پاکستان میں 2022 کا مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن رہا ۔جولائی اور اگست میں پاکستان میں 391ملی میٹر (15.4انچ) بارش ریکارڈ کی گئی جو 30 سالہ اوسط سے تقریباً 190فی صد زیادہ تھی۔ جنوبی صوبہ سندھ میں اوسط سے 466فی صد زیادہ بارش ہوئی۔ مون سون کے اس تبدیل شدہ تیورکی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں کارو بار زندگی مفلوج ہوگیا اور زبردست تباہی آئی۔ سیلاب اورطوفانی بارشوں نے پچھلے تمام ریکارڈز توڑکر ایسی کیفیت پیدا کی جس سے ملک کے شمال میں گلگت بلتستان سے لے کر جنوب میں کراچی تک ہلاکتوں اور تباہی کا الم ناک سلسلہ شروع ہوا۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمےدار وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں کے باعث کم از کم تیرہ سو اموات ہوئیں اور ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے۔ سیلاب اور بارشوں سے چار لاکھ سے زاید مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا۔
دیہی علاقوں میں سات لاکھ سے زیادہ مویشی بھی بہہ گئے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا شامل ہیں۔ بلوچستان کے 34 اور خیبرپختون خوا کے33اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے۔ سندھ کے23اضلاع کو صوبائی حکومت نے آفت زدہ قرار دیا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے تین اضلاع سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ کی35لاکھ ایکڑپر کھڑی 90فی صدسے زاید فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں جس سے ملک بھر میں آنے والے دنوں میں غذائی قلت اور خوراک کے شدید بحران کا خطرہ پیدا ہو چکاہے۔ سیلاب سے ٹنڈو جام ، ٹھٹھہ ، لاڑکانہ، جیکب آباد اور سکھر سمیت 23 اضلاع، 101 تحصیلیں اور 5181 دیہات متاثر ہوئے ہیں اورکروڑوں روپے مالیت کے 15435مویشی بھی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔
صوبہ سندھ کی حالت 2010 اور2011کی طوفانی بارشوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔ یہاں اتنی بڑی ایمرجنسی اس سے پہلے کبھی بھی نافذ نہیں ہوئی۔ سندھ کے 17 اضلاع تو ایسے ہیں جہاں سب کچھ ملیا میٹ ہو چکا ہے۔ یہاں مجموعی طور پر 19 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔این ڈی ایم اے کے مطابق 14 جون کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ سے زاید افراد کو ریلیف کیمپ میں منتقل کیاگیا۔ صوبے میں 120 بچوں اور 35 خواتین سمیت کم و بیش 405سے زاید اموات ہوئیں اور 1000سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ 2328 کلو میٹرز طویل شاہراہیں متاثر ہوئی ہیں، 60 پل زمین بوس ہوئےاور 8لاکھ سے زیادہ گھر اور عمارتیں جزوی یا مکمل طور پرتباہ ہو چکی ہیں۔
این ڈی ایم اے کےاعداد و شمار کے مطابق صوبہ بلوچستان کے34اضلاع اور تین لاکھ60 ہزار سے زاید افراد سیلاب سے متاثر ہوئے۔ 249 سے زایداموات ہو ئیں۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے کے علاوہ ایم ایٹ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سےبری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے بند کر دی گئی۔ تعلیمی ادارے بندرہے۔ خوراک کی قلت اور صحت کی سہولتوں کا فقدان اب بھی بعض علاقوں میں ہے۔
وہاں50 ہزار مکانات، 1000 کلومیٹر طویل شاہ راہیں،18 پل اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔ نصیر آباد، جعفر آباد اور ضلع صحبت پور بری طرح متاثر ہوئے ۔ نہروں میں شگاف پڑنے کے باعث نصیر آباد سے متصل جعفر آبادکا ضلع بھی سیلاب سے بری طرح متاثر ہو ا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے درمیان شاہ راہ زیر آب آنے سے سیکڑوں گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچا اور ریلوے لائن کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچنے کے باعث ریل سروس بھی معطل کر دی گئی تھی۔
