• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احساسِ زیاں جاتا رہا...خصوصی مراسلہ…منیر احمد شیخ

علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اور میری دانست میں اس شعر میں دو طرح کے اثاثوں کا ذکرہے، مادی اثاثے، اخلاقی اثاثے۔ ان دونوں اثاثوں میں سے انہوں نے اخلاقی اثاثوں کی اہمیت مادی اثاثوں سے کہیں زیادہ قرار دی ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اخلاقی اثاثوں کے ضائع ہونے کا احساس اور دکھ انہیں زیادہ ہے اور وہ حقیقی ناکامی اسی اخلاقی اثاثے کے ضائع ہونے کو گردانتے ہیں۔موجودہ سیاسی مسئلے پاناما لیکس کو اگر اس تناظر میں دیکھیں تو موجودہ اور سابقہ حکمراں اخلاقی اقدار کے حوالے سے زمین کی پاتال پر نظر آتے ہیں۔ اگرچہ مادی لوٹ کھسوٹ، کک بیکس ، کمیشن، زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ جیسی کرپشن سے تو قوم عشروں سے واقف ہے مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا اسیکنڈل ہے۔پھر وزیر خزانہ کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پچھلے چند سالوں میں خلیجی ممالک میں 400ارب ڈالر کی جائیداد کی خریداری،سوئٹزرلینڈ کے محل، لندن کے فلیٹس بھی پاکستانی قوم کی یاداشت میں ابھی تازہ ہیں۔ یہ سب کچھ کس طرح بنایا گیا اس سے پوری قوم کماحقہ باخبر ہے۔پاناما لیکس کا حوالہ تو پاکستان سے باہر کے اداروں کی طرف سے آیاہے۔ اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ یا میڈیانے اسے آشکار نہیں کیا۔کئی ملکوں کے وزیر حتیٰ کہ وزائے اعظم اس معاملے پر استعفیٰ دے چکے ہیں جبکہ ہمارے حکمراں اسے ایک سازش اور جھوٹ گردانتے ہیں۔حکمراں اپنی قوم کو جوابدہ ہوتا ہے اور اسے اپنی قوم کو اطمینان دلانا ہوتا ہے کہ جن کے ٹیکس کا پیسہ ان کے پاس امانت ہے اور اس میں خیانت نہیں ہوئی۔ جب تک اشرافیہ اور حکمراں طبقہ دیانت دار نہیں ہوگا عوام سے دیانت داری کا رویہ عبث ہے۔ فتح مصر کے موقع پر وہاں کے سپہ سالار نے امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کو مال غنیمت کے ساتھ ایک رقعہ بھیجا جس میں درج تھا کہ میرے سپاہی اس قدر دیانت دار ہیں کہ اگر کسی کو سونے کی ایک اینٹ بھی ملی ہو تو اس نے بیت المال کے سپرد کردی۔ خط پڑھ کر حضرت عمر فاروقؓ اشکبار ہو گئے۔ ساتھ ہی حضرت علیؓ بیٹھے تھے۔ وہ پریشان ہو کر پوچھنے لگے محاذ جنگ سے کوئی بری خبر ہے کیا؟ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا اے علیؓ! یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ ساری بات سن کرحضرت علیؓ نے ایک ایسا تاریخی جملہ کہا جو آج بھی سنہرے حروف میں جگمگا رہا ہے ’’یہ سپاہیوں کی دیانت داری کا کرشمہ نہیں بلکہ آپؓ کی دیانت داری کا کرشمہ ہے۔ آپؓ اگر دیانت دار نہ ہوتے تو سپاہیوں میں کبھی یہ وصف پیدا نہ ہو سکتا تھا‘‘۔ اس لئے اگر آپ ملک میں کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے خود اس سے مبرا فرمائیں۔ پھر دیکھیں کہ پورا ملک چند دنوں میں ہی کرپشن فری ملک ہوگا۔جوابی الزامات کا سلسلہ شروع کرنے کی بجائے حکمرانوں کو چاہئے کہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری جماعتوں کے رہنمائوں کو بھی احتساب کی اس کڑی کمند میں شامل کرلیں تاکہ قوم کے سامنے واضح ہو جائے کہ کون سے رہنما دیانت دار ہیں اور کون اس ملک میں حکمرانی کا صحیح حقدار ہیں۔ پاناما لیکس کی تحقیقات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ اس ملک میں کرپشن، رشوت، چور بازاری، کک بیکس، بھتہ خوری وغیرہ کا خاتمہ ہوگا۔
تازہ ترین