• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میں نجی چینل کی رپورٹر صدف نعیم نے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران جان دے دی۔ صحافتی امور نبھاتے ہوئے رپورٹرز کی اموات کا یہ واقعہ نیا نہیں ہے۔ ایسے کئی واقعات پاکستان کی صحافتی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس واقعہ کے بعد مثبت پہلوؤں کو اگر دیکھا جائے تو عمرا ن خان کا ’’مارچ شو‘‘ فوری ملتوی کر دینا ایک قابل ذکر امر تھا جسے بہرحال سراہا جانا چاہئے۔

دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومت کا فوری طور پر لواحقین کیلئے پچاس، پچاس لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان بھی قائل ستائش تھا۔ محکمہ اطلاعات پنجاب الگ سے مرحومہ کے خاندان کو 10لاکھ روپے مالی امداد دے رہا ہے جب کہ اس کے بچوں کی تعلیمی کفالت کا بھی ذمہ لیا گیا ہے۔ یہ تمام عوامل فوری اور بروقت ہونا مرحومہ کے خاندان کے لئے اس لحاظ سے بھی حوصلہ افزا ہیں، کہ صدف نعیم کا تعلق اس کیٹیگری کے میڈیا ہاؤس سے تھا جہاں صحافیوں کا استحصال معمولی بات ہے۔ اس تناظر میں صدف کئی ماہ کی تنخواہ سے بھی محروم تھی۔ اس کے گھر کا نظام کیسے چل رہا تھا، یہ صرف وہی جانتی تھی۔صدف نعیم اس لحاظ سے بھی ایک محنتی اور متحرک رپورٹر تھی کہ ادارے کی جانب سے وسائل نہ ملنے کے باوجود پیشہ ورانہ فرائض کی روانی میں فرق نہیں آنے دیتی تھی اور اپنی استعداد کار سے بڑھ کر نتائج دیتی تھی۔

ایک مرتبہ پھر آج سے تحریک انصاف نے دوبارہ لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے ۔لیکن ایک جگہ کے بجائے مختلف جگہوں پر لانگ مارچ شروع کیا ہے۔ سوشل میڈیا میں جس کثرت اور مضطربانہ انداز سے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے حوالے سے چہ میگوئیاں اور قیاس آرا ئیاں جنم لے رہی ہیں، اس سے اندازہ ہوا کہ عوام کو شدت کے ساتھ ملکی سلامتی اورموجودہ صورت حال میں سیاسی عدم استحکام کو دور کرنے کیلئے مثبت خبروں کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کا اپنے لیڈر سے قلبی لگاؤ ہوتا ہے اس لئے نظام جمہوریت میں لانگ مارچ اگر پُر امن ہے تو کسی بھی سیاسی جماعت کو اس کا مکمل حق ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زر داری، مریم نواز شریف تحریک انصاف کی اتحادی حکومت میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر چکے ہیں، برطرف وزیر اعظم عمران خان نے بھی 25مئی2022کو پشاور سے مارچ کیا تھا لیکن وہ ہنگامہ آرا ئیوں اور فساد کی نذر ہو گیا۔ ما ضی میںدیگر سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کئے، اسلام آباد میں جلسے بھی کئے لیکن اس سے سیاسی افرا تفری اور عدم استحکام کی فضا مکدر نہ ہوئی تھی تاہم جب بھی عمران خان لانگ مارچ کی بات کرتے ہیں تو میڈیا وغیرہ میں ایک ابال سا آ جاتا ہےکہ نہ جانے کون سی قیامت آنے والی ہے۔

پاکستان میں لانگ مارچ یا دھرنوں سے حکومت گرائی جا سکتی تو بعض سیاسی گروہ یا تنظیمیں ہفتے میں سات مرتبہ حکومتیں گراتے۔ حکومت کی تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے جو عمران خان کو برطرف کرانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ مارشل لا دوسرا ایسا راستہ ہے جس سے واپسی کیلئے ان گنت قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ میڈیا کا فریضہ ہے کہ وہ ان واقعات کا تجزیہ یا کوریج کرتے وقت قوم کے سامنے لانگ مارچ کے اصل حقائق پیش کرے، بلا وجہ کی سنسنی اورجانب دارانہ کوریج سے ہیجان خیزی پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔ کسی بھی میڈیا ہاؤس کی جو بھی پالیسی ہو وہ مملکت کی سلامتی و بقا سے بڑھ کر نہ ہو۔ میڈیا بعض اوقات کچھ ایسا پیش کرتا ہے جس سے بد قسمتی سے ملک میں ایسے حالات رونما ہو جاتے ہیں جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہو جایا کرتی ہیں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس سے قطع نظر کسی کا بھی مقصد ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیزی نہیں ہونا چاہئے۔ سیاسی مقاصد کے حصول میں ناکامی میں پر تشدد اقدامات و مظاہرے اور ماضی کی طرح سول نافرمانی جیسی تحریک چلانے کی ناکام کوشش کرنے سے پہلے لانگ مارچ کے منتظمین کو گہرے غور اور تدبر کی ضرورت ہے۔ سیاسی مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، اگر بیک ڈور رابطے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے تو فریقین کو اس کی ناکامی کے عوامل پر مزید غور کرنے اور لچک دکھانے کی ضرورت ہے۔

سر دست ملک کی تمام پارٹیوں اور جماعتوں سے گزارش کہ آپ سیاسی لڑائیوں کو سیاسی انداز سے لڑاکریں۔ اللہ کے واسطے مذہب کو فروعی مفادات کے درمیان میں نہ لایا کریں، اس سے آپ کو شاید کچھ وقتی مفاد حاصل ہو جاتاہو گا، لیکن اس سے مذہب کے تشخص کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے اس کے نتائج بڑے دور رَس ہوتے ہیں، ہم جس طرح مذہب کو اپنی پست سیاسی اغراض کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں، اس سے دنیا میں ہماری بابت اچھا تاثر نہیں جاتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔ لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ برطرف وزیر اعظم کیا چاہتے ہیں؟ یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں رہا۔ اس لئے اس پر تفصیل سے خیال آرائی کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ رائی کو پہاڑ بنانے سے بہتر ہے کہ انہیں پر امن مارچ کر لینے دیں، سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق انتظامیہ کی اجازت سے جہاں ٹھہرنا چاہیں وہاں 126دن کے بجائے 126برس دھرنا دے دیں۔ اس سے عوام کی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑنا۔ خطابات بھی ہوں گے، تاہم اپنی تقاریر میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی نہ ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین