• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بھر میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ بچے قبل ازوقت پیدا ہوتے ہیں

ہر سال دُنیا بَھر میں 17نومبر کوصحت سے متعلق مختلف این جی اوز اور فاؤنڈیشنز کے زیرِاہتمام ’’ورلڈ پِری میچوریٹی ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، تاکہ قبل ازوقت پیدایش سے متعلق احتیاطی تدابیر اور دیگر معلومات عام کرکےپِری میچور بچّوں کی شرحِ پیدایش میں کمی لائی جاسکے۔ اِمسال اس یوم کے لیے جو تھیم منتخب کیا گیا ہے، وہ"A Parent's Embarce: A Powerful Therapy"ہے۔یعنی والدین کا آغوش میں لینا، توانائی سے بَھرپور تھراپی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر دس میں سے ایک بچّہ وقت سے پہلے پیدا ہوجاتا ہے۔ واضح رہے، ایک نارمل حمل کا دورانیہ 40 ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی بچّہ مقررہ وقت سے تین ہفتے یا اس سے مزید پہلے پیدا ہوجائے، تو طبّی اصطلاح میں اسے premature Baby کہا جائے گا۔پِری میچور بچّے پیدایش کے فوری بعد یا تاخیر سے بھی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔اس وقت پوری دُنیا میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ بچّے قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں اور قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ جدید دَور میں بھی اس تعداد میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔نیز، پانچ سال سے کم عُمر بچّوں کی اموات کا بنیادی سبب بھی قبل ازوقت پیدایش ہے،حالاں کہ ان میں سے تین چوتھائی اموات کو احتیاطی تدابیر سے روکا جاسکتا ہے۔

ایک مکمل طور پر صحت مند بچّے کا دُنیا میں جنم لیناکوئی آسان امر نہیں اور یہ عمل بغیر کسی تیاری کے مقررہ وقت پر انجام تک پہنچنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارے مُلک میں حمل سے قبل گائناکالوجسٹ سے رابطہ اور اپنی صحت سے متعلق آگہی حاصل کرنے کا رواج عام نہیں۔یاد رکھیں، اگر حمل ٹھہرنے سے قبل ماں اپنی صحت کا خاص خیال رکھے، متوازن غذا استعمال کرے،خون کی کمی ہونے کی صُورت میں معالج کے مشورے سے علاج کروایا جائے، روزانہ استعمال کی جانے والی ادویہ کا استعمال محدود کیا جائے، تمباکو نوشی یا کسی بھی نشہ آور شے سے اجتناب برتا جائے، بُلند فشارِ خون یا ذیا بطیس کا مرض لاحق ہو، تو پہلے اسے کنٹرول کیا جائے،حمل ٹھہرنے سے قبل فولک ایسڈکا باقاعدگی سے استعمال (جو بچے کو پیدائشی نقص سے بچاتی ہے) اور ورزش کو معمول کا حصّہ بنالیا جائے، توقبل از وقت پیدایش کے امکانات کم کیے جاسکتے ہیں۔ 

یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ دورانِ حمل تب زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، جب حاملہ کےدیگر بچّوں میں سے کسی کی قبل از وقت پیدایش ہوئی ہو، ایک بچّے کی پیدایش کے بعد دوسرا حمل ٹھہرنے میں چھے ماہ سے کم کا وقفہ ہو، حمل (جڑواں ) دو یا دو سے زائد بچّوں کا ہو۔ بچّہ دانی میں پیدایشی نقص، انفیکشن یا بچّہ دانی کا منہ کم زور ہو۔ بُلند فشارِ خون، ذیابطیس، امراضِ جگر، گُردہ یا کوئی اور دائمی بیماری لاحق ہو یا حاملہ کسی اندوہ ناک سانحے سے گزری ہو۔ ان تمام صُورتوں میں بہتر ہوگا کہ فوری طور پر کسی مستند تربیت یافتہ گائناکالوجسٹ سے معائنہ کروائیں، معالج کی تجویز کردہ ادویہ باقاعدگی سے استعمال کریں۔ 

