وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ہمیں ایکسپورٹس بڑھانا ہوں گی، بیرونی قرضوں پر مزید انحصار نہیں کر سکتے، ہم سوشل سیکیورٹی کے لیے جتنا خرچ کرسکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ کورونا وبا کی وجہ سے بہت سے ملکوں نے ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا، ہمارے پاس بھی ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریٹ بڑھانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی مکمل حمایت کرتا ہوں، بعض صنعتی شعبوں میں ٹیکس کی رپورٹنگ کا ایشو بھی ہے، پاکستان کو ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے، پانچ سال قبل ہم کہاں تھے اور اب کہاں ہیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں اکنامک مینجمنٹ مکمل طور پر ناکام رہی، میں بہت عرصے سے چارٹر آف اکانومی کا کہہ رہا ہوں، چار سالوں میں قرضے 30 سے 54 کھرب تک پہنچ گئے، دنیا کے متعدد بڑے ممالک کا قرض ٹو جی ڈی پی پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ کیا امریکا، جاپان، برطانیہ میں کہا جاتا ہے کہ ان کا ملک قرضوں کی دلدل میں پھنس گیا، پاکستان کو بھی معیشت کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا، کیا بنگلادیش سمیت دیگر ممالک کرنسی مارکیٹ میں مداخلت نہیں کر رہے، پاکستان کی حکومت کو بھی مارکیٹ میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا ہے کہ اسمگلرز اور ہنڈی مافیا نے ملکی معیشت کو یرغمال بنایا ہوا ہے، اسمگلنگ کے خلاف حکومت نے آپریشن شروع کیا ہوا ہے، کیوں اسٹیٹ بینک معاشی ترقی کا آپشن آخری آپشن کے طور پر اپنائے، ہم اپنے اخراجات کو کنٹرول نہیں کر سکے جس کی وجہ سے قرض لینے پڑے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے وفاق سے صوبوں کو ریسورسز بہت جلد منتقل کیے، آئین کے مطابق صوبوں کو ایک بار دیے گئے ریسورسز واپس نہیں لیے جا سکتے، نیب کے ڈر سے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا، ہمیں بہت سے سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ چمن بارڈر پر یوریا اور بڑی مالیت کے ڈالرز کی اسمگلنگ ہو رہی ہے، ملک میں بڑے پیمانے پر ڈالر کی اسمگلنگ کی گئی، غریب نادار لوگوں کو سبسڈی دینا ریاست کی ذمے داری ہے، ہمارے ملک میں سبسڈی ٹارگیٹڈ ہونی چاہیے۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں پاکستان کے بارے میں ہمیشہ جذباتی ہوجاتا ہوں، پانچ سال جلاوطنی کاٹی، میں نے پاکستان کے لیے جذباتی ہونے کی قیمت ادا کی، آئی ایم ایف کے ساتھ نواں ریویو جاری ہے، پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اعتماد کا فقدان پیدا کیا، قرض دینے والوں کی اپنی شرائط ہوتی ہیں، آئی ایم ایف نے سیلاب بحالی کے اخراجات کی تفصیل مانگی ہے۔