آج دس نومبر کو جدید ترک ریاست کے بانی اور جمہوریہ ترکیہ کے پہلے صدرمصطفیٰ کمال پاشا کی سالانہ برسی منا ئی جارہی ہے،آج سے چوراسی سال قبل10نومبر1938ء کو عصر ِ حاضر کے اس عظیم رہنماء نے دارِ فانی کو الوداع کہا جس کے انمٹ اثرات اکیسویں صدی میں بھی قائم و دائم ہیں ،نہ صرف موجودہ ترکیہ بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کی اعلیٰ خدمات کا اعتراف کرنے والے موجود ہیں، وفاقی دارالحکومت اسلام آبادکے ریڈ زون میں واقع اہم شاہراہ اتاترک ایونیو پاکستانیوں کی ترک لیڈر سے لازوال عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ترک عوام انہیں بجا طور پر اتا ترک (ترکوں کا باپ)کا درجہ دیتے ہیں،ہر سال دس نومبر کے دن ترکیہ میں مختلف تقریبات میں اس عظیم رہنماء کو خراج ِ تحسین پیش کیا جاتا ہے، سائرن بجا کر ٹریفک اوردیگر معمولاتِ زندگی کو ایک منٹ کیلئے رو کا جاتا ہے،لوگ گاڑیوں سے باہر نکل آتے ہیں، قومی ترانہ بجنا شروع ہوجاتا ہے اور پھر صبح نو بجکر پانچ منٹ پر پورے ملک میں اتاترک کی یاد میں ایک منٹ کی مکمل خاموشی چھاجاتی ہے۔تاریخی طور پر گزشتہ صدی کے آغاز پر سات سو سال سے تین براعظموں کی حکمراں ترکوں کی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ تیزی سے روبہ زوال تھی، جنگ عظیم اول (1914تا1918) کی تباہ کاریوں نے عالمی دنیا کے سیاسی منظرنامہ کو تیزی سے بدلنا شروع کردیااور صدیوں سے قائم ترکوں کی سلطنتِ عثمانیہ کواپنے انجام سے دوچارکردیا، موجودہ ترکیہ کے مختلف علاقوں پر فرانس اور برطانیہ کی سامراجی قوتوں کا تسلط قائم ہوگیااور سات صدیوں تک دنیا پر راج کرنے والے ترکوں کو اپنی بقا کا چیلنج درپیش ہو گیا،میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مایوس کُن حالات میں اگر خدا نے ترکوں کیلئے کوئی نجات دہندہ بناکر بھیجا تو وہ مصطفیٰ کمال پاشا تھے جن کاسب سے بڑا کارنامہ اپنی قوم کو مایوسی سے بچاکر اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کرنا تھا، کمال پاشا نے ترک قوم کو ایک نئے سویرے کی امید دلائی اوراپنے ملک کو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا آہنی عزم کیا۔ اعلانِ آزادی کے موقع پرکمال پاشا نے امن کے قیام، جمہوریت کے فروغ، بنیادی حقوق کے تحفظ اورخواتین کو بااختیاربنانے کیلئے واضح موقف اختیار کیا کہ وہ ترکوں کی مکمل آزادی کے حامی ہیں، مکمل آزادی سے ان کا مطلب یقینی طور پرجمہوریہ ترکیہ کو اقتصادی، مالی، قانونی، عسکری، ثقافتی اور تمام معاملات میں آزادی سے فیصلے کرنے کیلئے بااختیار بنانا تھا، کمال پاشا کے مطابق ان میں سے کسی ایک امور میں بھی آزادی سے محروم ہوناملک وقوم کو اپنی تمام تر آزادیوں سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا۔اتاترک نے سماجی، ثقافتی ، تعلیمی ا ور اقتصادی پہلوؤں میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی قیادت کی تاکہ نوزائیدہ مملکت میں قانون سازی، عدالتی اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل ہوسکے، انہوں نے ملک بھر میں جدید یکساں نظام تعلیم کویقینی بنانے کو جنگ ِ آزادی سے زیادہ اہم چیلنج قرار دیااور اس سلسلے میں امریکی ماہرین تعلیم کو انقرہ مدعو کیا کہ وہ تعلیم کے میدان میں اصلاحات کیلئے اپنی سفارشات مرتب کریں تاکہ خواندگی میں اضافہ کے ذریعے شہریوں کو مختلف شعبہ زندگی میں اپنا بھرپورکردارادا کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ اتاترک نے نئے دور کے تقاضوں کو ترک عوام میں مقبول بنانے کیلئے چھ تیروں پر مشتمل سرخ رنگ کا ایک دلچسپ بینر متعارف کرایا جس میں اصلاحات کے نتیجے میں رونماہونے والی ہر تبدیلی کو تیر کے طور پر پیش کیا گیا تھا، حقیقت پسندی ، عملیت پسندی اور جدیدیت کے تصور پر مبنی اس قومی فلسفے کو ’’چھ تیر‘‘ اور کمال اِزم/کمالیت بھی کہا جاتا ہے جس کو ریاستی سطح پرنافذ کرتے ہوئے ایک جمہوری اور جدید ترکیہ کا قیام ہوا،کمالیت کے چھ عدد اصولوں میں ری پبلک ازم (جمہوریت) ، پوپل ازم (عوام میں اقتدار کی منتقلی)، نیشنل ازم (قوم پرستی)، لائیک ازم (ریاستی امور کی مذہب سے علیحدگی)، اسٹیٹ ازم (ریاست کو فوقیت)اور ریفارم ازم (اصلاح پسندی) شامل ہیں جوآج سے سو سال قبل سامراجی قوتوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ترکی کی بقاء یقینی بنانے کیلئے وضع کئے گئے تھے،دورِ جدید میں عالمی منظرنامے میں نمایاں مقام حاصل کرنے کیلئے کمالیت کے ان اصولوں نے بعد میں آنے والی ترک قیادت کی بھی رہنمائی کی،کمال پاشا نے نئے ملک کے آئینِ نو میں ترک قوم کی یہ تعریف بیان کی کہ وہ تمام لوگ ترک قوم ہیں جو جمہوریہ ترکیہ کی تشکیل کرتے ہیں ،ترک قومیت کا کمالیاتی تصور جمہوریہ ترکی کے آئین کے آرٹیکل 66 میں ضم ہے جس کے تحت نسل، عقیدہ اور جنس وغیرہ سے قطع نظر ہر فرد کوبلاتفریق ترک شہری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مصطفیٰ کمال اتاترک عالمی پائے کے ایک عظیم لیڈر تھے جنہوں نے انتشار کے شکار اپنے ملک کودوراندیشی ، فلسفے اور عسکری کامیابیوں کی بدولت ایک ایساکامیاب رول ماڈل بنایا جس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کا ہر ترقی پذیر ملک اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرسکتا ہے، میں اتاترک کی برسی کے موقع پرانہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے کالم کا اختتام ان کے ایک مشہور قول سے کرنا چاہتا ہوں: (پیس ایٹ ہوم، پیس اِن دی ورلڈ) یعنیٰ اندرونی امن کا قیام عالمی امن کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