ملک میں ان دنوں گیس کابحران ہے،عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی ہے، لیکن دونوں طرف کے سیاسی جغادری ان حالات میں بھی الفاظ کی چاند ماری سے باز نہیں آرہے۔ جن کی نااہلی کی وجہ سے یہ بحران آیا وہ اس بارے میں سوال کرنے والوں سے خفا ہورہے ہیں اور جو اس ناہلی کو بھگت رہے ہیں (یعنی عوام)وہ ذرایع ابلاغ کے ذریعے اپنی خفگی کا بر ملا اظہار کررہے ہیں۔لوگ یہ سب تماشا دیکھ رہے ہیں اور یہ بُھگتان بُھگتنے کے لیے متبادل کا انتظام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔
پیٹرول کے نرخ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے تو بہت سوں نے موٹر کار کا استعمال ترک کرکے موٹر سائیکل کی نشست سنبھال لی اورجس کے لیے موٹر سائیکل کا مزید استعمال استطاعت سے باہر ہوگیااس نے مسافر بس کے ذریعے کام چلانا شروع کردیا اور جس کے لیے ممکن ہے اس نے بائیسکل کی سواری شروع کردی۔ مٹّی کے تیل ،گیس اور بجلی کے نرخ آسمان پر پہنچے تو بعضوں نے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچانے کے لیے لکڑی اور کوئلے کا استعمال شروع کر دیا اور بعضوں نے ایل پی جی سلنڈرسے مدد لینا شروع کی ، لیکن ستیاناس ہو عالمی منڈی کے ساہُوکاروں اور ملک میں موجود ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کاکہ لکڑی، کوئلے اور ایل پی جی کے نرخ بھی عام آدمی کی سانس اکھاڑنے لگے۔ ان حالات میں لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا ہم ترقّیِ معکوس کررہے ہیں اور کیا ہمیں اب جنگلوں اور غاروں کی جانب رخ کرنا ہوگا ؟
ملک میں کئی برسوں سے گھریلو اور تجارتی صارفین کو موسم سرما میں گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی میں کمی کر دی جاتی ہے تو دوسری جانب صنعت و تجارت کو گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی کے ساتھ قومی معیشت اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گیس پر بڑی حد تک انحصار کرتی ہے جن میں گیس سے بجلی بنانے والے کارخانے، صنعتوں میں پیداواری عمل کے لیے گیس کی کھپت سے لے کر گاڑیوں میں بہ طور ایندھن استعمال کرنے کے لیے سی این جی ا سٹیشنز پر گیس کی فراہمی شامل ہے۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ گیس کی کھپت میں بھی اضافہ ہو جاتاہے جس میں زیادہ اضافہ ملک کے شمالی حصے میں گیس سے چلنے والے ہیٹرز اور گیزر کی وجہ سے ہوتاہے جو گھریلو صارفین کی جانب سے گیس استعمال کرنے کی شرح بڑھا دیتے ہیں۔
گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جہاں مقامی طور پر گیس کی پیداوار ہوتی ہے وہیں درآمدی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جاتی ہے کیوں کہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور ملکی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔دوسری جانب درآمدی گیس تنازع کا شکار رہی ہے اور بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گیس کے ضمن میں بد عنوانی اور بدانتظامی کے الزامات بھی تسلسل سے سُننے میں آتے ہیں۔
توانائی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق جوں جوں موسمِ سرما میں شدّت آئے گی یہ بحران بڑھتا جائے گا۔ ان کے مطابق اس بحران کی وجہ اگر کئی برسوں میں اس شعبے میں منظر عام پر آنے والے تنازعات ہیں تو اس کے ساتھ فوری نوعیت کے فیصلوں میں تاخیر نے بھی اس بحران کو شدیدتر بنایا ہے۔
ملک بھر کی طرح پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں بھی گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ شہر کے متعدد علاقوں میں گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے خلاف عوام میں عصّہ پایا جاتا ہے۔ ایک طرف جہاں لوگ گھر کا چولہا جلانے کے لیے گیس کے متبادل ذرایع ڈھونڈرہے ہیں، وہیں سوئی سدرن گیس کمپنی نے اپنی ذیلی ویب سائٹ کے ذریعے گھریلو صارفین کو ایل پی جی سلنڈرز فروخت کرنے شروع کردیے ہیں۔ لوگ چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں اور اُپلے جلانے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب سوئی سدرن گیس کمپنی اس کا ذمے دار گیس کمپریسرز کو قرار دیتی ہے۔
بہت سے افراد کا موقف ہے کہ وہ گیس کا متبادل ایل پی جی (مایع پیٹرولیم گیس) نہیں خرید سکتے، اس لیے چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔ پھر یہ کہ ایل پی جی سلنڈر بھی منہگا ہوگیا ہے۔ لکڑی کے نرخ بھی بڑھ گئے ہیں۔ لکڑی بیچنے والے وزن بڑھانے کے لیے گیلی لکڑیاں دے دیتے ہیں، جو ایک الگ عذاب ہے۔ گیس کی طویل لوڈشیڈنگ کے بعد لوگ ایل پی جی کے سلنڈر منہگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ بعض علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ گیس، ایل پی جی یا لکڑیاں نہیں خرید سکتے اس لیے گوبر کے اُپلوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بتایا گیا کہ شہر میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد اُپلوں کےاستعمال میں کافی اضافہ ہوا ہےاوران کی قیمت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بحران سے جُڑے خطرات
گیس کا بحران ہمارے لیے کئی اقسام کے خطرات بھی ساتھ لایا ہے۔ ان میں سے ایک خطرہ کسی حادثے کی صورت میں جانی اور مالی نقصانات کا ہے۔ ملک بھر میں کمپریسر اور سکرز بہت بڑی تعداد میں فروخت اور استعمال ہورہے ہیں، غیر معیاری سلنڈرز اور چولہے فروخت کرنے والوں کی بھی چاندی ہوگئی ہے، لیکن متعلقہ حکّام سورہے ہیں۔
کمپریسر یا سکشن پمپ
پاکستان میں سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں گیس کے دباؤ میں کمی کی شکایات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ گھریلو صارفین متاثر ہوتے ہیں۔ گیس کے دباؤ میں کمی کے باعث نہ صرف یہ کہ وقت پر ناشتہ اور کھانا نہیں ملتا بلکہ نہانے کے لیے گرم پانی دست یاب ہوتا ہے اور نہ ہی گھر گرم کرنے کے لیے گیس ہیٹر چلتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے بہت سے صارفین پائپ لائن سے گیس کا زیادہ پریشر حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر کمپریسر لگا لیتے ہیں جو دوسرے گھروں کے حصے کی گیس بھی کھینچ کر ان کے گھر منتقل کر دیتے ہیں۔
حکام کی جانب سے اس اقدام کے خلاف واضح تنبیہ کے باوجود صارفین یہ غیر قانونی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب تک چھاپہ مار کر ان کے گھروں سے یہ کمپریسر اتار نہ لیے جائیں، پورے علاقے میں گیس کا پریشر کم ہی رہتا ہے۔ یہ کمپریسر انتہائی خطرناک بھی ہیں اور بہت سے واقعات میں ان کے پھٹ جانے سے گھر والے شدید زخمی ہوچکے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی جاتے ہیں۔