پنجاب میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے کل 16 اضلاع متاثر ہوئے ۔ 39 بچوں سمیت کل 187اموات ہوئیں، زخمیوں کی تعداد 2000کے قریب تھی۔صوبے میں 38ہزار سے زیادہ مکانات، 130 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں۔ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 16پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
خیبر پختون خوا کے33 اضلاع میں سیلاب سے 50 ہزار لوگ متاثر ہوئے۔صوبائی حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال کے اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا تھا۔ خیبرپختون خوا میں 86 بچوں سمیت کم و بیش 257 اموات ہوئیں اور321افراد زخمی ہوئے۔ بارشوں سے ایبٹ آباد اور مانسہرہ سمیت دیگر علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ سوات کے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں نےتباہی مچائی۔ ندی نالوں میں طغیانی کے باعث مختلف شاہ راہیں مکمل طور پر بندکر دی گئی تھیں جس سے مسافر وں کو نقل و حرکت میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ سوات کے سیاحتی مقام مینگورہ میں بھی سیکڑوں مکانات زیرِ آب آگئے تھے۔
گلگت بلتستان اور کشمیر جیسے سر سبز اور پر فضا مقامات بھی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ان علاقوں میں مجموعی طور پر63 اموات ہوئیں، تقریباً دس ہزار افراد اور 1500کے قریب مکانات متاثر ہوئے۔ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں ہزاروں کنال زرعی اراضی، کئی گھرانے، فش فارمز، متعدد پلوں کے علاوہ اہم تنصیبات بھی سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ شاہ راہِ نلتر کا بڑا حصہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا۔ سیلابی ریلے کے باعث گلگت کو بجلی فراہم کرنے والے 18میگاواٹ کے بجلی گھر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
ہم دہائیوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ سیلاب، خشک سالی اور زلزلے جیسی قدرتی آفات سے کہیں نہ کہیں سال میں ہمارا ایک یا دو دفعہ تو واسطہ پڑتا ہی ہے، لیکن ہم نے اس ضمن میں کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ 1947ء سے 2007ء تک پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات ایک محتاط اندازے کے مطابق 24 کھرب 50ارب روپے کے تھے۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری کردہ نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس پلان2019کے مطابق 2007 سے2017 تک سیلاب، زلزلہ و دیگر قدرتی آفات کے نتیجے میں6 ہزار117افراد جاں بہ حق،11ہزار42 افراد زخمی ہوئے اور 42 لاکھ 90 ہزار 74مکانات کو نقصان پہنچا تھا۔ 2007کے دوران سائیکلون سے443ا فراد جاں بہ حق ہوئےاور71486مکانات کونقصان پہنچاتھا۔ 2008 کے سیلاب کے دوران 80 افراد جاں بہ حق ، 21زخمی ہوئے اور 17172مکانات تباہ ہوئے تھے۔
2010 کے سیلاب میں ملک کے78اضلاع متاثر ہوئے تھے اور اب 116اضلاع متاثر ہوئے ہیں ۔2010 میں دوکروڑ افراد متاثر ہوئے تھےاور 2022 میں ملک بھر میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زاید افراد متاثر ہوئےہیں۔ 2010میں آنے والے سیلاب کو پاکستانی اداروں نے’’سپر فلڈ‘‘ قرار دیا تھا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 2010 کا سیلاب ’’دریائی سیلاب‘‘ تھا۔ گزشتہ مون سون میں آنے والے سیلاب کو’’فلیش فلڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ 2010 کے سیلاب میں نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر زلگایا گیا تھا جس میں زرعی اجناس اور اگلے دو سال تک زرعی پیداروار میں کمی کو شامل کرلیا جائے تو12ارب ڈالرز بن جاتے ہیں۔ 2022 کا سیلاب 2010 کے سیلاب سے اس حوالے سے زیادہ تباہ کن ہے کہ اس سے متاثرہ رقبہ زیادہ ہے۔
وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق 2010 کا سیلاب 17سو جانیں لے گیا تھا اور موجودہ سیلاب تیرہ سوسے زاید افراد کی بھینٹ لے چکاہے ۔ ملک بھر میں اب تک کے ابتدائی اندازوں کے مطابق تیس ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ صوبہ سندھ کی حکومت 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر یہ کہہ چکی ہے کہ صورت حال 2010 سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ دیگر صوبوں، بالخصوص بلوچستان میں بھی غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
