• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

ایک ٹی وی پروگرام میں معروف سیاست دان، شیخ رشید بڑ ے فخرسے فرما رہے تھے کہ’’میں اپنے تعلیمی دَور میں گورڈن کالج، راول پنڈی کا دادا ہوا کرتا تھا۔‘‘ اُن کی بات سُن کر مَیں اپنی جوانی کے دَور میں پہنچ گیااور اُس وقت کے اسکولز، کالجز اور محلّوں میں ہونے والے داداگیری کے مختلف واقعات اور مناظر آنکھوں کے سامنے آگئے۔ ویسے میں ایک استاد ہونے کی حیثیت سے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کالجزاور محلّے کے یہ دادا لوگ انتہائی بزدل اور موقع پرست ہوتے ہیں، جو چند بزدلوں، نکمّوں کا ایک ٹولہ بنا کر شریف اور کم زور افراد کو اپنے جھوٹے رعب سے دہشت زدہ کرتے ہیں۔

اس ضمن میں اپنے دورِ طالب علمی کے چندواقعات گوش گزار کررہا ہوں۔60،70ء کی دہائی میں محلّوں، تعلیمی اداروں اور بازاروں میں دادا گیری عام تھی۔ 1963ء کی بات ہے، جب مَیں پاکستان نیول ڈاکیارڈ،کراچی میں اپرنٹس شپ کررہا تھا، الیکٹرک ورک شاپ میں میرے بیچ کا ایک لڑکا، راشد لنچ کے وقت اپنے دوستوں سے ملنے MED شاپ جایا کرتا تھا، جب کہ مَیں MCD پلیٹر شاپ پر ہوتا تھا۔ MED ورک شاپ میں ریاض نامی ایک شخص بھی ملازم تھا، جسے سب پہلوان کے نام سے پُکارتے تھے۔ بھاری اور کسرتی جسم کی وجہ سے پکّا غنڈہ لگتا تھا، وہ اپنے اس ڈیل ڈول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں کے اپرنٹس لڑکوں کو بلاوجہ پریشان کرتااور اپنے حصّے کا کام بھی اُن ہی سے کرواتا۔ پھر دھونس دھمکی سے وقت بے وقت چائے پانی اور خرچہ پانی کے نام پر بھتّہ بھی وصول کرتا۔ 

خود کو ’’کھارادر باڈی بلڈنگ کلب‘‘ کا رُکن بتا کر رعب جماتا تھا۔ اُس دَور میں کھارادَر کے باڈی بلڈنگ کلب کی غنڈہ گردی بہت عروج پر تھی، جس سے علاقے کے سب ہی لوگ تنگ تھے۔ بہرحال، ایک دن لنچ بریک میں راشد میرے پاس آیا، ہم نے اپنے دیگر اپرنٹس ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے لنچ کیا۔ لنچ کے بعد گپ شپ کے دوران راشد نے ریاض پہلوان کی چیرہ دستی بیان کرتے ہوئے کہا کہ کل شام ریاض پہلوان نے اُس کے ساتھ بلاوجہ انتہائی تضحیک آمیز سلوک اور بدتمیزی کی۔ 

اس کے بعد کئی اور لڑکوں نے بھی اُس کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے بہت سے واقعات سُنائے، تو میں نے وہاں موجود لڑکوں سے کہا کہ ’’ریاض پہلوان سے نمٹنے کا یہ اچھا موقع ہے، تم لوگ تھوڑی ہمّت کرو، بھاگنا نہیں، باقی میں سنبھال لوں گا۔‘‘ سب نے آمادگی ظاہر کردی، تو ہم وہاں سے اٹھ کر اُسی وقت ریاض پہلوان کے پاس جاپہنچے اور بلاتمہید راشد کو پریشان کرنے کی وجہ دریافت کی۔ ہمیں دیکھ کر اُس کی آنکھیں حیرت سے اُبل پڑیں۔ ہماری طرف دیکھتے ہوئے انتہائی نخوت سے بولا ’’تم جانتے نہیں، مَیں کھارادر کا دادا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ جیسے ہی حملے کی نیّت سے میری طرف بڑھا، مَیں نے قریب پڑا ایک اسٹیل کا پائپ اٹھالیا اور اُس کی طرف لہراتے ہوئے زور زور سے چیخنا شروع کردیا۔ 

پھر اس چیخ و پکار میں میرے دیگر ساتھی بھی شامل ہوگئے اور شور شرابے کی آواز سُن کر باقی ورکرز بھی جمع ہوگئے، تو مجھے مزید حوصلہ ملا۔ میں نے ریاض پہلوان سے کہا ’’آج تیری دادا گیری کا آخری دن ہے۔‘‘ ساتھی اپرنٹسز نے بھی چڑھائی کردی اور کہا کہ ’’آج تجھے اور تیرے کھارادر کلب کو دیکھتے ہیں۔‘‘ ورک شاپ میں کوئی سو ڈیڑھ سو افراد کام کرتے تھے، اُن میں سے بہت سے ملازمین وہاں اکٹھے ہوگئے۔

اسی اثناء فورمین، مسٹر سائمن بھی دوڑ کر آگئے۔ ورکرز نے بڑی مشکل سے ریاض کی جان چھڑوائی۔ نیوی کا مسئلہ تھا، افسران کو پتا چلتا تو ریاض کی نوکری جاتی اور محکمانہ کارروائی الگ ہوتی۔ اپرنٹسز کو تو صرف ڈانٹ ڈپٹ ہی کی جاتی۔ بہرحال، اس واقعے کے بعد پھر ریاض کی بدمعاشی نہ چل سکی۔ اُس کی ایسی اکڑ نکلی کہ اس نے آئندہ بدمعاشی سے توبہ کرلی، ساری داداگیری ہوا ہوگئی۔

دوسرا واقعہ برنس روڈ، کراچی کا ہے۔ ایک اسٹوڈنٹ لیڈر، شہنشاہ حسین، جو پہلے ڈی جے سائنس کالج میں طلبہ پر اپنی داداگیری کی دھاک جماتا تھا، پھر این ای ڈی انجینئرنگ کالج، میں سول انجینئرنگ کا طالب علم ہوا، تو اکثر ایک ٹولے کی شکل میں جامع کلاتھ مارکیٹ، کراچی کے علاقے میں دھما چوکڑی مچاتا اور غنڈہ گردی کرتا۔ اُسے خود کو ’’اسٹوڈنٹ لیڈر‘‘ کہلوانا بہت پسند تھا۔ شومئی قسمت، ایک دن وہ دس بارہ لڑکوں کے ساتھ گروپ کی شکل میں لانڈھی نمبر89کے بس اسٹاپ آیا اور ہماری بس میں سوار ہوگیا۔ مَیں اور میرا کزن، جلیل (مرحوم) اپنی سیٹوں پر اطمینان سے بیٹھے تھے۔ 

بس میں دو تین سیٹیں خالی تھیں۔ شہنشاہ حسین کا گروپ دس بارہ لڑکوں پر مشتمل تھا۔ انھوں نے بس میں سوار ہوتے ہی میرے کزن جلیل سےکہا ’’سیٹ چھوڑو، ہم بیٹھیں گے۔‘‘ جلیل تو اُن کے جارحانہ لہجے کی تاب نہ لاکرفوراً ہی اُٹھ کھڑا ہوا، مگر مَیں نے انکار کردیا، تو شہنشاہ حسین نے میری طرف شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنا تعارف کروایا کہ ’’مَیں این ای ڈی کادادا ہوں۔‘‘ مَیں نے بھی اُسی کے انداز میں بڑی بے پروائی سے جواب دیا ’’تو مَیں کیا کروں۔‘‘ میرے غیر متوقع جواب پر اس نے آنکھیں نکالیں اور مجھ پر حملہ آور ہوگیا۔ اُس زمانے میں لانڈھی کے باشندوں کا ایک کلچر تھا، اور شاید اب بھی ہو کہ جب کوئی باہر والا کسی کو پریشان کرتایا اُس کے ساتھ ناجائز سلوک کرتا ہے، تو وہ مظلوم کے حمایتی بن جاتے۔ 

شہنشاہ کی بدمعاشی دیکھی، تو بس کے مسافر میری حمایت میں بول پڑے اور میرے ساتھ ہوگئے۔ مسافروں کی حمایت سے مجھے حوصلہ ملا اور میں نے اُس کے تابڑ توڑ حملوں سے خود کو بچاکرپہلے تو اُسے قابو کیااور پھر گھسیٹ کر لیڈیز کمپارٹمنٹ میں لے گیا۔ وہاں اس پر جوابی وار کیے اور اچھی طرح دُھنائی کی۔ خواتین نے بھی میرا بھرپور ساتھ دیا۔ شہنشاہ حسین کی دُرگت بنتے دیکھ کر اُس کے ساتھیوں نے راہِ فرار ہی میں عافیت جانی۔ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ بہرحال، اس واقعے کے بعد مَیں نے اور میرے کزن نے چند روز کے لیے بس اسٹاپ تبدیل کرلیا۔ 

