• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکبر الہٰ آبادی نے کہا تھا

ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کوپڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

قابلِ ضبطی کتابیں ہردور میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں تو ’’قابلِ ضبطی‘‘ کتابوں کی باقاعدہ فہرست جاری کی گئی تھی۔ یہ کام زمانہ ِ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ جب انگریز یہاں آئے تو بے شک انہوں نے کتاب کو بہت رواج دیامگر ان کے نزدیک بھی کچھ کتابیں قابلِ ضبطی قرار پائیں۔

چنددن قبل کچھ دوستوں کے ساتھ فقیر خانہ میوزیم کا وزٹ کرنے گیا۔ وہاں فقیر سیف الدین سے ملاقات ہوئی۔ بہت سی خوبصورت باتوں کے درمیان ایک بات میرے لئے حیران کن بھی تھی۔ راجہ رنجیت سنگھ کے متعلق یہ تو مجھے معلوم تھا کہ وہ ان پڑھ ہونے کے باوجودایک علم دوست شخص تھا۔ اپنے ارد گرد عالم فاضل لوگ جمع رکھتا تھا۔ اس کے دور میں پنجاب میں فارسی زبان ہی سرکاری زبان تھی۔ سکھوں کے دبائو کے باوجود اس نے گور مکھی رسم الخط کو رائج نہیں کیا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ 1849 میں ڈاکٹر لوگن کی رپورٹ کے مطابق پورےپنجاب میں شرح خواندگی 78فیصد جبکہ لاہور میں87فیصد تھی اوریہ رپورٹ ہمارے آرکائیوز میں موجود ہے۔ راجہ رنجیت سنگھ نے یہ کام کچھ ایسے کیا کہ ایک قاعدہ بنوایا جسے قاعدہ ِ نور کہتے تھے۔ یہ قاعدہ ہر شہر ہر گائوں میں بھجوا دیا گیا اور ہر قاعدہ پڑھنے والےکو پابند کیا گیا کہ وہ چار اور آدمیوں کو یہ قاعدہ پڑھائے۔ یوں یہ قاعدہ ضرب کھاتا چلا گیا۔ قاعدہ پڑھنے والوں کا امتحان یہ تھا کہ انہوں نے راجہ رنجیت سنگھ کو اپنے ہاتھ سے ایک چٹھی لکھنا ہوتی تھی۔ انگریزوں نے اگرچہ یونیورسٹیاں اور کالج بنوائے، وہ پنجاب میں شرح ِ خواندگی 87سے نوےفیصد پر لے آئے۔ بہر حال انہیں صدیوں تک حکومت کرنے کا ہنرآتا تھا۔ انگریزی زبان و ثقافت اب بھی ہمارے یہاں اصل حکمراں ہے۔

کتابیں جلانے کی روایت بہت قدیم ہے۔ 213قبل مسیح میں چین میں کن خاندان کے پہلے شہنشاہ کن شی ہوانگ نے کتابوں کو جلانے اور علماء کو دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔ رومی شہنشاہ قسطنطین دی گریٹ نے غیر متعصب آریائی باشندوں کی تمام کتابوں کو آگ لگوا دی تھی۔ اسپین میں جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو عیسائیوں نے مسلمانوں کےقائم کردہ تمام کتب خانے جلا دئیے تھے۔ صلیبی جنگوں میں بھی مصر، شام، اسپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو جلا یاگیا ۔ہلاکو خان نے جب بغداد فتح کیا تووہاں کے تمام کتب خانےدریائے دجلہ میں غرقاب کر دیئے۔ تاریخ یہی کہتی ہے کہ سینکڑوں کتب خانے راکھ کر دئیے گئے۔ کئی مسلمان بادشاہوں نے بھی اپنے عقائد کے خلاف لکھی گئی کتابوں کو جلانے کا حکم دیا۔ عیسائیوں نے یہودیوں کے بے شمار مخطوطات جلا ئے۔کتابوں میں موجود سچائیوں کی وحشت خیزی جہاں جہاں ناقابل برداشت ہوئی وہیں انہیں آگ لگا دی گئی۔

سچ نکلتا ہی نہیں لفظ کے گھر سے ورنہ

چوک میں لوگ کتابوں کو جلانے لگ جائیں

دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اورجاپان میں شائع شدہ ان تمام کتابوں پر پابندی عائد کردی گئی جو اتحادی افواج کے خلاف لکھی گئی تھیں۔ اس وقت بھی دنیا میں سینکڑوں ایسی کتابیں ہیں جن کی اشاعت پر پابند ی ہے۔ انڈیا جیسے سیکولر ملک میں بےشمار کتابیں بین ہیں ۔پاکستان میں تو خیر ان کی تعداد شمار وقطار سے باہر ہے۔ ترکی میں 165سال کی ممانعت کے بعد، کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے لکھے ہوئے ’’دی کمیونسٹ منشور‘‘ کے خلاف ویٹو لایا گیا۔ 1926سے 1956 تک سوویت یونین میں ’’بائبل‘‘ بین رہی۔ جرمنی میں نازی دور میں ’’دی کال آف دی ورلڈ ‘‘ پر پابندی رہی۔ بھارت میں تاریخ کی کئی کتابوں پر پابندی ہے۔

کتابیں دراصل حکام کی اجارہ داری کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں اس لئے ممنوع قرار دی جاتی ہیں۔ 1982 میں امریکہ میں ایک تقریب کا آغاز ہوا، اس کا نام تھا ’’مطالعہ کی آزادی کا جشن‘‘ یہ جشن وہاں اس سال ستمبر میں بھی ہوا۔ میں نے بھی ایک ایسی تقریب کا اہتمام مجلس ترقی ادب لاہور کےادبی چائے خانہ میں کیا۔ اس کا نام رکھا ’’ممنوعہ کتابوں کی بہار‘‘۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ اب پاکستان میں بھی جاری و ساری رہے گا۔ اس تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے اسد رحمٰن نے کہا۔’’کتاب زندہ رہتی ہے، اسے مارنے کی کوشش کرنے والا ضرور مر جاتا ہے‘‘۔ تہذیب حافی نے کہا۔’’حکام یہ نہیں جانتے کہ وہ جس کتاب پر پابندی عائد کر رہے ہیں لوگوں کو اسے ضرور پڑھنا ہے‘‘۔ شفیق احمد خان نے فرمایا کہ ’’جب کتابیں جلائی جاتی ہیں تو ان میں موجود علم لوگوں کے دلوں میں سرایت کر جاتا ہے‘‘۔ راول حسین کے بقول ’’حرف کی طاقت سے بندوقوں والے ہر دور میں خوفزدہ رہے ‘‘۔خالد ندیم شانی نے کہا۔ ’’غلط کتابوں کو حکو متیں نہیں لوگ مسترد کیا کرتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صغراصدف نے فرمایا۔ ’’کتاب روشنی ہے خوشبو ہے اورسورج کی کرنوں کو کون نظر بند کرسکتا ہے۔ خوشبو کیسے فصیلوں میں قید ہو سکتی ہے‘‘۔

تازہ ترین