کیا کوئی اس مقدمے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا سکتا ہے؟ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم اسے انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں حالانکہ ہمارے سامنے نہایت گمبھیر مسائل سراٹھائے کھڑے ہیں....طالبان انتقام پر تلے ہوئے ہیں اور خوف سے لرزتی ہوئی حکومت کو کچھ علم نہیں کہ کیا کرے۔ اس کے علاوہ ناقص حکومتی نظم و نسق کی وجہ سے دس محرم کو راولپنڈی میں حالات اس قدر بگڑ گئے کہ فوج کو بلا کر کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اس وقت عوام کے ذہنوں میں سوال یہ ہے کہ حکومت ان سنگین معاملات کو سدھارنے کیلئے کیا کررہی ہے؟
پانی سر سے گزر رہا ہے لیکن ہمارے وزیرِ داخلہ چہرے پر مزید سنجیدہ تاثرات طاری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذ کرنے کی پاداش میں غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اس پر ہنسے یا روئے؟اگرہماری سیاسی قیادت کی فہم و فراست کا یہی عالم ہے تو پھر ہمیں غیبی امداد کے لئے عالم ِ بالا کہ طرف ہی دیکھنا چاہئے، زمین پر تو یہ معاملات سدھرنے سے رہے۔ سابق وزیر ِ داخلہ رحمٰن ملک بھی باتیں کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے لیکن ایک بات طے ہے کہ ان میں حس ِ مزاح بہرحال پائی جاتی تھی اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔
تاہم چوہدری نثار اس حس سے یکسر عاری ہیں....کم از کم عوامی سطح پر اُنہیں کبھی خوشگوار موڈ میں نہیں دیکھا گیا ہے۔ چونکہ وہ انتہائی سنجیدہ رہتے ہیں اس لئے توقع کرتے ہیں لوگ بھی اُنہیں سنجیدگی سے لیں۔ اس کے علاوہ ایک ہی بات کو اس قدر دہراتے ہیں کہ سننے والوں کی قوت ِ برداشت نہایت کڑی آزمائش میں پڑ جاتی ہے۔ اگر چوہدری صاحب صرف ایک وزیر ِ داخلہ ہوتے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن مسئلۂ یہ ہے کہ وہ حکومت کے انتہائی اہم ’’تھم‘‘ ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی روس اور چین کی طرح ارباب ِ اختیار کی درجہ بندی ہوتی، چوہدری نثار تیسرے نمبر پر فائز ہوتے .....پہلی پوزیشن وزیراعظم جبکہ دوسری ان کے باصلاحیت برادر ِ خورد شہباز شریف کے پاس ہوتی۔ فرانسیسی نژاد انگلش ناول نگار جارج ڈو ماریر (George du Maurier) کے ناول ’’Trilby‘‘ کا ایک کردار سونگالی ہپناٹزم کا ماہر ہے۔ وہ دوسرے کرداروں کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ ہماری سیاست میں ایسے کرداروں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پی ایم ایل (ن) کا سونگالی کون ہے۔
بھٹو صاحب جنرل ضیاء کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کرنے کے فیصلے پر پچھتائے ہوں گے لیکن اس ضمن میں وہ کسی اور کوئی موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ یہ فیصلہ سراسر اُن کا اپنا تھا۔ اسی طرح ایوب خان نے جنرل یحییٰ کا انتخاب کیا لیکن جنرل مشرف کو آرمی چیف مقرر کرنے کا مشورہ نواز شریف کو چوہدری نثار نے دیا تھا۔کیا یہی وجہ تھی کہ تختہ الٹے جانے کے بعد جب نواز شریف سعودی عرب تھے تو اُن کا رویہ چوہدری نثار سے کچھ کھنچا کھنچا تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد چوہدری نثار کے ستارے کچھ مدہم پڑتے دکھائی دیئے کیونکہ ایک تو ن لیگ کی راولپنڈی ضلع میں کارکردگی اچھی نہ تھی اور دوسرے یہ کہ چوہدری نثار جن چار نشستوں سے الیکشن لڑرہے تھے، اُن میں سے دو نشستیں ہار گئے تھے لیکن چوہدری صاحب بھی میدان ِ سیاست کے گھاگ ہیں اور وہ اہم پتّے بچا کر رکھتے ہیں، اس لئے بازی میں واپس آنے کے ایک سو ایک گُر جانتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حالیہ دنوں راولپنڈی میں ہونے والے فساد کے بعد واقعات کو اُنھوں نے جس طرح سنبھالنے کی کوشش کی ہے، اُس سے ان کی سیاسی مہارت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ محض راولپنڈی انتظامیہ کی غفلت کا شاخسانہ تھا کہ وہ ایک لائوڈاسپیکر کو کچھ دیر کے لئے بند نہ کراسکی۔ اس کے بعد واقعات کے زنجیری عمل نے معاملات کو اتنا بگاڑ دیا کہ فوج کو طلب کرنا پڑا۔ اس میں کس کو موردالزام ٹھہرایا گیا؟یقیناً بنیادی طور پر انتظامیہ پر ہی انگلیاں اٹھی ہیں لیکن انتظامیہ کے پیچھے کون ہے؟یقیناً 99ء کا شب خون مشرف نے ہی مارا تھا لیکن اُنہیں آرمی چیف بنانے کے پیچھے کس کی مشاورت شامل تھی؟ بالکل اسی طرح راولپنڈی میں ہونے والی بدانتظامی کی اصل ذمہ داری بھی کسی پر عائد ہوتی ہے۔ میں کوئی پیچیدہ بات نہیں کررہا ہوں ، یہ بات عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ راولپنڈی میں کوئی اہم تعیناتی یاتبادلہ چوہدری نثار کی منشا کے بغیر نہیں ہوتا ہے اور صحیح پوچھیں تو یہ بات راولپنڈی اور وزیر ِ داخلہ تک ہی محدود نہیں ہے تمام وزراء اپنے حلقوں میں افسران کی تعیناتی اپنی مرضی کے مطابق چاہتے ہیں تاکہ وہ اُنہیں اپنے اثر میں رکھ سکیں تاہم فرق یہ ہے کہ دیگر وزراء لابنگ کرتے ہیں پھر وزیراعلیٰ سے درخواست کرتے ہوئے اپنی خواہش پر عملدرامد کراتے ہیں لیکن چوہدری نثار کا معاملہ مختلف ہے وہ تمام معاملات میں حکمرانوں کی قربت رکھتے ہیں، اس لئے ہر چیز اُن کے کنٹرول میں ہے۔ صوبے میں امن و امان کا معاملہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، چنانچہ راولپنڈی میں امن و امان پر بھی پنجاب حکومت ہی جواب دہ۔ تاہم یہ شہر وزیر ِ داخلہ کا حلقۂ انتخاب بھی ہے، چنانچہ پھر ذمہ داری کا بوجھ کس پر ڈالا جائے؟ لیکن قربان جائیں چوہدری صاحب کی سیاسی ’’فراست‘‘ پر کہ جب خود پر ذمہ داری کا بوجھ پڑتا دکھائی دیا تو اُنھوں نے توجہ بٹانے کے لئے مشرف کیس کا پنڈورا باکس کھول دیا۔ اس سے ہر کسی کو چکمہ نہیں دیا جاسکتا ۔ جب وزیر ِ داخلہ نے پریس کانفرنس کی تو بہت سے ذہنوں میں یہ شکوک جنم لے رہے تھے کہ یہ کیس دراصل دس محرم کے واقعات سے پہلو بچانے کی سعی ہے۔ میڈیا نے اس بات کو نوٹ کر لیا لیکن کیا حکومت نے بھی اس پر توجہ دی ہے؟جب نواز شریف غیر ملکی دورے سے مختصر سی مدت کے لئے وطن واپس تشریف لائیں گے تو ان کو خوشخبری سنائی جائے گی کہ پرویز مشرف کاآئین سے انحراف کی پاداش میں عدالت میں ٹرائل ہورہا ہے۔ کیا کہنے چوہدری صاحب کے، اس زیرک اقدام کے!اس کے برعکس طالبان اور دہشت گردی کے دقیق مسئلے سے نمٹنا کتنا مشکل ہے چنانچہ مشرف ٹرائل میں ہی حکومت کی عافیت ہے کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹی رہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات تعجب خیز ہے کہ مشرف کا ٹرائل تین نومبر 2007ء کے اقدامات کی پاداش میں ہورہا ہے نہ کہ بارہ اکتوبر 1999ء، جب اُنہوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ تین نومبر ایک معمولی واقعہ ہے جبکہ آئین سے اصل انحراف بارہ اکتوبر کے واقعات ہیں لیکن معاملہ یہ ہے ظفر علی شاہ کیس میں اس شب خون کی 2000ء میں سپریم کورٹ نے توثیق کر دی تھی۔ اُس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان تھے جبکہ موجودہ چیف جسٹس صاحب بھی اُس بنچ میں شامل تھے۔ اُس وقت سپریم کورٹ نے نہ صرف اُن اقدامات کی توثیق کردی تھی بلکہ جنرل مشرف کو آئین میں تبدیلی کا اختیار بھی دیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس وقت، جیسا کہ ہماری تاریخ میں ہوتا آیا ہے، فوج اور عدالت ایک ہی پیچ پر تھے۔ یقیناً تاریخی حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں لیکن کیا ماضی کے معاملات میں اپنے کردار کا جائزہ لے کر ہم کچھ ندامت یا عاجزی کا اظہار نہیں کرسکتے ؟کیا اپنی غلطیوں کے اعتراف سے کسی کی عظمت کم ہوتی ہے؟کیا ہم ارباب ِ اختیار میں مرزاغالب کا ظرف نہیں ہے....’’میں نے مجنوں پر لڑکپن میں اسد ، سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا‘‘۔ ہماری تاریخ میں اصغر خان کیس بھی ہے، بہت سے بنک کے قرضہ جات بھی ہیں اور اس میں موجودہ حکمرانوں اور ان کے اہل ِ خانہ کے ناموں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے، تو پھراسی حمام میں پرویز مشرف بھی ہیں۔ سنگ اُٹھالیں، لیکن اپنا سریاد رکھیں۔