آج پاکستان میں پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں کی حکومت ہے۔ملک میں عمومی تاثر یہ ہے کہ عمران خان اکیلے ہیں او ر دوسری طرف گیارہ جماعتیں ہیں۔گزشتہ چند ماہ کے دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا۔جبکہ حکومت میں شامل پی ڈی ایم جماعتوں کو چور،لٹیرے جیسے القابات سے نوازا گیا۔ایک عام آدمی تک یہی پیغام پہنچایا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر عمران خان کے خلاف اکٹھی ہوئی ہیں۔ اقتدار میں موجود مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی او ر جے یو آئی سمیت دیگر جماعتیں اس منفی پروپیگنڈے سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہیں کہ عمران خان کی حکومت بھی ایم کیو ایم،بلوچستان عوامی پارٹی،مسلم لیگ ق ،جی ڈی اے،اے ایم ایل پی اور جے ڈبلیو پی سمیت آٹھ اتحادیوں کی مرہون منت تھی۔مگر عمران خان کو اس کا بھرپور کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے خود کو بہترین انداز میں مظلوم بنا کر پیش کیا۔چار سال آٹھ اتحادیوں کے ساتھ حکومت بھی کی اور ان سے ہلکی پھلکی دھینگا مشتی بھی جاری رکھی۔جب وہ اتحادی حکومت چھوڑ کر اپوزیشن سے جا ملے تو مظلومیت کا پرچار شروع کردیا۔انسانی جبلت ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوم کو دل سے پسندکرتا ہے او ر گیارہ کے مقابلے میں ایک آدمی سے زیادہ مظلوم کون ہوسکتا ہے؟اصل میں عمران خان کا یہی بیانیہ ایک عام آدمی کے دل میں گھر کر گیا اور راتوں رات ان کی مقبولیت کا گراف آسمان پر پہنچ گیا۔مگر بدقسمتی ہے کہ آج کے دن تک پی ڈی ایم اتحاد کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نہ ہی اس وجہ کو سمجھ سکی اور نہ ہی اسکا توڑ کرسکی۔
پی ڈی ایم جماعتوں کے اتحاد کا اس وقت سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کو ہورہا ہے۔اس اتحادی حکومت کی سب سے بھاری قیمت مسلم لیگ ن نے ادا کی ہے۔کیونکہ عمران خان کی سب سے زیادہ مقبولیت پنجاب میں بڑھی ہے۔پنجاب کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر مسلم لیگ ن رہی ہے۔آج تخت لاہور پر عمران خان کی حکومت ہے۔لاہور مسلم لیگ ن کا قلعہ تصور کیا جاتا تھالیکن آج حقیقت اس کے برعکس ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ پنجاب کے عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جس پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ہم نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دینا شروع کیا ،آج وہ دونوں جماعتیں اقتدار کی خاطر متحد ہوگئی ہیں،اسی طرح پنجاب میں جے یو آئی ف کا کوئی خاص ووٹ نہیں ہے۔یہاں پر دیگر مذہبی جماعتیں مولانا فضل الرحمان سے زیادہ مضبوط ہیں۔پنجاب میں جے یو آئی ف کے مخالفین کاسامنا بھی مسلم لیگ ن ہی کررہی ہے۔
کیونکہ جب ایسی خبریں گردش کرتی ہیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں گی تو اس میں دو صورتیں ہوتی ہیں۔پہلی ، کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہے تاکہ عمران خان کو مزید مظلوم بنایا جاسکے ،جبکہ اگر یہ خبر درست ہو تو جو فارمولا بنے گا اس میں پنجاب میں جہاں جہاں پیپلزپارٹی کے امیدوار رنر اپ ہونگے،وہاں مسلم لیگ ن اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی اور پی پی پی کی حمایت کرے گی،جیسا کہ ملتان کے حالیہ الیکشن میں ہوا ہے۔جبکہ پی پی پی اور جے یو آئی ف اس فارمولے سے ہٹ کر بھی پنجاب میں کچھ سیٹوں کی ڈیمانڈ کررہی ہیں۔جبکہ اسی فارمولے کو اگر سندھ اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیا جائے تو ایک ،دو سیٹیں چھوڑ کر مسلم لیگ ن کہیں رنر اپ نہیں اور یوں مسلم لیگ ن ان دو صوبوں میں شئیر سے محروم رہے گی۔ جبکہ اس اتحاد کی عام انتخابات میں جو قیمت ادا کرنی ہوگی ،وہ الگ ہے۔اگر پی ڈی ایم جماعتوں نے ایک اتحاد کی چھتری تلے انتخابات میں حصہ لیا تو اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شہباز حکومت کوعمران کی کرپشن بے نقاب کرنے اور بہترین کارکردگی دکھانے کے ساتھ ساتھ میڈیا مینجمنٹ اور پروپیگنڈے کا بھی توڑ کرنا ہوگا۔پی ڈی ایم اتحادی حکومت موجودہ حالات کی ضرورت ہے،مگر عوامی تاثر زائل کرنے کے لئے ایک دوسرے کی پالیسیوں سے اختلاف بھی کریں۔اگر وزارت مواصلات،وزارت ہاؤسنگ و دیگر وزارتوں میں شکایات سامنے آرہی ہیں تو ان پر ایکشن ہونا چاہئے او ر اتحادیوں کو بھی ناراض ہونے کے بجائے ایسے اقدامات کو مثبت لینا چاہئے۔اگر شہباز صاحب کے اتحادیوں کا باہمی اختلاف عمران خان یا وزارتوں کی بندر بانٹ کی حد تک رہا تو آنے والے کچھ عرصے میں عمران خان کا پروپیگنڈامزید سر چڑھ کر بولے گا۔
آج حکومت کی اولین ذمہ داری یہ ہونی چاہئے کہ وہ اس پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دے۔اس تاثر کو زائل کرے کہ عمران اکیلا اور دوسری طرف گیارہ جماعتیں ہیں۔عوام کو یہ بار بار بتائے کہ عمران خان بھی آٹھ اتحادیوں کے ساتھ حکومت کررہا تھا اور نوازشریف اکیلا اس کا مقابلہ کررہا تھا۔آج بھی عمران خان اکیلا نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ ق ودیگر اتحادیوں کے ہمراہ دو صوبوں ،کشمیر اور گلگت بلتستان میں اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔پی ڈی ایم جماعتیں صرف پارلیمنٹ کے اندر کی حد تک اپنا اتحاد ضرور قائم رکھیںمگر پارلیمنٹ سے باہرایک دوسرے پر تنقید کریں۔کسی ضمنی انتخاب میں قومی سطح پر ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کے بجائے مقامی سطح پر غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کے لئے آسانی پیدا کریں،جہا ں پر ضرورت ہو دو ،تین جماتیں اپنے اپنے امیدوار کھڑے کریں اور وو ٹ بینک کو تقسیم کرکے تحریک انصاف کو شکست دیں،پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہر معاملے میں یہ مت سوچیں کہ مسلم لیگ ن سے کیا مل رہا ہے بلکہ اجتماعی فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی مرتب کریں۔