میچ نہیں جیت سکتے۔ میچ جیتنے کے لئے آپ کو ایک مستند اور اچھی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ اگر تن تنہا کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا چاہتے ہیں، تو پھر آپ ایسے کسی کھیل کا انتخاب کریں جو تن تنہا کھیلا جاتا ہو، مثلاً ٹینس، بیڈ منٹن، اسکواش وغیرہ۔ یہ کھیل تنہا کھیلے جاتے ہیں۔ ان کھیلوں میں آپ کی ٹیم نہیں ہوتی۔ آپ تن تنہا میچ جیتتے ہیں۔ آپ تن تنہا میچ ہارتے ہیں ۔ جہانگیر خان بیس بائیں برس اسکواش کےکھیل کی دنیا پر چھائے رہے۔ سولہ مرتبہ ورلڈ چیمپئن رہے۔ اس لحاظ سے جہانگیر خان پاکستان کا نمبر ون سپر اسٹار ہے۔ یاد رہے کہ اسکواش اکیلے کھیلے جانے والے کھیلوں میں سب سے مشکل کھیل ہے۔ مگر کیا کیا جائےکہ جہانگیر خان کی شخصیت میں عمران خان جیسا کیرزما نہیں تھا۔ جہانگیر خان میں عمران خان جیسی کشش نہیں تھی۔ کیرزما کا نعم البدل لفظ ہماری زبانوں میں نہیں ہے۔ کہنا چاہیں تو کسی حد تک ملتا جلتا مفہوم ’مقناطیسی کشش‘ میں ہے جو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جہانگیر خان کی شخصیت میں مقناطیسی کشش نہیں تھی۔ ورنہ ان کی غیر معمولی مقبولیت کو بھی پاکستانی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ۔پاکستان کے کھیلوں اور فلموں میں فضل محمود سے زیادہ پرکشش اور مقناطیسی کشش والا شخص ہم نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ مگر فضل محمود پاکستان کے ابتدائی برسوں میں کھیلتے تھے۔ سیاستدان خوش تھے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ تھلگ ملک بنا لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فضل محمود سیاسی غلام گردش سے بچ گئے۔ فضل محمود کے دور سے چالیس پچاس برس بعد ہم نے عمران خان کو دیکھا۔موجودہ دور کے گھسے پٹے سیاستدانوں کا پالا عمران خان جیسے نو وارد سیاستدان سے نہیں پڑا ہے۔ ان کا پالا قدرت کی دین، جو کہ عمران کے حصہ میں آئی ہے، اس قدرتی وصف سے موجودہ دور کے سیاستدانوں کا پالا پڑا ہے۔ وہ مقناطیسی وصف خریدا نہیں جاتا ،وہ وصف کالج اور یونیورسٹیوں سے نہیں ملتا۔ زندگی لائبیریوں میں گزارنے سے نہیں ملتا۔ یہ وصف قدرت کا عطیہ ہے۔ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ امریکی ادب میں ارنسٹ ہیمنگوے سے بہت بڑے ادیب موجود ہیں۔ مگر جو کیرزما ہیمنگوے میں تھا۔ کسی اور ادیب کو نصیب نہیں ہوا۔ لوگ دیوانہ وار ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ گھر سےباہر نکلتے تھے تو جمگھٹےمیں گھر جاتے تھے۔ اس قدر خود سر تھےکہ انہوں نے اپنے مرنے کے لئے دن، وقت اور تاریخ کا تعین کر لیا تھا۔ طے شدہ دن تاریخ اور وقت پر ہیمنگوے نے خود کشی کر لی تھی۔ چونکا دینے والے واقعے نے مر جانے کے بعد بھی ہیمنگوے کا کیرزما امریکی ادب پر مسلط کیاہوا ہے۔ ان کی کتابوں کے ری پرنٹس، نئے ایڈیشن آج بھی اسی طرح ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں۔ جس طرح چالیس پچاس برس پہلے ان کی زندگی میں بکتے تھے۔

دراصل پرانے سیاستدانوں کا مقابلہ عمران سے نہیں، بلکہ عمران خان کے کیرزما سے ہے۔ اور سیاستدان عمران خان کے کیرزما سے نہیں لڑ سکتے۔ ساڑھے تین سال کی حاکمیت سے ثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان قطعی طور پر سیاستدان نہیں ہیں۔ وہ فاسٹ بائولر تھے اور آج تک فاسٹ بائولر ہیں۔ فاسٹ بائولر کی اپنی مخصوص نفسیات ہوتی ہے۔ وہ کسی کے بس میں نہیں آتے۔ کسی سے دبتے نہیں ہیں۔ کسی کی دھونس قبول نہیں کرتے۔

اس وقت جب کہ میں اپنی کتھا کے اس حصے پر پہنچا ہوں، بریکنگ نیوز گردش کرنے لگی ہے کہ الیکشن کمیشن نےعمران خان کو پانچ سال کے لئے نااہل ہونے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں، میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ نااہلی والے فیصلے کے بعد عمران خان عوام میں اور زیادہ مقبول ہونگے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ لوگوں نے ان پر لگائے گئے کسی الزام کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ مجھے لگتاہے کہ عمران خان لوگوں کے قیاس اور گمان میں Hero-worship ہیرو پرستی کی سرحد پر جا پہنچے ہیں۔ لوگ قطعی طور پر ماننےکو تیار نہیں ہیں کہ عمران خان سے کبھی کوئی غلط کام سر زد ہو سکتا ہے۔ ان پر لگائے گئے الزام لوگوں کو لغو لگتے ہیں۔ ہر الزام کے بعد ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔

ہم اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کرتے۔ پچھلے 75برس سے ہم اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے عظیم قوم ہیں۔ اگر آپ عمران خان سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے تواس کام کےلئے عمران خان خود آپ کو سنہری موقع فراہم کرنے کی راہ پر بہت آگے نکل گئے تھے۔ ملک کے حالات اس قدر دگر گوں ہو گئے تھے کہ عمران خان بے بس نظر آرہے تھے۔ بین الاقوامی تعلقات سے لےکر اقتصادی بحران نے ان کو سراسیمگی میں ڈال دیا تھا۔ اداروں نے ان سے تعاون کرنا چھوڑ دیا تھا۔ چند مہینوں کی بات تھی۔ آپ ان کو مدت پوری کرنے دیتے۔ یہی قوم جو آپ کی غلطی کی وجہ سے عمران خان کی پرستش پر اتر آئی ہے۔ عمران خان کو اگلے انتخابات میں مسترد کر دیتی۔ آپ سے فاش غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اب آپ عمران خان کو بھگتیں۔

تازہ ترین