اگر گائناکالوجسٹ الٹراساؤنڈ یا کوئی اور ٹیسٹ کروانے کو کہے تو فوراً کروالیں، ٹال مٹول سے کام نہ لیں۔ انفیکشن کی صُورت میں جو بھی ادویہ تجویز کی جائیں، انہیں لازماً استعمال کریں ۔بچّے دانی کا منہ کم زور ہونے کی صُورت میں اس پر ٹانکے لگائے جاسکتے ہیں یا pessary کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بعض مخصوص ادویہ کا استعمال بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔

حمل ٹھہرنے کے آٹھویں ماہ کے شروع میں اسٹرائیڈز کے انجیکشن بچّے کے پھیپھڑے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر بچّے کی پیدایش آٹھویں ماہ سے بھی قبل ہونے کا امکان ہو، تو نہ صرف اسٹیرائیڈز، بلکہ میگنیشیم سلفیٹ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ یہ بچّے کے اعصاب کو تحفّظ فراہم کرکے توانا رکھتا ہے۔ اگر مقررہ وقت سے قبل زچگی کا امکان پایا جائے، تو حاملہ کو اُسی اسپتال لے کر جائیں، جہاں نرسری کی تمام سہولتیں میسّر ہوں۔

پِری میچور بچّے پیدایشی طور پر بہت کم زور ہوتے ہیں۔ ان کے جسم میں چربی نہ ہونے کے باعث جِلد کی رنگت سُرخ ہوتی ہے اورمدافعتی نظام بھی خاصا کم زور ہوتا ہے۔ چوں کہ ان بچّوں میں کم درجۂ حرارت برداشت کرنے کے لیے چربی کی مناسب مقدار موجود نہیں ہوتی،لہٰذا انہیں ماں کی جِلد سے لگا کر رکھا جاتا ہے، تاکہ حرارت ملتی رہے۔ اس حکمتِ عملی کو طبّی اصطلاح میں Kangaroo Care کہتے ہیں۔بچّے کو جلدی جلدی ماں کا دودھ دیا جائے ۔بعض پِری میچور بچّوں کو اینٹی بائیوٹکس کا استعمال بھی کروایا جاسکتا ہے۔ اگر سانس لینے میں دشواری محسوس ہو، تو Surfactant دیا جاسکتا ہے۔ مقررہ وقت سےجتنا پہلے بچّے کی پیدایش ہوگی، پیچیدگیوں کے امکانات بھی اُتنے ہی زیادہ بڑھ جائیں گے۔

پِری میچور بچّوں کو پیدایش کے فوری بعدجن طبّی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اُن میں سانس لینے میں دقّت، جسم کا درجۂ حرات برقرار رکھنے میں دشواری، دِل کا کوئی عارضہ، ذہنی مرض، ہاضمے کے مسائل، پیلیا، خون میں ظاہر ہونے والی پیچیدگیاں اور مدافعتی نظام کی کم زوری شامل ہے، جب کہ تاخیر سے ظاہر ہونے والی پیچیدگیوں میں دماغی فالج (Cerebral Palsy)،نئی چیزیں سیکھنے میں دشواری، اندھا پَن، بہرا پَن، دانتوں کے امراض اورذہنی و جسمانی صحت کے مسائل وغیرہ شامل ہیں۔ 

یاد رکھیں، پِری میچور بچّوں کی شرحِ پیدایش میں کمی کے لیے ہم سب کو مل جُل کر کام کرنا ہے۔ تاہم، انفرادی طور پر ضروری ہے کہ ماں بننے والی خواتین اپناطبّی معائنہ اور کسی بھی بیماری کی صُورت میں اس کا علاج لازماً کروائیں۔ اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں کہ اگر ماں بیمار اور لاغر ہو گی، تو اس کے اثرات بچّے پر بھی مرتّب ہوں گے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطورپروفیسر وابستہ ہیں۔نیز، سوبھراج میٹرینٹی اسپتال گائنی، کراچی کی سربراہ ہیں، جب کہ ڈاکٹرز لاؤنج، گلستانِ جوہر، میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اسپتال، صفورا گوٹھ کراچی میں بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دے رہی ہیں)