پاکستان پیپلز پارٹی 30 نومبر کو 56 واں یوم تاسیس منارہی ہے ۔ اس طرح پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے 55 سال مکمل کر لئے ہیں ۔ یہ تیسری دنیا کی ان سیاسی جماعتوں میں شامل ہے ، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کے عہد میں اس وقت قائم اور مقبول ہوئیں ، جب دنیا میں قومی آزادی اور جمہوریت کی تحریکیں عروج پر تھیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ ابھرنے والی تیسری دنیا کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں ختم یا غیر موثر ہو چکی ہیں ۔ لیکن پیپلز پارٹی آج بھی پہلے کی طرح نہ صرف پاکستانی سیاست میں Relevant ہے بلکہ عوام میں مقبول بھی ہے۔ ان ساڑھے پانچ عشروں کے سیاسی سفر میں پیپلز پارٹی انسانی تاریخ کے چار عہد یا زمانوں سے گزر کر آئی ۔ ان میں سرد جنگ کا عہد ، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یونی پولر ورلڈ یعنی یک قطبی دنیا کا عہد ، نیو ورلڈ آرڈر کا عہد اور نیو ورلڈ آرڈر کے بعد دنیا میں نئی صف بندیاں کرتا ہوا موجودہ عہد شامل ہے ۔ ان 55 برسوں میں پیپلز پارٹی نے چار فوجی آمروں جنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان ، جنرل ضیاء الحق او ر جنرل پرویز مشرف کی مطلق العنان حکومتوں اور آمرانہ قوتوں کی پروردہ سیاسی جماعتوں کا بھی مقابلہ کیا ۔ اس عرصے میں پیپلز پارٹی نے اپنے دو قائدین ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے عظیم سانحات کو بھی برداشت کیا اور اپنے رہنمائوں اور کارکنوں کی پھانسیوں ، کوڑوں اور قید و بند کی صعوبتوں کے دکھ بھی جھیلے ۔ یہ سارے عوامل کسی ترقی پسند روشن خیال اور سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے وجود کو ختم کرنے کے لیے کافی تھے ۔ عہد کی تبدیلیوں میں نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ ان کے نظریات بھی غیر متعلق ہو گئے ۔ پاکستان کی آمرانہ قوتوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی طاقتوں نے بھی پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ شہید بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کا قتل بھی پارٹی کو ختم یا غیر موثر بنانے کے لیے کیا گیا اور اہم بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان سیاست کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک رہا ہے کیونکہ پاکستان عالمی طاقتوں کے مفادات کے کھیل میں سب سے زیادہ الجھا رہا ہے اور ایک سکیورٹی اسٹیٹ بن کر رہ گیا ہے ۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی نے اپنا وجود برقرار رکھا ۔30 نومبر 1967ء کو پیپلز پارٹی نے پاکستان کو ایک جمہوری ، خود مختار ، خوشحال اور حقیقی قومی ریاست بنانے کے لیے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا ، اس جدوجہد کو مکمل فتح یابی کی منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری آج بھی صرف پیپلز پارٹی کے کندھوں پر ہی ہے ۔ پیپلز پارٹی تیسری دنیا کی سیاست کا ایک تاریخی معجزہ ہے ۔ان مشکل حالات میں پیپلز پارٹی نے ساڑھے پانچ عشروں میں اپنے وجود اور اپنی افادیت کو کیسے برقرار رکھا ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں پیپلز پارٹی کی قیادت کے ویژن کا ادراک کرنا ہو گا ۔ 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر ذوالفقار علی بھٹو کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کا جب تاسیسی اجلاس منعقد ہوا تو اس میں پاکستان کے بائیں بازو کی بلند قامت شخصیات شریک تھیں ، جنہوں نے بھٹو شہید کو اپنا لیڈر چنا ۔ پارٹی کے قیام سے قبل بھٹو شہید کو نہ صرف پاکستان کے ترقی پسند حلقے بلکہ تیسری دنیا کے عوام ایک عالمی لیڈر کے طور پر تسلیم کر چکے تھے ۔ بھٹو شہید کی آزاد خارجہ پالیسی کی فکرکا جب جنرل ایوب خان اور ان کے سرپرست عالمی طاقتوں کو احساس ہوا تو بھٹو شہید کو کابینہ سے برطرف کر دیا گیا ۔ اس کے بعد بھٹو شہید نے عوام سے رجوع کیا ۔ عوام نے ان کی بھرپور پذیرائی کی ۔ اس طرح بھٹو شہید کی مقبولیت اچانک نہیں تھی ۔ اس پس منظر کے ساتھ پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا ۔ پارٹی کی تشکیل سے قبل بھٹو شہید نے ایوبی آمریت کے خلاف جس تحریک کا آغاز کیا ، پارٹی کے قیام کے بعد اس تحریک کو زیادہ منظم کرکے اس کی قیادت کی۔ اس جمہوری تحریک کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی جڑیں عوام میں زیادہ گہری ہو گئیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو شہید نے پاکستان کو سانحہ سقوط ڈھاکا کے صدمے سے نکالا ، پاکستان کو پہلا وفاقی پارلیمانی جمہوری دستور دیا ، دفاعی اور دیگر ریاستی اداروں کی ازسر نو تنظیم کی ۔ محنت کش طبقات ، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی کی ۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ملکوں کو عالمی سامراجی شکنجوں سے نجات دلانے کے لیے غیر وابستہ تحریک کی قیادت کی اور علاقائی بلاکس کی تشکیل کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا ۔ پاکستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کی تشکیل کی ۔ پاکستان کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار دیا اور ملک میں جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کا آغاز کیا ۔ یہ عظیم کارنامے بھٹو شہید اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بنے ۔ بھٹو شہید کا جب عدالتی قتل ہوا تو سرد جنگ کا عہد اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ دنیا میں اشتراکی ، جمہوری اور خود مختاری کی تحریکیں کمزور ہو گئی تھیں ۔ ضیا الحق نے ایک بار پھر امریکا اور اس کی حواری سامراجی طاقتوں کی افغان جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا تھا ۔ بیگم نصرت بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب پارٹی قیادت سنبھالی تو نہ صرف پاکستان بلکہ تیسری دنیا کی جمہوری اور قوم پرست قوتوں کے لیے سیاست کا تاریخ میں بدترین دور شروع ہو چکا تھا ۔ پاکستان سیاست کے لیے مزید خطرناک ہو گیا ۔ یہ تاریخ انسانی کا سب سے بدترین دور تھا ، جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے پارٹی کی قیادت کی ۔ اسی دور میں سرد جنگ کے عہد کا خاتمہ ہوا ، سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا ، امریکا اور اس کے حواریوں کی بالادستی والا یونی پولر (یک قطبی ) نظام نافذ ہوا ۔ اسی دور میں نئے امریکی عالمی ضابطے کے نفاذ کے لیے پہلے پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت قائم کی گئی ۔ پھر نائن الیون کا واقعہ ہوا اور پاکستان کو پھر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں جھونک دیا گیا ۔ سیاست کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت سے زیادہ غیر ریاستی دہشت گرد عناصر کو استعمال کیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آمرانہ قوتوں نے اپنی پروردہ سیاسی جماعتیں قائم کیں ۔ سیاست کے لیے تاریخ انسانی کے اس بدترین دور میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے جمہوری تحریکیں چلا کر اور بے پناہ سختیاں جھیل کر پارٹی کو زندہ رکھا ۔ اقتدار میں آکر پاکستان کو واپس اسی راستے پر ڈالنے کی کوشش کی ، جس پر بھٹو شہید نے ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوںنے پارٹی کے ساتھ ساتھ جمہوری جدوجہد کو زندہ رکھا اور آخر کار پاکستان کی آمرانہ قوتوں اور ان کی سرپرست عالمی طاقتوں نے انہیں شہید کروا دیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد آصف علی زرداری اور بعد ازاں بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کوپاکستان اور اس کے عوام کے حقیقی ایشوز کے ساتھ جوڑ کر اس کی بقا کے حالات پیدا کئے ۔ اسی دوران نیو ورلڈ آرڈر کے بطن سے ایک نیا عہد جنم لینے لگا ، جس میں عالمی اور علاقائی صف بندیاں ہونے لگیں۔ سیاست کے لیے گنجائش پیدا ہونے لگی ۔ آصف علی زرداری نے اقتدار میں آکر 18 ویں آئینی ترمیم منظور کرائی اور پاکستان میں ایک بار پھروفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کو طاقت ور بنانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ بلاول بھٹو زرداری اب پارٹی کے اساسی پروگرام کے مطابق پاکستان کو ایک خود مختار ، جمہوری اور خوش حال ملک بنانے او رپاکستانی معاشرے کو ایک منصفانہ اور کثرتیت والا معاشرہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ اس طرح کی پارٹی سے بھلا عوام کو کیسے جدا کیا جا سکتا ہے ؟