• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ وطن عزیز کی سیاست کس نہج پر چل نکلی ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ جب ایوب ،یحییٰ ،ضیاء اور مشرف تھے تو اس وقت بھی تنقید صرف ان شخصیات کی ذات تک محدود رہتی تھی اور سیاسی زعما اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ یہ معاملہ فوج کیلئے مجموعی طور پر کسی زحمت کا باعث نہ بنے ۔ قیام پاکستان کے وقت سے بھارت اور افغانستان کی جانب سے مسائل کی بہتات اور دِگر گوں اندرونی حالات نے مضبوط فوج کی ضرورت کو مزید آشکار کر دیا ،چنانچہ سیاسی قیادت نے جس قدر بھی پُرآشوب حالات کا سامنا کیا ، فرد اور ادارے میں فرق کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا کہ فرد کوئی ناگزير نہیں مگر فوج ناگزیر ہے، اس کی حرمت پر آنچ نہیں آنی چاہئے ۔ نوازشریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہے تھے ۔ ان حالات کا سامنا کرنے کی کیا وجوہات تھیں یہ کوئی ڈھکا چھپا رازنہیں ۔تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے شخص کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس کے منفی اثرات آشکار ہونا شروع ہو چکے تھے جو اب ایک تعفن کی مانند پھیل چکے ہیں مگر اس سب کے باوجود نواز شریف کے لہجے اور رویے میں کسی ادارے کے حوالے سے بطور ادارہ تلخی موجود نہیں تھی بلکہ وہ اس کیفیت کے بد اثرات سے نہ صرف یہ کہ ملک بلکہ ادارے کو بھی محفوظ رکھنے کیلئے کوشاں تھے ۔ ان کی پیشیوں پر اکثر جانا ہوتا تھا ، جون 2018 کی ایک پیشی پر جب ان سے ملاقات ہوئی تو اس کا احوال 5جون 2018 کے اپنے کالم میں بیان کیا ۔اس کالم کا ایک اقتباس یہاں بیان کرنا چاہوں گا’’ نواز شریف کی ڈکشنری میں اس کو کمزور یا بے اثر کر ڈالنا ہرگزنہیں ہے کیونکہ دنیا میں افغانستان اور عراق کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد اپنے دفاع کے لئے ایک لمحہ بھی غافل رہنا موت کے مترادف ہے بلکہ جدو جہد صرف اتنی ہے کہ تمام ادارے وہاں تک محدود ہو جائیں جہاں تک ترقی کرتے جمہوری ممالک کے ادارے محدود ہیں ۔ (جب ) میں نواز شریف سے گفتگو کی غرض سے آگے کی طرف بڑھا تو میرے ہاتھوں میں کرنل سہیل شہید کے بچوں کی تصویر والا اخبار تھا نواز شریف کی نظريں شہید کے بچوں کے چہروں پر ٹھہر گئیں اور وہ خود کلامی کے انداز میں بولے کاش ان کے باپ کو بچایا جا سکتا ۔

اس واقعے کو دہرانے کا سبب یہ ہے کہ یہ واضح ہو سکے کہ نواز شریف کے دل میں ذاتی پریشانی کو ایک طرف رکھتے ہوئے فوج اور تمام اداروں کے لئے ان حالات میں بھی محبت ہی گندھی ہوئی تھی اور ایک ذمہ دار سیاستدان کا رویہ ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ مگرحالیہ لانگ مارچ کے دوران گولی چلنے کے واقعے کے بعد جس نوعیت کا احتجاج دیکھا گیا کہ سو پچاس افراد ادارے کے افسران کی سرکاری رہائش گاہوں کے باہر ہلڑ بازی کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسی صورتحال جو اجتماعی طور پر ادارے کو نشانہ بنا رہی ہو انتہائی کربناک اور فکرانگیز ہے کہ اپنی حکومت کے آخری ایام سے لے کر اب تک برصغیر کی تاریخ کے بدترین کرداروں سے تشبیہ دی گئی، آج جو مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ اس تمام صورتحال کا تدارک کرنے کی غرض سے غیر معمولی فہم و فراست درکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سنگین خطرہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر اگلے برس کے آخر میں انتخابات کا انعقاد کردیا گیا تو کیا عمران خان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرلیں گے؟ ان کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے اور جب وہ ایسا نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں وہ کیا کریں گے ؟ جواب ہے کہ مزید نفرت کی سیاست ۔ اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کیلئے سیاسی قیادت اور دیگر کو زبردست تدبر اور تحمل کا رو یہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ فوجی معاملات پر گفتگو ہو رہی ہے تو یاد آیا کہ جاپان کی ایک سفارتی تقریب میں سفارت کاروں سے ملاقات ہوئی تو وہاں پاک یوکرائن فوجی تعلقات کی اہمیت کا ذکر ہونے لگا اور میں سوچنے لگا کہ روس کیلئے اقوام متحدہ میں ایبسٹين کرنے سے جہاں اس دوست ملک سے تعلقات میں دوری پیدا ہو رہی ہے وہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ روس کی حمایت سے وطن عزیز کو کیا فائدہ حاصل ہو ؟ اس تقریب میں شرکا کی تعداد محدود تھی اور شرکا ،تقریب میں شامل جنرل عاصم منیر اور دیگر فوجی افسران کے ساتھ جس طرح سیلفیاں لے رہے تھے وہ ثابت کر رہا تھا کہ تمام پروپیگنڈہ کے باوجود فوج کی محبت پر جوش انداز میں زندہ ہے اور زندہ رہے گی ۔

تازہ ترین