گیس کمپریسر بجلی سے چلنے والا ایسا آلہ ہے جس کا کام پائپ میں موجود گیس کو اپنی طرف کھینچ کر چولہے، گیزر یا ہیٹر کے برنر تک پہنچانا ہوتا ہے۔سوئی سدرن اورناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے مطابق اوگرا کے قانون کے تحت کمپریسر جیسے غیر محفوظ آلات کے استعمال کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف انسانی زندگیوں کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔ کمپریسر سے گھروں میں گیس بھر جاتی ہے اور نتیجتاً سوتے میں دم گھٹنے، آگ لگنے اور دھماکوں جیسے واقعات ہوتے ہیں۔ گیس کی زیادتی انسانی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے اور کمپریسر کے استعمال سے جانی اور مالی نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر آپ کمپریسر کا استعمال کریں گے تو یہ گیس کو کھینچے گا جس سے بل زیادہ آئے گا جسے ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گیس انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ بھی ہے اور اس کے باعث ہونے والے حادثات مالی اور جائیداد کے نقصانات کا باعث بھی بنتے ہیں۔ محکمہ گیس نے کمپریسر کے استعمال کو روکنے کے لیے گیس کنکشنز منقطع کرنے، بھاری جرمانے عاید کرنے اور مقدمہ دائر کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، اس کے باوجود اس کے استعمال میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا ہورہا ہے۔
حالاں کہ کسی علاقے میں کمپریسرز کے استعمال کا پتا لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جس طرح کے ای کا ٹرانسفارمر ہوتا ہے، گیس کا اسی طرح کا ٹاؤن بارڈر اسٹیشن ہوتا ہے۔ اس کی نگرانی سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ فلاں پائپ لائن میں گیس کا بہاؤ تیز ہوگیا ہے، یعنی گیس کھینچی جا رہی ہے۔ محکمہ کے اہل کار اس سمت جا کر ہر گھر کے میٹرز چیک کرتے ہیں۔ جس گھر میں کمپریسر ہوتا ہے اس کا میٹر بہت تیزی سے چل رہا ہوتا ہے۔ متعلقہ عملہ اس گھر میں جا کر کمپریسر اتارلیتا اور اس کا گیس کنکشن منقطع کر دیتا ہے۔ پھر اس گھر کے سربراہ کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
ایس ایس جی سی کے مطابق کراچی میں گیس کی طلب میں اضافے کے بعد لوگوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر گیس کمپریسریا سکشن پمپس کے استعمال سے کئی علاقوں میں یا تو گیس مکمل طور پر نہیں آتی یا پھر کم پریشر ہوتا ہے۔ کمپر یسر والے گھر میں تو گیس پوری آنے لگتی ہے، مگر اس پائپ لائن کے دیگر کنکشنز کو گیس کی فراہمی نہیں ہو پاتی اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔
اس جادوئی مشین کی ایک ڈیڑھ برس میں مانگ اتنی بڑھ گئی ہے کہ جس کمپریسر کی قیمت پہلے آٹھ سوتا ایک ہزار روپے تھی وہ اب بائیس تا پچیس سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق گیس کمپریسر انتہائی خطرناک آلہ ہے جس سے رات کو گھروں میں گیس بھر جاتی ہے اور اہل خانہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں آگ لگنے اور دھماکوں جیسے واقعات بھی ہوسکتے ہیں۔
گزشتہ برس صرف کراچی میں ایک ماہ میں گیس کمپریسر کے باعث چار دھماکے ہوئے تھے۔ ان دھماکوں کے بعد وہاں سے گیس کمپریسرکے ٹکڑے ملے۔ترجمان ایس ایس جی سی کے مطابق گیس پریشر بڑھانے والے گیس کمپریسر یا سکشن پمپس کا استعمال غیر قانونی اور انتہائی خطرناک ہے اور انہیں استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر گیس تھیفٹ کنٹرول اینڈ ریکوری ایکٹ کے تحت ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکتا ہے اور اور چھ ماہ قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
غیر معیاری سلنڈر
غیر معیاری سلنڈربھی اس بحران میں بم بن کر گھر گھر پہنچ چکے ہیں جو کہیں بھی اور کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایل پی جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین عرفان کھوکھر نے خبردار کیاتھاکہ گوجرانوالا میں سیکڑوں کارخانوں میں مایع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کے غیر معیاری سلنڈر بن رہے ہیں جو گھر گھر پہنچ چکے ہیں اور ان کے پھٹنے کا خدشہ ہے۔عرفان کھوکھر کا کہنا تھا کہ اس وقت 60 فی صد ایل پی جی گاڑیوں میں استعمال ہو رہی ہے۔
مسافر گاڑیوں میں ایل پی جی کے استعمال پرپابندی ہے۔ ایل پی جی دنیا بھر میں استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں حفاظت سے متعلق کوئی کام ہی نہیں کیا گیا۔ چیئرمین ایل پی جی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ڈپٹی کمشنر کو گاڑیوں میں ایل پی جی کے استعمال کی روک تھام کے اختیارات دیے ہیں۔ گوجرانوالا میں 400 سے 600 کارخانوں میں غیر معیاری سلنڈربن رہے ہیں۔ جب تک غیرمعیاری سلنڈر کی روک تھام نہیں ہوگی حادثات ہوتے رہیں گے ، اگر یہی حالات رہے تو ہر روز تین چار سلنڈر پھٹتے رہیں گے۔
دوسری جانب ترجمان اوگرا کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر حادثات سے بچاؤ کے اقدامات کررہے ہیں۔ سی این جی سلنڈرز اور اسٹیشنز کا تھرڈ پارٹی کے ذریعے وقتاً فوقتاً معائنہ کیا جاتا ہے۔ اوگرا نے پبلک ٹرانسپورٹ میں سی این جی سلنڈر کی تنصیب پر پابندی عاید کر رکھی ہے۔ خیال رہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں گھروں اور مسافر بردار گاڑیوں میں گیس کے سلنڈر پھٹنےکے بعد آگ لگنے سے بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں کئی جانیں جاچکی ہیں۔
اس صورت حال پر نظر رکھنے والے افراد کے مطابق پاکستان ایسا ملک ہے جہاں بغیر کسی روک ٹوک کے دنیا کے کسی بھی علاقے سے، کسی بھی طرح کا سلنڈر منگوا کر، کسی بھی شخص سے اپنی گاڑی میں لگوایا جا سکتاہے۔ مقامی طور پر ایل پی جی سلنڈر بنانے والے ایک صنعت کار کے مطابق ان حادثات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بعض ٹرانسپورٹرز پیسے بچانےکے چکر میں سی این جی کا چالیس، پچاس ہزار روپے مالیت کا معیاری اور تصدیق شدہ سلنڈراستعمال کرنے کے بجائے روس یا بھارت سے اسکریپ میں آیا ہوا آکسیجن کا سلنڈر رنگ کرکے صرف سات ہزار روپے میں لگوا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے حادثے ہوتے ہیں۔
ان کے بہ قول آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے چار کمپنیوں کو ایل پی جی سلنڈر تیار کرنے کی اجازت دی تھی ان میں سے تین کمپنیاں کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو چکی ہیں، لیکن غیر معیاری سلنڈر بنانے والوں کی چاندی ہے اور انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ان کے بہ قول سی این جی سلنڈر تجربہ کار انجینئرکی زیر نگرانی تصدیق شدہ مراکز سے ہی لگوانےچاہییں۔ایسی گاڑیوں کا سالانہ معائنہ باقاعدگی سے ہونا چاہیے۔
اس وقت بہت سی گاڑیوں میں سی این جی کے بجائے ایل پی جی کے سلنڈر استعمال ہو رہے ہیں جو سی این جی سلنڈر کے مقابلے میں پانچ گنا کم طاقت رکھتے ہیں۔ گیس کی قلت کے باعث حکومت نے سی این جی کٹس کی درآمد پر پابندی لگا دی ،لیکن یہ تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں کہ حکومت کی توانائی کی پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔
سلنڈروں کے کاروبار سے وابستہ نسیم سراج کے مطابق سی این جی سلنڈر کبھی پھٹاہے اور نہ ہی پھٹ سکتا ہے۔ پاکستان میں تین لاکھ گاڑیوں میں غیرمعیاری سلنڈر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ناقص کوالٹی کے ایل پی جی سلنڈر ہیں جو حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے بہ قول اس کاوبار کے لیے حکومت کو لائسنس جاری کرنے چاہییں اور سلنڈرز پر سیکورٹی والوو لگانا ضروری قرار دیا جانا چاہیے تاکہ حادثے کی صورت میں گیس لیک نہ ہو سکے۔
ماہرین کے مطابق ناقص اور غیر معیاری گیس سلنڈر اور جگہ جگہ بغیر لائسنس کے کھلی دکانیں شہریوں میں موت بانٹنے لگی ہیں، لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ شہر کے گلی محلوں میں جگہ جگہ سلنڈروں میں گیس بھرنے کے لیے غیر قانونی طور پر کھلی ہوئی دکانیں انتہائی خطرناک مقامات ہیں اور آئے روز گیس سلنڈر کے دھماکوں کے باعث شہریوں کی اموات کے واقعات سامنے آتے رہتے یں اور ملک بھر میں سیکڑوں افراد ان میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
قواعد کے مطابق گیس سلنڈر بھرنے کی دکان کھولنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنےکے بعد لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ قوانین کے مطابق روٹی کےتنور، ویلڈنگ ورک شاپ،پٹرول پمپس، چرچ، مسجد، اسکول یا کوئی بھی ایسی جگہ جہاں لوگوں کا ہجوم رہتا ہو وہاں گیس ری فلنگ کی دکان نہیں کھولی جاسکتی۔ اس کے علاوہ ایسی جگہ جہاں آگ کے شعلے اور بجلی کا کام ہورہا ہو وہاں بھی دکان نہیں بنائی جاسکتی کیوں کہ گیس کے آگ پکڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
لیکن تمام قوانین کو پس پشت ڈال کر شہر میں جابہ جا گیس بھرنے کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں بعض دکان داروں کا موقف ہے سلنڈر وہی پھٹتا ہے جو غیر معیاری ہو اور آگ سگریٹ یا اسپارک کی صورت میں لگتی ہے ، جرمانے اور ایف آئی آرز بھی ہوتی ہیں، احتیاطی طور پر آگ بجھانے والے آلات رکھے ہوئے ہیں اور غیر قانونی ری فلنگ کی وجہ سے متعدد بار جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے،لیکن یہ ہمارا کاروبار ہے ،کیا کریں۔
پولیس کی سرپرستی میں گلی کوچوں میں قائم 500 سے زاید ایل پی جی فلنگ کی دکانوں سے شہری خوف زدہ ہیں۔ بتایا گیا کہ شیرشاہ کباڑی بازار سے خریدے گئے زنگ آلود، خستہ حال سلنڈرز پر رنگ کرکے انہیں فروخت کیا جاتا ہے۔ ابراہیم حیدری روڈ پر سلنڈرز کو چیک کر کے سرٹیفیکٹ دینے والے ادارے کے بارے میں شہریوں کو معلومات ہی نہیں ہیں۔ پولیس سے گٹھ جوڑ کرکے سلنڈر پھٹنے کے واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔ ان واقعات پر سندھ حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ گاڑیوں میں نصب سلنڈرزکے فٹنیس سرٹیفکیٹ چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔
اسکول وینز میں آگ لگنے کے واقعات کے بعد صوبائی حکومت نے ٹریفک پولیس کو بڑے آپریشن کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اب بھی وینز مالکان جوڑ توڑ کر کے سلنڈر لگی گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں کسی بھی قسم کے سلنڈرز چیک کرنے کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے۔ ایل پی جی کی فلنگ کرنے والوں کی دکانوں پر با آسانی ہر سائز کا سلنڈر مل جاتا ہے، لیکن اس کی فٹنیس کے بارے میں کوئی گارنٹی نہیں دی جاتی۔ متعدد واقعات جن میں غباروں میں ہوا بھرنے والے سلنڈر، ایل پی جی کے سلنڈر، ریفریجریٹر اور اے سی میں گیس بھرنے والے سلنڈر پھٹنے سےمتعدد افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں، لیکن سندھ حکومت نے اس سنگین معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔
کچھ ایسی ہی صورت حال غیر معیاری چولہوں اورگیس کا دباو بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والے ریگولیٹرزکی فروخت کی بھی ہے۔ دکان داروں سے پوچھیں تو وہ اتنے لاعلم نظر آتے ہیں کہ جواب ملتا ہے کہ اگر ان کے بارے کوئی قانون ہوتا یا کوئی پابندی ہوتی تو وہ یہ مال کس طرح فروخت کرسکتے تھے۔ یعنی ان میں سے زیادہ ترمتعلقہ قاعدوں، قوانین کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔
مذکورہ بالا تمام اشیا شہر میں کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔ جوں جوں گیس کابحران بڑھے گا ،مذکورہ اشیا کا استعمال بھی بڑھتا جائے گا۔ آنے والے وقت میں جب لوگوں کو سلنڈر استعمال کرنے پڑیں گے اور لائن کے ذریعے گیس نہیں ملے گی تو ہمیں اپنے لوگوں کو آنے والے وقت کے لیے ہر طرح سے ابھی سے تیار ی کرانی چاہیے، نہ کہ آنکھیں بند کرکے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
کل کیا ہوگا؟
تیل اور گیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں اور ان کی طلب میں اضافے کے ضمن میں یہ بتایا جارہا ہے کہ عالمی معیشت جیسے جیسے کورونا کے اثرات سے باہر آئی ویسے ویسے خام تیل کی عالمی مانگ بڑھتی چلی گئی اور اس کے نتیجے میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ یوکرین کی جنگ نے صورت حال کو مزید گمبھیر بنایا۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی ایک اور وجہ اوپیک پلس گروپ کے ممالک کی طرف سے محدود سپلائی کو جاری رکھنا ہے۔ اس وقت یورپ اور ایشیا میں گیس کی قلت ہے جس نے بجلی کی پیداوار کے لیے تیل کی طلب میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسے جیسے کوئلے کی سپلائی چین کم ہوئی، اس کے نتیجے میں بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی مانگ میں اضافہ ہوا۔
دنیا بھر میں ایندھن کے نرخوں میں اضافہ منہگائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم سرما سے قبل گیس کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا،جس نے کچھ صارفین کو گیس سے خام تیل کی طرف آنے پر آمادہ کیا۔ کہا جارہا ہے کہ قدرتی گیس کی انتہائی زیادہ قیمتیں قدرتی گیس کی جگہ تیل کی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ کرسکتی ہیں۔
توانائی کے شعبے کے بعض ماہرین حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نون لیگ کے پچھلے دور حکومت میں قدرتی گیس کی کمی دور کرنے کے لیے قطر سے ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کیے گئے اور ملک میں بروقت اس کی درآمد یقینی بنانے کے ساتھ پورے ملک میں اس کی ترسیل کا نظام بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں حکم رانوں سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ جن اوقات میں ایل این جی کی خریداری کے سستے سودے کیے جا سکتےتھے تب وہ کر لیتے۔
اس وقت عالمی منڈی میں گیس کے نرح بہت زیادہ ہیں اور ہمارے ذرمبادلہ کے ذخائر اتنی بھاری ادائیگی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ پھر یہ کہ اگر اتنی منہگی گیس خرید بھی لے تو ملک میں اسے فروخت کرنا بہت مشکل امر ہوگا۔لہذا ایل این جی کی خریداری کے کم سودے کیے گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ابھی جب کہ سردیوں کا پوری طرح آغاز بھی نہیں ہوا ہے ملک بھر میں گیس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ اس دوران بھی پریشر بہت کم ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں صورت حال مزید خواب ہے۔ صنعت کار بھی رو رہے ہیں کہ گیس نہیں مل رہی۔ اس صورت حال میں ہر شخص فکر مند نظر آتا ہے کہ سردی بڑھنے پر کیا ہوگا۔