ننھے عبداللہ کی ماں کے قتل کیس میں نیا ٹوئسٹ آگیا۔ قتل کا ملزم رضوان جرم کا اعتراف کرنے کے بعد مکر گیا،عدالت میں پیشی کے دوران ملزم نے کہا کہ تھانے میں پولیس نے دھمکیاں دے کر زبردستی اعترافی بیان لیا۔
ملزم نے دعویٰ کیا کہ حلیمہ کو اس کے سوتیلے بیٹے انصر نے جائیداد کے تنازع پر قتل کیا۔ ایدھی سینٹر میں موجود ننھے عبداللہ کی ماں سے کس نے زندگی کا حق چھینا، کون ہے جس نے حلیمہ کے سانسوں کی ڈور کاٹ دی۔
دہلی کالونی کراچی کے مرڈر کیس کی جو ڈوریں کل تک سلجھتی نظر آرہی تھیں،ایک بار پھر سچی اور جھوٹی پہچان کے کھیل میں الجھنے لگی ہیں،کیس کے مرکزی ملزم رضوان جس نے ایک روز پہلے پولیس کے سامنے حلیمہ کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
آج بھری عدالت میں اپنے جرم سے مکر گیا، خود پر سے الزام ہٹانے کے لیے کسی اور پر نہیں حلیمہ کے سابق شوہر چوہدری اقبال کے بیٹے انصر پر قتل کا الزام لگادیا،یہی نہیں جب حلیمہ سےتعلق کا سوال ہوا تو کسی بھی جان پہچان سے جان چھڑالی ۔
رضوان کے دعوے سوالوں کی کسوٹی پر پرکھے جائیں تو ان میں کئی جھول نکلتے ہیں،اگر رضوان قاتل نہیں تو دو ہفتوں تک غائب کیوں رہا؟
اگر حلیمہ سے کوئی تعلق نہیں تھا تو انصر کو کیسے جانتا تھا؟اگر حلیمہ کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تو عبداللہ کو ایدھی سینٹر کس لیے پہنچایا،اگر حلیمہ کے قتل کے بارے میں جانتا تھا تو پہلے پولیس کے پاس کیوں نہیں گیا۔
پولیس نے رضوان کو سپرہائی وے کراچی سے گرفتار کیا یا اس نے خود کو خانیوال میں قانون کے حوالے کیایہ اور ان جیسے کئی سوالوں پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الجھن کی دھول جمنے لگی ہے جس کی صفائی کے لیے قانون کو بھی اب سچ اور جھوٹ کی صفائی دینا ہوگی۔