• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض صاحب نے ساری عمر اردو میں شاعری کی اور ہم سب لکھنے والوں کو نئے لحن سے آشنا کیا۔ عمر کے آخری سالوں میں وہ اپنے گائوں جاتے رہے۔ گائوں کی مسجد میں نماز بھی پڑھی۔ یوم مئی آیا تو خود ان کا جی چاہا کہ وہ پنجابی، اپنی مادری زبان میں بھی شاعری کا دروازہ کھولیں۔ حالانکہ پہلے ایک نظم ٹانگے والوں، مزدوروں اور کھیت کھلیانوں کے نام لکھ چکے تھے۔ مادری زبان میں نظم لکھی، یوم مئی کے جلسوں میں پڑھی گئی۔ سن اے جٹا! پاکستان میں ہی کیا، ساری دنیا میں پنجابی میں لکھی چند نظمیں زمین کی خوشبو لئے اور لکھیں۔ یوں اپنی زبان میں سرخرو ہوئے۔

اردو میں تاریخی حوالوں کے ساتھ لکھے گئے ناولوں میں ’’آگ کا دریا’’ ہو کہ عبداللہ حسین کا ناول، تمام ناولوں میں زمین سے رشتے اور ہماری نسلوں پر، چاہے وہ شہنشاہیت ہو کہ انگریز کا غلبہ، کس طرح تحقیری حربے استعمال کئے گئے، تمام شہنشاہ اپنے مقبرے بناتے رہے اور انگریز، مغلوں سے زیادہ ہندوستان کی دولت سمیٹتے رہے۔ ہر چند انہوں نے یہاں تعلیمی ادارے اور نہری نظام کو متعارف کروایا۔ مگر قومی سطح پر دوسری جنگِ عظیم کی شکست میں برطانیہ جیسا ملک جو کہتا تھا کہ اس کی سلطنت میں ’’ سورج غروب نہیں ہوتا‘‘۔ جلدی میں ہندوستان کی تقسیم کا مسودہ، پنڈت نہرو کے ساتھ ذاتی تعلق کی بنا پر ریڈ کلف، گورداسپور اور فیروز پور کا علاقہ ہندوستان میں شامل کرکے، قائداعظم کو کٹا پھٹا پاکستان کا مسودہ پکڑا کر، عازمِ لندن ہوا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ بیانیہ، اردو اور ہندی کے تمام ناول نویسوں نے، جس میں سعادت حسین منٹو سے لے کر خوشونت سنگھ نے خون کی ندیاں بہنے کا احوال رقم کیا ہے، ہم سب نے پڑھا ہے۔

پنجاب میں انگریزوں کے خلاف کچھ ایسے غیرت مند سپوت نکلے، مثال کے طور پر احمد خان کھرل اور بھگت سنگھ، جن کے بارے میں پنجاب کے لکھنے والوں نے بڑی تفصیل سے لکھا اور جب تک ضیغم صاحب زندہ تھے وہ تو 23مارچ کو بھگت سنگھ کو پھانسی لگنے کے دن کو جلسہ کرتے اور یہ قرارداد تک پاس کی کہ شادمان چوک کو بھگت سنگھ چوک قرار دیا جائے کہ اس نے پنجاب اسمبلی پر ایسے بم مارا تھا کہ پورا ہندوستان لرز گیا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں لاہور جیل میں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی ۔ بھگت سنگھ پر ہندوستان، خاص کر مشرقی پنجاب میں بہت تحقیق ہوئی۔ پاکستان میں یہ قرض مستنصرحسین تارڑ نے ناول بعنوان، میں بھناں دی دے کنگرے، لکھ کر اتارا ہے۔ وہ بھگت سنگھ کو سو سال پہلے کے لاہور میں واپس لاکر، چاہے ملکہ کے بت کا حوالہ ہو کہ بھنگیوں کی توپ یا لاٹ صاحب کے بنگلے کےبارے میں تفصیلات اور وہ بھی پنجابی زبان میں، اتنی خوبصورتی اور صحتِ لفظی کے ساتھ لکھا ہے کہ مجھ جیسی پنجابن (میں 7سات سال کی عمر میں لاہورآکر مسلسل پنجابی زبان بولتی رہی ہوں) استاد شریف کنجا ہی کے ساتھ بیٹھ کر وارث شاہ، شاہ حسین اورمنو بھائی کی بیگم اور قائم نقوی کے ساتھ بیٹھ کر پڑھا تھا۔ مجھے اچھی بھلی شاعری اور پنجابی پڑھنا، ڈاکٹر لئیق بابری نے بھی سکھایا تھا مگر مستنصر کی پنجابی زبان اتنی انوکھی، دلچسپ اور لاہور کی تفصیلات کے ساتھ بیان کی ہیں کہ ایک طرف زبان کا لطف ، دوسری طرف لاہور، سو سال پہلے کہتا تھا پھر بھگت سنگھ کی ملکۂ وکٹوریہ کا مجسمہ دیکھ کر، بغاوت کا طوفان۔ وہ سب تفصیلات مع اس خط کہ جو بھگت سنگھ نے نومبر 1930ء میں پھانسی کی سزا سننے کے بعد لکھا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ مجھے پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ وہ بار بار کہتا تھا ’’مجھے تو خدا نے ’’زمین پر 33کروڑ انڈینز کی خدمت کرنے کیلئے پیدا کیا تھا‘‘۔

مستنصر نے سفر نامے لکھ کر نام کمایا تھا اور ہر کالج کی پرنسپل اس کی ہر کتاب کی تین تین کاپیاں خرید کر لائبریری میں رکھتی تھی۔ پھر اس نےخس و خاشاک زمانے لکھ کر، اسلوب بدلا، جولاہے کی ذات کو پہنا اور ناول لکھا۔ پنجابی میں بھی ایک چھوٹا سا ناول لکھا تھا مگر تاریخی طور پر مستند ناول بھگت سنگھ کے بارے میں لکھ کر، ہماری تین نسلوں کو یہ سمجھایا کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے۔ کیسے اس کے لئے جان قربان کرنا بھی، ملک کی خدمت ہے۔ ہم پاکستانی تین نسلوں سے رنگ برنگے دولت مندوں کو ملک کی خدمت کا نام دیکر، لوٹتے رہے ہیں۔ نئی نسل کو کچھ بھی نہ سکھاسکے کہ ضیاالحق کے زمانے سے پورے پاکستان کے نصاب میں تاریخ اور جغرافیہ ختم کرکے، اسلامیات اور معاشرتی علوم کو نصاب میں شامل کردیاگیا۔ اب کون جانے کے مولانا محمد علی جوہر نے کیا قربانیاں دیں، ریشمی رومال کی تحریک کیا تھی، خلافت کی تحریک کیا تھی، جلیانوالہ باغ میں کیسے سب ہندو، مسلمان اور سکھوں کو ایک ساتھ بھون دیا گیا تھا۔ آج تک اس جلیانوالہ باغ میں گولیوں کے سوراخ اور جان دینے والوں کے نام لکھے ہوئے ہیں مگر ہم لوگ اب مذہبی مقامات کو دیکھنے کے لئے سکھوں کو کرتار پورآنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ انڈین حکومت نظام الدین اولیاؒکے عرس پر جانے کی خواہش رکھنے والوں کو ویزا بھی نہیں دیتی۔ پاکستان کے ہر صوبے میں غفار خان جیسے سپوت ہیں، جنہوں نے غلامی سے آزاد ہونے کے لئے عمریں گزار دیں۔ ہم تو دونوں ملکوں میں سیاست کی رام لیلیٰ ہی دیکھ رہے ہیں اور شرمندہ ہیں کہ کیوں زندہ ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین