• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست اور جمہوریت کے نام پر عجیب کھیل کھیلا جارہا ہے جس سے ملک میں سیاسی ومعاشی عدم استحکام پیدا ہورہا ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کو کمزور کرنے کے لئے نشانہ بنانا، پاک فوج کی اعلیٰ قیادت اور انتہائی اہم عہدیداران پر معاملہ اب تنقید سے بھی آگے لے جایا جا چکا ہے اور بعض کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وزیر آباد واقعہ میں ملوث کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں، آرمی چیف کی تعیناتی کو بھی متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں ایسا کبھی ہوا ہے؟ آخر یہ کون سی سیاست اور کون ساایجنڈا ہے، جس کو جمہوریت اور سیاست کے نام پر پورا کرنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی بہرصورت آئین کےمطابق ہوگی خواہش پر نہیں۔ پاک فوج کے سپہ سالار کی تعیناتی میں اگر پسند ناپسند اور ’’ اپنا بندہ‘‘ کو بنیاد بنانے کی سوچ کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ بہت بڑی غلطی اور ملک دشمنی ہے۔ کوئی پاکستانی کیسے سوچ سکتا ہے کہ پاک فوج میں ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر تفریق پیدا کی جائے؟ یہاں تو مخصوص جماعت کے ایک غیر منتخب شخص نے قیادت کے ایما پر ٹی وی بیان کے ذریعے پاک فوج میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش بھی کی، جس کی کوئی سیاسی حیثیت بھی نہیں اور پھر دوران تفتیش برہنہ کرنے، جنسی تشدد کرنے جیسے گھٹیا الزامات اداروں پر لگانے کی کوشش کی۔ اسی طرح اسی جماعت کے ایک سینئر رکن نے جب آرمی چیف کے بارے میں نازیبا ٹوئٹ کیا جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے نے قانون کے تحت اس کو حراست میں لیاتو اس نے بھی بالکل اسی طرح کے الزامات اداروں پر لگائے۔ یادرہے یہ وہی شخص ہے جس کی جماعت کے دورِاقتدار میں اس نے ایک غریب گھرانے پر حملہ کیا اور چادراور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے بوڑھوں،خواتین اور معصوم بچوں پر بری طرح تشدد کیا لیکن ان کو انصاف نہیں ملا۔اس غریب گھرانے پر الزام یہ تھا کہ ان کی گائےنے مذکورہ سینیٹر کے چند پودوں کے پتے کھائے تھے۔ کیا وہ انسان اور پاکستانی نہیں تھے؟ اور اسی سینیٹر نے جب آرمی چیف کے خلاف ٹویٹ کرکے پورے ادارے کئ تقدس کو پامال کرنے کی ناکام کوشش کی تو نہ صرف اس کی جماعت بلکہ انصاف کے ادارے حرکت میں آگئے۔ یہ سیاست ہے یا بدمعاشی ہے۔ لیکن اب ایسا کچھ بھی کرنا کسی طور پر ناممکن ہے۔ بس بہت ہوگیا۔ کیا ملک اس طرح چلتے ہیں کہ ایک شخص ہر ادارے پراپنی مرضی مسلط کرے؟ یہ جمہوریت اور سیاست نہیں آمریت ہے۔ کیا ایک شخص اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتا ہے اور عوام وریاستی اداروں کو غلام ورعایا۔ ہرپاکستانی پرلازم ہے کہ آئین اور قانون کا احترام کرے اور ریاستی اداروں کی عزت وتکریم کو مقدم سمجھے اور عمل تو درکنار ایسا کچھ سوچے بھی نہ جس سے ریاستی اداروں کے کمزور ہونے کا ذرہ بھر احتمال ہو کیونکہ ریاستی اداروں کی کمزوری ملک کی کمزوری ہوتی ہے جس کی کسی بھی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی۔دوسری طرف وزیر آباد واقعہ میں عدالتی کمیشن کوبھی تسلیم نہیں کیا جارہا نہ ہی درج کی گئی ایف آئی آر کو مانا جارہا ہے ۔ہوسکتا ہے تفتیش سے یہ خطرہ ہو کہ کہیں حقائق سامنے نہ آجائیں جس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ کیسا غیر منطقی مطالبہ ہے کہ بشمول اعلیٰ فوجی افسر کے تین اہم شخصیات پہلے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیں۔ ایف آئی آر میں ان تینوں کو نامزد کیا جائے پھر تفتیش ہو۔ اور اگر وہ بعد از تفتیش ملوث نہ پائے گئے تو وہ آزاد ہوں گےبلکہ گزشتہ روزعمران خان نے ایک بیان میں نیا شوشہ یہ بھی چھوڑا ہے کہ اس واقعہ میں ایک اور فوجی افسر بھی شامل ہیں جن کا نام وہ چند دنوں تک عیاں کریں گے۔

یہ اس ملک میں کیا تماشہ لگایا گیا ہے؟ کبھی سڑکیں بند کرکے عوام کے لئے مشکلات ومسائل پیدا کئے جاتے ہیں اور کبھی سیاست کا کوئی اور غیرجمہوری انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چار دنوں سے راولپنڈی اسلام آباد میں سڑکیں بند ہیں،ہر سڑک پر پندرہ بیس بندے کرسیاں رکھ کر اور ٹینٹ لگاکر لوگوں اور بچوں کی آمدورفت بند کرنے کا باعث بنے ہوئے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان علاقوں میں ہورہا ہے جہاں اسی جماعت کی حکومت ہے اور ان ہی میں سے بعض لوگوں نے اسی جماعت کو ووٹ بھی دئیے ہیں اب وہ اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کاروبار بند اور مریضوں کو لانے لے جانے کے راستے مسدود ہیں۔ اپنے دور حکومت میں عمران خان سڑکوں کی بندش اور احتجاج کو ملک اور عوام کے ساتھ دشمنی قرار دیتے رہے ہیں۔ اب جب وہ خود یہ سب کچھ کررہے ہیں تو یہ جائز ہوگیا۔ اس سے زیادہ منافقت اور کیا ہوسکتی ہے اور بقول خود ان کے یہ طرزِ عمل ملک وقوم کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔

اطلاعات کے مطابق کل سے شروع ہونے والےلانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے پر عمران خان اس کی قیادت کریں گے۔ کے پی اور دیگر علاقوں سے بھی مارچ کے شوقین راولپنڈی پہنچیں گے۔ ذرائع کے مطابق ابھی تک اس مارچ میں مسلح افراد کے شامل ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں، جس سے مارچ میں شامل لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے اس مارچ کی منزل کے بارے میں بھی متضاد اطلاعات ہیں۔ اس تمام صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ ذاتی وسیاسی مفادات کے حصول کے لئے ملکی وسلامتی کو دائو پر لگانے کا خدشہ ہے لیکن نہ یہ ممکن ہوسکتا ہے نہ اس کی اجازت دی جائے گی۔ بہرحال خدشات تو ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین