• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانی کہاوت ہے کہ سانپ تو نکل گیا اب لکیر کو کیا پیٹنا۔یہ آج بھی اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کوئی واقعہ رونما ہوچکا ہو اور اس کے نتیجے میں کوئی جانی یا مالی نقصان ہوچکا ہو اور اس کا ازالہ ممکن نہ ہویاکوئی واردات کی جاچکی ہو اور اسے کرنے والے وہاں سے جاچکے ہوں اور اس سے متعلق شواہد کا ملنا ناممکن تصوّر کیاجارہا ہو۔ لیکن یہ پرانےزمانے کی بات ہے۔

آج سائنس کی ترقی نے ماضی کی بہت سی ناممکن باتوں اور کام کو ممکن بنادیا ہے ۔ چناں چہ بہت سے فطری یا غیر فطری واقعات کے اسباب و علل کا کھوج لگانااب ممکن ہوگیا ہے۔ اسی طرح بہت سی وارداتوں کےپس پردہ دماغوں اوران کےبنائے منصوبوں پر عمل کرنے والوں، بہ ظاہر بے داغ انداز میں کوئی جرم کرنے والوں اور انتہائی ماہر انہ انداز میں کوئی جرم کرکےچھلاوے کی طرح غائب ہوجانے والوں کا سراغ لگانا بھی ممکن ہوچکا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان کے ممتاز صحافی ارشد شریف کی کینیا میں الم ناک انداز میں موت نے کئی طرح کے سوالات اور خیالات کو جنم دیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس درد ناک واقعے سے متعلق تمام ثبوت و شواہد مٹادیے گئے ہیں۔ لیکن دو ،تین یوم قبل ہی یہ خبر سامنے آئی ہے کہ مرحوم کا لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ کینیا کی پولیس کی تحویل میں ہے اور پاکستان سے جانے والے تفتیشی ماہرین کو بھی ان تک رسائی فراہم کی گئی۔اگر یہ خبر درست ہے تو اس معاملے کی تحقیق میں یہ بہت بڑی پیش رفت ثابت ہوسکتی ہے۔

دوسری بڑی پیش رفت یہ ہے کہ ارشد شریف کا دوسرا پوسٹ مارٹم کرنے والے آٹھ پاکستانی ڈاکٹرز کی ٹیم نے اہم سراغ لگایا ہے جسے کینیا کے ڈاکٹرز نے جان بوجھ کر یا انجانے میں نظر انداز کردیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان کے سینے میں پیوست ہونے والی گولی پائی گئی ہے جس کا کینیا میں کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے پیتھالوجسٹ کے مطابق انہیں ارشد شریف کے جسم سے دھات کا ایک ٹکڑا ملا تھا جسے انہوں نے بعد میں گولی قرار دیا اور اہم ثبوت ہونے کی وجہ سے اسے تفتیشی حکام کے حوالے کردیا گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے میت پاکستان پہنچنے کے بعدلاش کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیاتھا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ارشد شریف کے سینے اور سر پر گولیاں لگیں۔ سینے پر زخم کے نشان سے ظاہر ہوتا ہے کہ گولیاں عقب اور نزدیک سے چلائی گئی تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسم کے اگلے حصے میں گولی کا زخم ہے جہاں سے ممکنہ طور پر پیچھے سے فائر کی گئی گولی باہر نکلی تھی۔ کمر پر گولی کے زخم کے گرد ہلکا سا سیاہ نشان پایا گیا ہے جو صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب گولی چارفیٹ یا اس سے کم فاصلے سے چلائی گئی ہو۔ 

ذرایع کہتے ہیں کہ ارشد شریف کی کھوپڑی کے اوپری حصے پربھی گولی کے نشانات پائے گئے اور کھوپڑی کا اہم حصہ ٹوٹا ہوا پایا گیا ۔پاکستان کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ گولی ارشد شریف کے قتل کے ضمن میں جاری تحقیقات میں اہم ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی موت دماغ اور پھیپھڑوں میں گولی لگنے کے دس تا تیس منٹ بعد ہوئی۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ بورڈ کی رائے ہے کہ متوفی کی موت آتشیں ہتھیار کے زخموں کی وجہ سے ہوئی جس سے دماغ اور دائیں پھیپھڑے کو نقصان پہنچا۔ تمام زخموں کی نوعیت قبل از موت یعنی موت سے قبل لگنے والے زخم تھی اور یہی زخم موت کی عمومی وجہ ہو سکتے ہیں۔

ارشد شریف کی لاش کا پہلا پوسٹ مارٹم موت کے دو سے تین دن بعد کیا گیا تھا۔ کینیا کے چیف گورنمنٹ پیتھالوجسٹ جوہانسن اوڈورکا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ اگر پوسٹ مارٹم کے دوران جسم میں گولی پائی جاتی ہے تو اسے عموماً نکال کر تفتیشی افسران کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔اگر صحافی کے جسم میں گولی لگی ہے تو انٹری پوائنٹ بھی دکھانا ضروری ہے۔یہ واضح ہونا ضروری ہےکہ گولی جسم میں کہاں سے داخل ہوئی تھی۔ ہم نے گولی کا داخلی اور خارجی راستہ دیکھا۔

بندوق کی نال سے نکلنے والے راستے

جرم کی جس واردات میں آتشیں اسلحہ استعمال ہوا ہوتا ہے، بعض اوقات اس کی تفتیش کافی آسان ثابت ہوتی ہے،کیوں کہ ایسے ہر اسلحے کا ایک شناختی نشان ہوتا ہےجس کاپتا تفتیش کارگولی کے خول کے ذریعےلگالیتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے دیگر اہم سراغ بھی مل جاتے ہیں۔ اسی لیے کینیا میں ڈائریکٹوریٹ آف کریمنل انویسٹی گیشنز (DCI) سے منسلک جاسوسوں نے ملزمان کے آتشیں اسلحے کو ضبط کرلیا ہے۔

اسی طرح موت سے پہلےلگنے والی چوٹیں عام طور پر موت سے پہلے ہونے والے واقعات کاپس منظر پیش کر سکتی ہیں۔

گولی ایک ٹھوس چھوٹے ہتھیار کا نام ہے جسے کسی آتشیں اسلحےمثلا ، پستول، بندوق ،رائفل یا مشین گن کی مدد سے چلایا جا سکتا ہے۔ یہ اکثر جست کی بنی ہوتی ہے۔ گولی میں بارود نہیں ہوتا یہ اپنے نشانے کو اپنی حرکی توانائی کے زور سے نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کی شکل گول ہوتی ہے اس لیے اسے گولی کہتے ہیں۔ آتشیں اسلحے اور گولی کی تاریخ ایک جیسی ہے۔ ابتدا میں گولی دھات یا پتھر کے بنٹوں کی شکل کی ہوتی تھی جسے ایک بند نالی کے بالکل شروع ميں بارود کے آگے رکھا جاتا تھا۔ 

بارود کو آگ لگنے کی صورت میں گولی تیزی سے نالی سے نکل کر آگے جاکر ٹکراتی تھی۔ 1500ء سے 1800ء تک یہ اپنی ابتدائی شکل میں تھی۔ برطانوی فوج کے کپتان نارٹن نے 1836ء میں گولی کوگولی کی شکل دی۔ وقت کے ساتھ اس میں مزید تبدیلیاں آئیں۔ امریکی خانہ جنگی میں 90 فی صد اموات گولیاں لگنے سے ہوئیں۔ گولی اپنی جدید شکل میں 1883ء میں سوئستان میں بنی جو تانبے کی تھی۔ چوں کہ تانبے کا جست سے کہیں زیادہ درجہ پگھلاؤ ہوتاہےاور یہ گولی جست سے زیادہ سخت تھی، اس لیے اس کا اسراع بھی بہت زیادہ تھا جس سے اس کی رفتار، حد اور درستی کافی زیادہ بڑھ گئی۔

اسلحے اور بارود کا تجزیہ

فورینزک لیباریٹری میں فائر آرمز اینڈ بیلسٹک کے شعبے میں آتشیں اسلحے، کارتوس، گولیوں، ان کے استعمال شدہ خول اور کسی آلے کے استعمال کے نشانات کا تجزیہ کیا جاتا ہے، جس کی مدد سے جرم ہونے کے مراحل کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔

گولی اور بارود کی رفتار ر کا تعین کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ سب سے اہم بات یہ نہیں ہے کہ کشش ثقل گولی کو اپنے مطلوبہ ہدف سے نیچے اور باہر کھینچ سکتی ہے۔ گولہ بارود اور اسلحہ ساز مینوفیکچررز اہم پیمائش،مثلا چھونے کی رفتار یا گولی کی رفتار یعنی بندوق کی نال یا بیرل سے باہر نکلنے کی رفتار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے معیار کے ٹیسٹ پر انحصار کیا جاتا ہے۔

جس طرح روشنی کی بیم سے آنے والی توانائی اس جگہ پر پھیلتی ہے جہاں اسے استعمال کیا جاتاہے ، اسی طرح گولی چلانے سے یہ نشانہ بن جاتا ہے۔ جب یہ ہدف تک پہنچ جاتا ہے تو ، مطلوبہ رابطہ نقطے سے انحراف کی ڈگری کی تقسیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔گولی یابارود کو کسی بھی طے شدہ یامتحرک آلات سے ، ایک طویل فاصلے تک رائفل والے ایک اسپنر سے لے کر تیز رفتار میزائل سسٹم سے لیس سوپرسونک جیٹ کے اندر بیٹھے لڑاکا پائلٹ تک پرفائر کیا جاسکتا ہے۔ گولیوں کے پھیلاؤ کے ٹیسٹ کے نتائج سے گولہ ،بارود اور آتشیں اسلحے کے مارہین کے لیے اہم معلومات سامنے آتی ہیں۔

کسی واردات میں استعمال ہونے والے آتشیں اسلحے کی جانچ پڑتال کے دوران نشانے کی درستی،بیرل کےکٹاؤ اور بیرل کی زندگی،ہتھیارکے استحکام، ٹریگرپُل، کِک بیک،شاک ٹرانسمیٹینس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیےترقی یافتہ ممالک میں فیرو لیزر اسکینرز ،ڈوپلر ریڈار سسٹم (گولی کی رفتارکی پیمائش کےلیے) ،تیز رفتار وڈیو کیمرے (رنگ دار اور مونوکروم)،رفتار کےٹو اورتھری ڈی تجزیےکے آلات، انتہائی درست رفتارمعلوم کرنے کے لیے آپٹیکل اسکرینز بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

آتشیں اسلحہ استعمال ہونے پر ٹریس ثبوت Trace evidence ضرور چھوڑتا ہے۔ سادہ لفظوں میں اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب دو چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کریں تو ٹریس ثبوت تیار ہوجاتا ہے۔ ٹریس شواہد کی مثالوں میں گن شاٹ کی باقیات ، بال ، ریشے ، مٹی ، لکڑی وغیرہ شامل ہیں۔اس طرح کے ثبوت تفتیش کاروں کو مدعا علیہ اور / یا شکار کو باہمی مقام سے جوڑنے میں مدد کرسکتے ہیں۔

ڈیجیٹل ثبوت Digital evidence

ہماری تیکنیکی طور پر منسلک دنیا میں ، ڈیجیٹل شواہد بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ ڈیجیٹل شواہد میں کوئی بھی متعلقہ معلومات شامل ہے جو ثنائی شکل میں ذخیرہ یا منتقل ہوتی ہے۔ اس میں کمپیوٹر کی ہارڈ ڈرائیو ، سیل فون ،آئی پیڈ ، فلیش ڈرائیو اور اس طرح کی کوئی چیز شامل ہے۔ قانونی چارہ جوئی میں اب ڈیجیٹل شواہد کا استعمال وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے ، جس میں ای میل کے ذریعے ہونے والی مراسلت، ٹیکسٹ میسجز اور سیل فون لوکیشن جیسے معاملات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اسی لیے ارشد شریف مرحوم کا لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ مل جانا بہت اہمیت کا حامل پرار دیا جارہا ہے۔

کرائم/ ڈیتھ سین انویسٹی گیشن

اس شعبے کےماہرین جائے وقوعہ پر باریک بینی سے تحقیق کرتے ہیں۔ جائے وقوعہ پر پہنچنے والی ٹیم کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ وہاں سے ملنے والے ثبوتوں کی شناخت، ان کی حفاظت، انہیں جمع اور محفوظ طریقے سے مقررہ مقام پر منتقلی کو یقینی بنائے ، دستاویزات تیارکرے، جائے وقوعہ سےملنے والے ثبوتوں کا تقابلی جائزہ لے، ڈیجیٹل فوٹو گرافی کرے، خاکہ اور نقشہ بنائے اور اپنی تحقیق کے نتیجے میں ملزم یا ملزمان کی گرفتاری کی یقینی راہ دکھائے۔

ترقی یافتہ ممالک میں جائے وقوعہ پر صرف تحقیق نہیں کی جاتی، بلکہ کرائم سین ری کنسٹرکشن اور وہیکولر ایکسی ڈینٹ ری کنسٹرکشن کا کام بھی کیا جاتا ہے، یعنی اس مقام پر یا لیباریٹری میں تحقیق اور تفتیش کاروں سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر وقوعہ یا حادثے کے وقت پر جائے وقوعہ کا ممکن منظر بھی تشکیل دیا جاتا ہے اور پھر مختلف زاویوں اور نظریوں کی بنیاد پر ان کا جائزہ لے کر مجرم کا پتا لگانے یا حادثے کی وجوہات جاننے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ 

اس مقصد کے لیے تھری ڈی ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وغیرہ کی بھی مدد لی جاتی ہے اور کمپیوٹر پر جائے وقوعہ کا تھری ڈی ماڈل بنا کر بھی یہ کام کیا جاتا ہے۔ فورینزک سے متعلق اہل کار جائے وقوعہ پر پہنچنے کے بعد سب سے پہلے اپنے پہنچنے کا وقت اور قابلِ ذکر مشاہدات نوٹ کرتے ہیں۔ اس دوران وہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ پھر وہ حادثے یا وقوعے کی شدت کا اندازہ لگاتے ہیں، یعنی جائے وقوعہ کا رقبہ کیا ہے اور وہاں کس قدر جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ 

اسی دوران متعلقہ عملہ جائے وقوعہ کو غیر ضروری افراد کے لیے ناقابلِ رسائی علاقہ قرار دے کر اس کے گرد انتباہی نشانات یا پٹیاں وغیرہ لگادیتا ہے۔ وہاں آنے اور جانے والے تمام متعلقہ افراد کی آمدورفت کا وقت اور وہاں سے ہٹائی جانے والی اشیاء کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں، ممکن اور مسلمہ مشاہدین کو باقی افراد اورایک دوسرے سے بھی علیحدہ کیا جاتا ہے، تاکہ وہ آزادانہ طور پر اور ایک دوسرے کے اثرات قبول کیے بغیر گواہی دے سکیں۔

اب یہ اہل کار جرم کی چوری، قتل یا آتش زنی کی اقسام میں درجہ بندی کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر مزید ڈی ٹیکٹیو بھی طلب کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے شعبے کا ماہر ہوتا ہے اور وہ اپنے شعبے کے حوالے سے جائے وقوعہ کا جائزہ لیتا ہے۔

ٹول مارکس اینڈ وہیکل آئیڈینٹی فیکیشن

اس شعبے کے ماہرین کیمیائی عمل کے ذریعے گاڑیوں کے نمبرز (بالخصوص چیسز اور انجن نمبرز) کے حقیقی ہونے یا جعل سازی سے انہیں تبدیل کرنے کا پتا لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی جرم کے ہونے کے مقام سے جمع کیے جانے والے ایسے اوزاروں کا تجزیہ کیا جاتاہے، جو اس جرم کی واردات میں استعمال ہوئے ہوں۔ اس کے علاوہ ہتھیاروں اور گھریلو استعمال کی اشیاء وغیرہ کا بھی اسی طرح تجزیہ کیا جاتا ہے۔

نشانات راہ دکھاتے ہیں

فرانس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایڈمنڈلو کارڈ نے کہا تھا: ’’ہر رابطہ یا تعلق کوئی نہ کوئی سراغ یا نشان ضرور چھوڑتا ہے۔ 1877ء میں پیدا ہونے والے لوکارڈ کے اس قول نے لوکارڈ ایکس چینچ پرنسپل کے نام سے عِلم جرمیات میں عالمی شہرت پائی، لہٰذا بعد میں اسے فرانس کے شرلاک ہومز کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ 

اس کا یہی اصول فورینزک سائنس کا بنیادی اصول مانا جاتا ہے ۔جدید دنیا میں جرمیات کے شعبے میں فورینزک سائنس کا استعمال تقریباً ایک صدی قبل شروع ہوگیا تھا، جب ایڈمنڈلوکارڈ نے دنیا میں پہلی کرائم لیب 1910ء میں ایک پولیس اسٹیشن کی بالائی منزل پر قائم کی تھی۔ آج دنیا اس شعبے میں بہت آگے بڑھ چکی ہے۔

جرم کی تحقیق اور تفتیش اور عدالت میں جرم اور مجرم کے درمیان تعلق ثابت کرنے کا عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ جرائم کی نوعیت پے چیدہ ہوتی جارہی ہے، لہٰذا ان کی تفتیش اب آسان نہیں رہی ۔ ترقی یافتہ ممالک جرم کی تفتیش سے متعلق نت نئی مہارتوں اور ٹیکنالوجی کے ضمن میں بہت آگے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مغربی دنیا کے تفتیش کار بعض اوقات جرم ہونے سے پہلے مجرموں کا کھوج لگا لیتے ہیں اور وہاں اکثر کام یابی سے جرائم کی تفتیش ہوجاتی ہے، لیکن ایسا کیوں کر ہوپاتا ہے؟ 

جدید دور میں اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہاں جرم کی تفتیش کے دوران جدید ترین سائنسی نظریات اور ٹیکنالوجی سے بھرپور مدد لی جاتی ہے اور اس ضمن میں فورینزک سائنس (Forensic Science) کا کردار سب سے اہم گردانا جان جاتا ہے۔ اسے مختصراً فورینزکس (Forensics) لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

انگریزی زبان کے جاسوسی ادب کے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار سر آرتھر کانن ڈائل نے 1887ء سے 1915ء تک جاسوسی ادب تخلیق کیا،جس کی دنیا بھر میں دھوم مچی۔ ان کا تخلیق کردہ خیالی کردار شرلاک ہومز، جرائم کی تحقیق کے لیے فورینزک سائنس کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 

سر آرتھر کے مطابق ان کا تخلیق کردہ کردار ناول میں جو طریقے استعمال کرتا نظر آتا ہے ،وہ انہوں نے ایڈنبرگ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن میں اپنے استاد جوزف بیل سے متاثر ہوکر تحریر کیے تھے۔ جوزف بیل نہ صرف سرجن، بلکہ فورینزک سراغ رساں بھی تھے۔ مغربی ادب میں اسی طرح اور بھی حوالے ملتے ہیں۔

مجرم کا کام یاب تعاقب

فورینزک سائنس کی مدد سے کوئی غیر مرئی، بہت معمولی یا غیر اہم ثبوت مجرم کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچا دیتا ہے، مثلاً گاڑی کے ٹائر کے نشانات، بال، رال کوئی قلیل یا کم یاب کیمیائی مادہ (Trace Element)، حشرات الارض، موسمی حالات وغیرہ۔ سائنسی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہر علاقے میں پائے جانے والے حشرات الارض مختلف ہوتے ہیں۔ جب کسی شخص کو کسی مقام پر قتل کرکے دوسرے مقام پر اس کی لاش پھینک دی جاتی ہے تو لاش کا باریک بینی سے مطالعہ کرکے یہ پتا لگایا جاتا ہے کہ اس پر کس قسم کے حشرات الارض موجود ہیں اور پھر ان کی مدد سے قتل کے مقام اور وقت کا تعین کیا جاتا ہے۔ 

علمِ ارضیات کے ذریعے بھی اسی نوعیت کی جانچ کی جاتی ہے اور لاش پر لگی ہوئی مٹی اور اس کے اجزائے ترکیبی کا پتا لگایا جاتا ہے۔ موسموں کے علم کے ذریعے یہ پتا لگایا جاتا ہے کہ متوفی کو کس موسم میں قتل کیا گیا اور کیا لاش ان ہی موسمی حالات میں موجود ہے یا اسے کسی اور موسمی حالات والے علاقے میں لاکر پھینکا گیا ہے۔ 

دانتوں کے علم کے ذریعے متوفی کی جنس اور صحت وغیرہ کے بارے میں تعین کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہر انسان کی دانتوں کی ساخت انفرادیت کی حامل ہوتی ہے۔ ہر جرم کے پس منظر میں کچھ حالات و واقعات ہوتے ہیں۔ ان حالات و واقعات اور طریقۂ واردات کا علمِ نفسیات کی مدد سے تجزیہ کیا جاتا ہے اور حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں مجرم کا دماغ پڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کبھی ایک بال بھی مجرم کو انصاف کے کٹہرے تک لے جاتا ہے۔ ایسا فورینزک سائنس ہی نے ممکن بنایا ہے۔ جرم کی تحقیق اور تفتیش کرنے والے ماہرین کے بہ قول ہر لمس یا رابطہ (Contact)، کوئی نہ کوئی نشان ضرور چھوڑتا ہے۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے فورینزک سائنس کے ماہرین جائے وقوعہ پر جامع تحقیق پر بہت زور دیتے ہیں۔ ان کے بہ قول بعض اوقات جائے وقوعہ کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لینے ہی سے مجرم کا سراغ مل جاتا ہے، مگر ایسا کیسے ممکن ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے مرئی اور غیر مرئی شواہد اور اشارے مجرم کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔

مثلاً مجرم کا ایک بال یا اس کے کپڑے کا ایک رواں (Fiber) یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ وقوعے کے وقت جائے وقوعہ پر موجود تھا، لیکن انہیں جائے وقوعہ سے اٹھانا بھی ایک فن ہے، جس کے لیے جرائم کی تحقیقات کرنے والوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ہر جان دار کا بال اور ہر کپڑے کا رواں اپنی Morphology کے لحاظ سے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ اختلاف جاننے کے لیے بال یا رواں طاقت ور خردبین کے نیچے رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جدید دور میں اس قسم کے تجزیوں کے لیے بہت عمدہ اور حقیقت سے قریب ترین نتائج دینے والی مشینیں اور آلات دست یاب ہیں۔

انگلیوں کے نشانات بھی جرم کی تحقیقات میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نشانات حاصل کرنے کے لیے تحقیق کار جائے وقوعہ پر بہت نرم ریشوں والے برش کے ذریعے گرد جھاڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے کاربن پائوڈر استعمال کیا جاتا ہے اور پھر مطلوبہ مقام پر ایک خاص قسم کا ٹیپ لگایا جاتا ہے ،جسے ہٹانے پر وہاں موجود ہر قسم کے نشانات چمکنے لگتے ہیں۔ پھر یہ ٹیپ ایک بلاک یا سفید کارڈ پر رکھ دیا جاتا ہے۔ نشانات حاصل کرنے کے کئی دیگر طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، اس کا فیصلہ نشانات پر گزرنے والے وقت اور جس جگہ وہ موجود ہوں، اسے ملحوظ رکھ کر کیا جاتا ہے۔

اگلے مرحلے میں ان نشانات کو ریکارڈ میں محفوظ جرائم پیشہ یا مشکوک افراد کی انگلیوں کے نشانات سے ملایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب تمام شہریوں کی انگلیوں کے نشانات سرکاری اداروں کے ریکارڈ میں محفوظ ہوتے ہیں اور کمپیوٹر کا ایک بٹن دبا کر کسی بھی شخص کی انگلیوں کے نشانات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر نے ان نشانات کے درمیان مطابقت یا عدم مطابقت معلوم کرنے کا کام بہت آسان کردیا ہے۔ واضح رہے کہ انگلیوں کے نشانات کے مخصوص انداز اور مختلف حصے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض انداز اور حصے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوسکتے ہیں، لیکن بعض بالکل منفرد نوعیت کے ہوتے ہیں ،جن کی مدد سے دو افراد کی انگلیوں کے نشانات کے مابین مطابقت یا عدم مطابقت کا پتا لگایا جاتا ہے۔