ہمیں کچھ لوگوں سے پتا چلا کہ وہ کئی روز تک مذکورہ بس اسٹاپ پراپنے ٹولے کے ساتھ آتا رہا، مگر مایوس لوٹتا۔ جب کہ روزانہ سفر کرنے والے لڑکے اور دیگر افراد، خصوصاً خواتین اُس ’’شہنشاہ ٹولے‘‘ کو دیکھ کر ہنستے اور تمسخر اُڑاتے رہے کہ ’’لانڈھی والا اب تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘ پھر این ای ڈی اورڈی جے کالج میں بھی اُس کی دُھلائی کی اطلاع پہنچی، تو اس کی بڑی سبکی ہوئی۔ قصّہ مختصر، اس واقعے کے بعد شہنشاہ کی ’’دادا گیری‘‘ بھی ختم ہوگئی۔

دادا گیری کے ضمن میں ایک ’’پھل فروش دادا‘‘ بھی میرے ذہن کے نہاں خانوں میں آج تک زندہ ہے۔خلیل دادا، کورنگی نمبر 6کی مارکیٹ میں پھل فروخت کرتا تھا۔ وہ اپنے وقت کے ایک بڑے بدمعاش اصغر لنگڑے کا آلۂ کار تھااور آوارہ لڑکوں پر مشتمل اس کا اپنا بھی ایک گروپ تھا۔ اس کے کچھ چیلے قریبی گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ بدمعاشوں کا یہ گروپ صبح آفسز اور اسکولز کے اوقات میں دھماچوکڑی کرتا، لوگوں پر فقرے کستا، خواتین اور طالبات سے چھیڑ خانی کرتا۔ ان کی فقرے بازی، بے ہودگی اور بدمعاشی سےعوام لوگوں کے علاوہ مارکیٹ کے تاجربھی بڑے تنگ تھے۔ پولیس والے بھی اُنھیں کچھ نہیں کہتے تھے۔ 

ایک دن ایک صاحب نے ان نکمّے لڑکوں کو منع کرنے کی کوشش کی، جس پر آوارہ لڑکوں کا گروپ اُس شریف آدمی سے الجھ پڑا اور مار پٹائی شروع کردی۔ مَیں بھی صدر جانے کے لیے محلّے کے کچھ دوستوں کے ساتھ وہاں کھڑا تھا، ایک شریف آدمی کے ساتھ لچے لفنگوں کا یہ برتائو دیکھا، تو رہا نہ گیا۔ بغیر سوچے سمجھے اُن بدمعاشوں پر پل پڑا اور اللہ کے کرم سے پورے آوارہ ٹولے کو ماربھگایا۔ دوسرے دن خلیل دادا اپنے چیلوں کے ساتھ آیا اور مجھے شناخت کر کے کہا ’’تم مجھے جانتے نہیں۔ کیسے مارا تم نے میرے ساتھیوں کو؟‘‘ اس کا بدتمیزی سے بھرپور جارحانہ لہجہ دیکھ کر میرا دماغ ایک دم گُھوم گیا۔ 

قبل اس کے کہ وہ مجھ پر حملہ کرتا، مَیں نے پوری قوّت سے اُسے ایک تھپڑ جڑدیا۔ تھپڑ لگتے ہی وہ مجھ سے گتھم گتھا ہوگیا۔ میں نے بڑی مشکلوں سے اُسے دھکا دے کر ہٹایا اور بس بے دریغ دُھنائی شروع کر دی۔ اسٹاپ پر موجود افرادخلیل دادا کی چیرہ دستیوں سے واقف تھے۔ سو، وہ بیچ بچائو کے بہانے اس کے ساتھیوں کو پکڑ کر کھڑے ہوگئے، تو معاملہ ون ٹو ون ہوگیا۔ بہرحال، اُس وقت تک میں اس کا دماغ کافی حد تک درست کرچکا تھا۔ 

اتنے میں پولیس بھی آگئی۔ اُس نے بیچ بچائو کروایا اور خلیل دادا کو اچھی طرح ڈانٹ کر آئندہ اسٹاپ پر آنے سے منع کردیا اور مجھے ایک طرف لے جاکر کہا کہ ’’ان لوگوں کے منہ نہ لگو، یہ آئندہ اسٹاپ پر نظر نہیں آئیں گے۔‘‘ بعد میں علاقے کے کچھ بااثر افراد نے بھی اس گروپ کو وارننگ دی، مارکیٹ والوں نے بھی اس کی دادا گیری کو چیلنج کردیا۔ نتیجتاً ایک اور بزدل دادا گیر اپنے انجام کو پہنچا۔ (رانا توفیق احمد خان، کراچی)