• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ انصاف کے حامیوں کے روبرو دلائل پیش کرنا ایک لاحاصل کوشش ہے جس طرح ان کے رہنماغیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں، جس کے باعث پی ٹی آئی کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ ان کا ہینڈسم رہنما خدانخواستہ ایسا مسیحا ہے جو ہر قسم کی غلطیوں اورکوتاہیوں سے پاک ہے، جھوٹ کے تو وہ قریب بھی نہیں پھٹک سکتا،اس لئے اس کے لئے کچھ بھی کرنا غلط نہیں، لہٰذا وہ آگ لگانے اور انتشار پھیلانے میں حق بجانب ہے، کوئی انھیں بتائے ریاست ایسا ہاتھی ہے جس کے پیر وں تلے آنے والا بچا نہیں کرتا۔

وزیر آبادکے واقعہ سے متعلق سوال اتنے ہیں کہ ایک ختم نہیں ہوتا دوسرا پیدا ہوجاتا ہے پھر بھی سامنے تو رکھنے پڑیں گے کہ بقول شاعر شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات۔

لوسٹ مارچ کو گولی ٹچ دے کر طاقت کا ٹیکہ لگانے والوں نے براہ راست حساس ادارے کے ایک اعلیٰ افسر،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر مدعا ڈال دیا ہے، پی ٹی آئی کا سربراہ عوام کو روگی سمجھتا ہے کہ وہ جو کہے گا سب اس کی باتوں پر ایمان لے آئیں گے۔

کمزور ترین اسکرپٹ پر ترتیب شدہ وقوعے میں اتنے جھول ہیں کہ بے وقوف سے بے وقوف تفتیشی بھی مشتبہ شخص کا کھرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجرم تک پہنچ جائے گا، پہلے کہا گیا کہ نام نہاد مہاتما کو ٹانگوں میں چار گولیاں لگی ہیں، پھر کہا گیا، دو گولیاں لگی ہیں آخر میں صرف یہ بیان آیا کہ افرا تفری میں چوٹیں آئی ہیں،محض ایک معمولی سی پٹی ٹانگ پر کرکے سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، کسی بھی قریبی اسپتال سے طبی امداد لینے کی بجائے 158 کلومیٹر دور ذاتی اسپتال میں جاکر من مرضی کی اسکین رپورٹ بھی بنوائی گئی۔

وزیرآباد کے وقوعہ کے بارے میں پہلا سوال یہ ہے کیسے کوئی اناڑی نیچے کھڑے ہوکر کنٹینر پر کھڑے شخص کی ٹانگ کوایک چھوٹے سے پستول سےنشانہ بنا سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ جس جگہ جعلی مہاتما کی ٹانگ پر گولی لگی وہاں اس کا ایک ساتھ بھی اس کے ساتھ کھڑا تھا، اس کے منہ پر گولی کیسے لگی؟

اس کا ساتھی اگرسیدھا کھڑا تھا تو کیا مہاتما الٹا کھڑا ہوکر یوگا کررہا تھا یا معاملہ اس کے برعکس تھا؟

ویڈیو سے یہ صاف عیاں ہو رہا ہے کہ مبینہ حملہ آور نے سیدھے فائر کئے تو کیسے اس کی گولی عمران خان کے ساتھی کے گال کو صرف چھو کر غائب ہو گئی، پلک جھپکنے میں موقع سے ہٹنے والے بھونپو نے جس طرح اچھل اچھل کر للکارے مارے ہیں وہ سب دیکھ چکے ہیں۔

غور کریں جس ملزم کا ابتدائی بیان وائرل ہوا ،کیا اس کا لباس اور شکل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ملزم کی تصویر سے ملتا ہے؟

ویڈیو کے مطابق پہلے برسٹ کی آواز آئی اور گولی چلنے کی آواز بعد میں آئی، پکڑا صرف پستول والا گیا،کیا برسٹ مارنے والا چھلاوا تھا جو پلک جھپکنے میں غائب ہوگیا ؟

کنٹینر کو حصار میں لینے والی مخصوص سیکورٹی کہاں تھی؟ گولیوں کے خول اور زخمیوں کی تعداد میں تضاد کیوں ہے؟ یقیناً وہاں ایک سے زائد حملہ آور تھے جب کہ ایک کچا ملزم مجرم بنا کر پیش کردیا گیا۔مہاتما کو وقوعے کے بعد مقامی ہسپتال نہیں لے جایا گیا کہ بلکہ سو کلومیٹرسے زیادہ کا سفر کرکے لاہور لے جایا گیا، صاف پتہ چلتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟

جعلی کھڑاک کرنے والے سے سوال ہے کہ پنجاب میں حکومت کس کی ہے؟ سیکورٹی عملہ کس کا تھا؟تحفظ کی ذمہ داری کس کی تھی؟ پولیس کس کی تھی؟

اس کے باوجود پروپیگنڈا مشینری گند پھیلانے میں مصروفِ عمل ہے کہ ذمہ دار وزیراعظم، وزیر داخلہ اور حساس ادارے کا ایک اعلیٰ افسر ہے اور وہ انہی کے خلاف ایف آئی آر کٹوائے گا۔

لوسٹ مارچ کی ستر تاریخیں دینے والا کھلم کھلا دعوے کرتا رہا ہے کہ میرے پاس اتنے کارڈز ہیں جو مخالفوں تو دور میرے قریبی افراد کی سوچ سے بھی باہر ہیں، یہی دعوے کرتا تھا ناں وہ، سب ایک ایک کرکے کھل رہے ہیں، قائد اعظم کو کینسر کروانے والے کو کوئی بتائے کہ خدائی فیصلے ابدی ہوتے ہیں، بے شک سارے ڈھونگوں کے پول ایک دن کھل جائیں گے اور پوری قوم اس کا اصل چہرہ دیکھ لے گی، خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ ہمارے وطن کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین!

تازہ ترین