• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی مصنف کے کتاب کی رونمائی اس کی زندگی کا ایک اہم دن ہوتا ہے۔ کتاب کی رونمائی اس طرح تصور کی جاتی ہے جیسے کسی شاعر کا دیوان، کسی مجسمہ ساز کا شاہکار یا آرکٹیکٹ کی عمارت جو تکمیل کے بعد پذیرائی کیلئے پیش کی جائے۔

میں گزشتہ 16سالوں سے پاکستان کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار ’’جنگ‘‘ کیلئے ’’آج کی دنیا‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کررہا ہوں۔ میں نے جب اپنی سوچ اور خیالات کو لفظوں میں ڈھالنے کیلئے کا فیصلہ کیا تو میرے پاس اردو یا انگریزی میں کالم تحریر کرنے کے آپشنز تھے۔ چونکہ پاکستان میں اردو اخبار پڑھنے والوں کی تعداد 95فیصد سے زیادہ ہے، اسلئے میں نے اپنے کالموں کیلئے پاکستان کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبار ’’جنگ‘‘ کا انتخاب کیا۔ آج اس سلسلے کو 16 سال ہونے کو آئے ہیں اور اس دوران میرے کالموں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ میرے قارئین اور دوست احباب کی یہ خواہش تھی کہ ان کالموں کو مجموعہ کی صورت میں کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ گزشتہ دنوں میرے کالموں کے مجموعہ پر مشتمل کتاب ’’آج کی دنیا‘‘ (حصہ دوم) کی تقریب رونمائی کراچی میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی کیلئے میری نظر گورنر پنجاب بلیغ الرحمن پر پڑی جو ادب سے لگائو رکھتے ہیں اور میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود میری دعوت کو قبول کیا اور خصوصی طور پر تقریب میں شرکت کیلئے کراچی تشریف لائے۔ تقریب کے مہمان اعزازی میں چیف سیکریٹری سندھ ڈاکٹر سہیل راجپوت، کمشنر کراچی اقبال میمن، سابق گورنر سندھ محمد زبیر، معروف سماجی شخصیت سردار یاسین ملک، ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر سلیمان چائولہ، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدور زبیر طفیل اور خالد تواب، ماہر تعلیم ہما بقائی اور شوبز شخصیت زیبا بختیار شامل تھے جبکہ تقریب میں معززین شہر، مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس تقریب میں میرے بڑے بھائی اختیار بیگ کی کمی محسوس کی گئی جو ورلڈ قونصلر کارپس (FICAC) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سالانہ انتخابات کے سلسلے میں قبرص (Cyprus) گئے تھے جہاں وہ انٹرنیشنل ادارے کے بورڈ پر منتخب ہوئے۔گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرے اشتیاق بیگ صاحب اور ان کی فیملی سے دیرینہ تعلقات ہیں اور میں ’’آج کی دنیا‘‘ (حصہ دوم) کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں انکے کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، یہ امر قابل قدر ہے کہ اشتیاق بیگ صاحب ایک بڑے کامیاب بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب کالم نگار بھی ہیں اور ساتھ ہی وہ مراکو کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ ان تمام ذمہ داریوں میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ جان لیوا مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کا ادارہ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان ہے جسکے وہ روح رواں ہیں۔ ان کی یہ خدمت یقینا قابل ستائش ہے جس کے صلے میں حکومت پاکستان نے انہیں ’’ستارہ امتیاز‘‘ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اشتیاق صاحب نے کاروباری و سماجی مصروفیات کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے جس طرح اپنے کالموں کا تسلسل برقرار رکھا اور ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر مختلف موضوعات کو اپنے کالم کا حصہ بنایا وہ قابل تحسین ہے۔ ان کی تحریروں کی یہ انفرادیت ہے کہ ان کو پڑھنے سے ایسی خراب صورتحال میں بھی امید کی کرن نظر آتی ہے اورمایوسی اور ناامیدی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ محض مسئلہ ہی نہیں اٹھاتے بلکہ اپنی دانست کے مطابق اس کا مناسب ترین حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ چیف سیکریٹری سندھ ڈاکٹر سہیل راجپوت نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک بزنس مین کا سماجی و فلاحی خدمات اور کالم نگاری کیلئے وقت نکالنا قابل تحسین ہے اور بزنس مینوں کو اپنے کاروباری مفاد کے علاوہ اس طرح کی فلاحی و سماجی خدمات کیلئے آگے آنا چاہئے۔ تقریب میں شریک دوسرے مقررین نے بھی کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے اپنے خطاب میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کا اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کتاب کی تقریب رونمائی کیلئے وقت نکالنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایک لکھاری کیلئے مطالعہ ،مشاہدہ اورتجربہ،یہ تینوں چیزیں بہت ضروری ہیں۔ مجھے بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق رہا جس سے علم میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ 60 سے زائد ممالک کے سفر سے مشاہدے میں اضافہ اور عمر کے ساتھ ساتھ تجربہ حاصل ہوا جو ایک لکھاری کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ایک صنعتکار، مراکش کے اعزازی قونصل جنرل اور میک اے وش فائونڈیشن کے بانی صدر کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے آپ کالم تحریر کرنے کیلئے کس طرح وقت نکال لیتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر کوئی انسان ٹائم مینجمنٹ کے فن سے آشنا ہو تو یہ سب کچھ ممکن ہے۔

’’آج کی دنیا‘‘ (حصہ دوم) میں نے اپنی والدہ محترمہ کے نام منسوب کی ہے جن کی اعلیٰ تعلیم و تربیت نے مجھے زندگی کا قرینہ سکھایا اور دعائوں سے مجھے عزت و کامیابی عطا ہوئی۔ میں ’’جنگ‘‘ گروپ کا مشکور ہوں جنہوں نے میری صلاحیتوں پر یقین کیا اور مجھے اپنے جریدے میں لکھنے کا موقع فراہم کیا، ساتھ ہی اپنے قارئین کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اپنی رائے سے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین