• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کے روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ یوم دفاع اور یوم شہداء کی تقریب میں جو باتیں کہیں، وہ اس نوع کی تقاریب میں کی جانے والی گفتگو سے قدرے مختلف، مگر فکر انگیز ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے شہدا اور ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس تقریب کا انعقاد روایتی طور پر ہر سال 6ستمبر کو ہوتا ہے مگر اس برس تاریخ کے بدترین سیلاب کے باعث بروقت نہیں ہو سکا۔ پاکستانی افواج دفاع وطن کے لئے ہر لمحہ مستعد رہنے کے ساتھ قدرتی آفات سمیت ہر نوع کی ہنگامی صورت حال میں سول انتظامیہ کی مدد کے لئے پیش پیش رہی ہیں۔ اس دفعہ بھی ریسکیو، ریلیف اور بحالی کے آپریشن میں فوج کا کردار نمایاں ہے اس لئے مذکورہ تقریب 23نومبر کو منعقد ہوئی۔ چونکہ جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی کی مدت اسی ہفتے ختم ہونےوالی ہے اس اعتبار سے ان کے مذکورہ خطاب کو الوداعی خطاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ جنرل باجوہ کی اس گفتگو میںجہاں پچھلی سات دہائیوں کے دوران فوج کی سیاست میں غیر آئینی مداخلت کے اعتراف کے ساتھ پچھلے سال فروری سے اس باب میں اجتناب اور اصلاح کا عمل شروع کرنے کا ذکر کیا گیا وہاں سیاسی پارٹیوں سے بھی اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کریں گی۔ تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان میں ہر ادارے ،سیاسی پارٹی یہاں تک کہ سول سوسائٹی سے غلطیاں ہوئی ہیں ان غلطیوں سے سبق سیکھنا اور آگے بڑھنا چاہئے۔ ملک کے منظم ترین ادارے کی حیثیت سے فوج کےپالیسی فیصلوں کو تانظرثانی جاری و ساری رکھا جاتا ہے اس لئے اس بات کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے کہ فوج پچھلے برس فروری سے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ پاک فوج میں سیاسی عدم مداخلت کی سوچ ایسی پیش رفت ہے جو مسلسل جاری رہی تو یقینی طور پر ملکی حالات بالخصوص سیاست پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ مختلف حلقے فوجی حمایت پر تکیہ کرنے کی کیفیت سے باہر آکر اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں گے تو ایسے تبصروں کی گنجائش نہیں رہے گی جو کبھی کسی کے نیوٹرل ہونے پر کی جاتی ہے اور کبھی ایسی شکایات کی صورت میں سامنے آتے ہیں جو رونما ہونے والے کسی واقعہ کے ’’روکے نہ جانے ‘‘کے حوالے سے کی جاتی ہیں۔ ایک انتخاب میں کامیاب ہونے والی پارٹی کو آر ٹی ایس بیٹھنے کے بہانے کے ساتھ ’’سلیکٹڈ‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد برسر اقتدار آنے والوں کو’’ امپورٹڈ‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے تو اس کا سبب بھی جانبداری یا ایک پیج پر ہونے کا وہ تاثر ہے جو عشروں کے حالات کے دوران قائم ہوا اور جس کے باعث ہارنے والی پارٹیاں انتخابی نتائج کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتی چلی آ رہی ہیں۔ فوجی ہائی کمان کی طرف سے اپنے احتساب کی بڑی کوشش کے حوالے سے جیسا فیصلہ سامنے آیا ہے ویسا ہی سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی سامنے آنا چاہئے مگر یہ کام کون کریگا؟ کیا سیاست داں از خود ایک فوری فیصلہ کرلیں گے یا انہیں ملکی بقا اور جمہوریت کے مفاد میں ایک فیصلے کی طرف لانے کا کام صاحبان فکر ،دانشوروں یاکسی اورکو کرنا ہو گا۔ کسی نہ کسی کو ایسی پہل کاری ضرور کرنی ہوگی جس کے ذریعے تمام پارٹیاں ایک ’’میثاق جمہوریت‘‘ اورایک ’’میثاق معیشت ‘‘پر متفق ہو سکیں۔ آرمی چیف نے درست نشان دہی کی کہ پاکستان آج جس سنگین معاشی بحران سے دو چار ہے کوئی ایک پارٹی اس سے نہیں نکال سکتی۔ ہم جمہوریت کے گن گاتے ہیں تو جمہوریت کی ماں کہلانے والے ملک برطانیہ کی مثال ہمیں سامنے رکھنا ہو گی جہاں چند برسوں میں کئی حکومتیں بدل گئیں مگر کوئی بھونچال نہیں آیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا رہا۔ ہمیں بیانات میں شائستگی اختیار کرنا ہوگی خواہ وہ فوج کے حوالے سے ہوں، تخاطب دوسری سیاسی پارٹیوں سے ہو یا موضوع سخن کوئی دوسرا ملک ہو۔ وقت آگیا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھیں، تمام ادارے اور حلقے آئین کے دائرہ میں رہ کر کام کریں اور ملکی مفاد کو مقدم رکھیں۔

تازہ ترین