بارشوں اور سیلاب کے باعث ملک بھر میں 3 لاکھ 72 ہزار8 سو 23 گھر تباہ ہوئے۔ بارشوں اور سيلاب سے جزوی طور پر7لاکھ 33ہزار 536گھروں کو نقصان پہنچا۔ ملک بھر میں243 پلوں اور 173 دکانوں کو بارشوں سے نقصان پہنچا۔ کل 5063 کلو ميٹر سڑکیں بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئیں۔7 لاکھ 31 ہزار سے زاید مويشيوں کا نقصان ہوا۔ ملک بھر میں 800000 ہیکٹر سے زاید رقبے پر فصلیں سیلاب کی نذر ہو گئی ہیں۔
بارشوں اور سیلاب سے صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا اور 30 سالہ اوسط سے 466 فی صد زیادہ بارش ہوئی۔ ملک کے شمال میں پہاڑوں سے شروع ہونے والا سیلاب ہزاروں مکانوں، کاروباری اداروں، بنیادی ڈھانچے اور فصلوں کو بہا لے گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 22 کروڑافراد پر مشتمل کل آبادی میں سے تین کروڑ 30 لاکھ افراد(15 فی صد) متاثر ہوئے ہیں۔
اس تمام عرصے میں اقتدار میں رہنے والے فوجی آمروں اور جمہوری حکم رانوں نے انتظام آفات (ڈیزاسٹر) مینجمنٹ کا مؤثر اور مربوط نظام تشکیل دیا ہوتا تو یہ کھربوں روپے ملک کی اقتصادیات اور قوم کی حالت بہتر بنانے پر خرچ ہوسکتے تھے۔ پچھہتّر برسوں میں جب ہم یہ نظام تشکیل نہیں دے سکے تو اس کا گلہ محض پچھلی یا موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ تاہم پے درپے آنے والی قدرتی آفات ہمیں بار بار ایسا نظام تشکیل دینے کی مہلت یا اشارہ دے رہی ہیں۔
حکومت پاکستان کے مطابق صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 23 اضلاع کی ایک کروڑ 45لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے۔ اسی طرح صوبہ بلوچستان کے 34اضلاع کے91 لاکھ 82 ہزار سے زیادہ افراد اور صوبہ پنجاب کےسولہ اضلاع کی48 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ بلندی پر ہونے کے باوجود خیبر پختون خواہ بھی سیلاب کی زد میں آیا اور اس کے 33 اضلاع کے 43 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثرین میں شامل ہیں۔ المختصر یہ کہ ملکِ خداداد کا ایک تہائی حصہ،مکانات، ریلوے ٹریک، موٹر ویز وغیرہ زیر آب آئیں اور بعض علاقوں کا ملک سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا تھا۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر حکومت کی جانب سے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح رواں مالی سال کے دوران 5 فی صد رہنے کے ہدف کے بجائے 2 فی صد رہ جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔جی ڈی پی کی شرح نمو کا یہ سرکاری تخمینہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے 3.5 فی صد شرح نمو کی پیش گوئی کے بالکل برعکس ہے۔ اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2.4 فی صد شرح نمو کا تخمینہ لگایا تھا ۔تاہم حکومت رواں سال کے لیے 2.2 سے 2.3 فی صد شرح نمو کا تخمینہ لگا رہی تھی۔ ماہرین کے مطابق سیلاب کے پیش نظر پاکستان کو بحالی اور تعمیر نو کے لیے مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی شراکت داروں، قرض دہندگان اور عطیہ دہندگان کے مسلسل اور مستقل تعاون کی ضرورت ہوگی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے کاؤنٹر سائکلیکل پروگرام کے تحت پاکستان کے لیے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد طے کی تھی جو کورونا کے بعد بحالی کے اقدامات کے لیے تھی، حکومت کی خواہش تھی کہ تقریباً 3.15 فی صد سود پر عام سرمائے کے وسائل (او سی آر) کے بجائے تقریباً 2 فیصد سود پر اس کی سافٹ فنانسنگ ہو۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور تعمیر نو کا تخمینہ تقریباً30ارب ڈالرز تک سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ 116سے زیادہ آفت زدہ اضلاع سمیت صوبوں کے نقصانات اور تعمیر نو کا تخمینہ لگانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر مقرر کی گئی تھی اور کور گروپ کو 15 اکتوبر تک اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنی تھی۔
ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق اب ہمیں وسائل کو ملکی اور بیرونی ذرایع کی مدد سے ترتیب دینا ہوگا، 2.2 کھرب روپے مالیت کے وفاقی اور صوبائی ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ ردوبدل کی ضرورت ہوگی، فنڈز کا اجرا نقصانات کی تشخیص کی رپورٹ پر مبنی ہوگا۔ حکومت پہلے ہی 30 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کا ڈونر فنڈ سیلاب کی امدادی سرگرمیوں کے لیے وقف کر چکی ہے، اس میں عالمی بینک کے جاری پروگرام سے30کروڑ ڈالرز کے فنڈز اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے 30 لاکھ ڈالر شامل ہیں۔ عالمی برادری نے16کروڑ ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے ،لیکن تعمیر نو اور بحالی کی کوششوں کے لیے اس سے کہیں زیادہ فنڈز درکار ہوں گے۔
پلاننگ کمیشن کے میکرو اکنامک ماہرین نے سیلاب کے پہلے 15روز کی بنیاد پر جی ڈی پی کے5فی صد ہدف کے بجائے تقریباً 2.3 فی صد نقصان کا تخمینہ لگایا تھا، ان کی اور صوبائی رپورٹس کی بنیاد پر ورلڈ بینک کے کور گروپ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے تقریباً 17 شعبوں کے 100 ماہرین کو سیلاب سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا تاکہ عالمی معیار کے بہترین طریقوں کے ساتھ نقصانات کا تخمینہ لگایا جاسکے، اس کی قیادت حکومت پاکستان کو کرنی تھی، لیکن اس میں عالمی تنظیموں کے ماہرین کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس مقصد کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کو بحال کیاگیا تھا، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال این سی او سی کو کوآرڈینیٹ کر رہے ہیں اور وزیر اعظم شہباز شریف خود اس عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ادہر ماہرینِ زراعت نے یہ اچھی خبر سنائی ہے کہ کپاس کی آمد پر مبنی تازہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تخمینوں کے برعکس کپاس کی فصل کو ہونےوالے نقصانات بہت کم ہیں۔ دوسری جانب بتایا جارہا ہے کہ امدادی فنڈز کے لیے اقوام متحدہ کی اپیل میں اضافہ کیا جائے گا جس کا اشارہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ پہلے ہی دےچکے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق عالمی اقتصادی چیلنجز کی وجہ سے بحالی اور تعمیر نو کے لیے گرانٹس ناکافی ہوسکتی ہیں۔
ان چیلنجز کی وجہ سے امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک بھی40سال کی بلند افراط زر کی شرح کا سامنا کررہے ہیں۔ ریلوے ٹریک، پلوں اور دیگر متعلقہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے ملک کے ریل نیٹ ورک کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 2 ارب 30 کروڑ ڈالرز لگایا گیا ہے، مکانات کی تعمیر نو کے لیے درکار فنڈز کا تخمینہ 3 ارب ڈالر ہے۔ صوبے ان نقصانات کے تخمینے پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔
اطلاعات کےمطابق حکومت نے332 ارب روپے کے سیلاب سے بچاؤ کے پلان (2017) کو 10 برسوں کے لیے اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت کی ہے، جس میں افراط زر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پہلے 5 برسوں کے لیے 177ارب روپے شامل ہیں، اس مقصد کے لیے نیسپاک کے ساتھ شراکت میں ایک ڈچ کنسلٹنٹ کو اس پر نظر ثانی کے لیے کہا گیا تھا جس نے یہ اصل منصوبہ تیار کیا تھا۔
سیلاب کے اثرات ظاہر ہونے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حال ہی میں یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زاید بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے ۔ یونیسیف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں اور ان کے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ مون سون میں شدید بارشوں ، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہونے والے3 کروڑ30لاکھ افراد میں تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ بچے بھی شامل ہیں ۔ 350 سے زاید بچوں سمیت 1,300 سے زاید افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، 1,600 زخمی ہوئے، اور 287,000 سے زیادہ گھر مکمل طور پر اور 662,000 جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ کچھ بڑے دریاؤں نے اپنے بند توڑ دیے اور ڈیم گنجائش سے زیادہ بھر جانے کی وجہ سے پانی چھلکانے لگے تھے۔ اس صورت حال کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں گھر، کھیت، سڑکیں، پل، اسکولز،اسپتال اور صحت عامہ کی سہولتوں سمیت اہم بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے، عبداللہ فاضل کے مطابق آفات میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں۔ اس سیلاب نے پہلے ہی بچوں اور ان کے خاندانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور صورت حال مزیدبدتر ہو سکتی ہے۔ یونیسیف حکومت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ متاثرہ بچوں کو جلد از جلد ضروری امداد مل سکے۔
ایک تخمینے کے مطابق ، متاثرہ علاقوں میں 30 فی صد آبی نظام کو نقصان پہنچاہے، جس سے لوگوں کے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے اور غیر محفوظ پانی پینے کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ مزید بڑھ گیاہے۔اسی طرح تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ17,566اسکولز کی عمارتیں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم کو مزید خطرہ لاحق ہوا ہے۔
گزشتہ سالوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے دو برس تک اسکولوں کی بندش کے بعد ایک بار پھر بچوں کی پڑھائی میں خلل پڑنے کا خطرہ ہے، اور وہ بھی ان علاقوں میں جہاں ایک تہائی لڑکیاں اور لڑکے موجودہ بحران سے پہلے ہی اسکولوں سے باہر تھے۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے 30سالہ قومی اوسط سے تقریباً تین گنا اور کچھ صوبوں میں پانچ گنا زیادہ بارشوں کی وجہ سے قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھااور116اضلاع کو ’’آفت زدہ‘‘ قراردے دیاگیا تھا جن میں سے بیش تر شدید ترین متاثرہ صوبوں، سندھ اور بلوچستان میں ہیں۔ خیبرپختون خوا اور پنجاب بھی متاثر ہوئے ہیں ،لیکن نسبتا کم حد تک۔
ان علاقوں سے ،خطرے سے دوچار آبادیوں کو متاثر کرنے والی بیماریوں، اسہال اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، سانس کے انفیکشن اور جلد کی بیماریوں کے کیسز پہلے ہی رپورٹ ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے پہلے ہی40فی صد بچے اسٹنٹنگ کا شکار تھے ،جو مسلسل غذائی قلت کی وجہ سے پیدا ہونے والی طبی کیفیت ہے۔ یہ خطرناک انسانی بحران آئندہ دنوں میں مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔اگرچہ اقوام متحدہ کی جانب سے فلیش اپیل کی گئی جس کا مقصد حکومت پاکستان کی جانب سے سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کی کوششوں کو تقویت پہنچانا تھا۔
تاہم اس اپیل پر دنیا نے مطلوبہ حد تک دل چسپی نہیں لی تھی۔ اس اقدام کے تحت، یونیسیف نے 3 کروڑ 70 لاکھ امریکی ڈالر کی امداد کی اپیل کی اور آنے والے مہینوں میں بچوں اور ان کے خاندانوں تک فوری امداد پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس میں جان بچانے والے طبی آلات، ضروری ادویات، ویکسین اور بچوں کی پیدایش محفوظ طریقے سے کرنے کے لیے ضروری سامان کے علاوہ پینے کا صاف پانی اور صفائی ستھرائی، خوراک ، عارضی تعلیمی مراکز اور تعلیمی موادو آلات شامل ہیں۔
یاد رہے کہ یونیسیف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی سی آر آئی) کے مطابق، پاکستان ایک مشہور ’’ماحولیاتی ہاٹ سپاٹ‘‘ اور ایسا ملک ہےجہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے شدید خطرات سے دوچار سمجھا جاتاہے، اور سی سی آر آئی کی درجہ بندی والے 163 ممالک میں سے14ویں نمبر پر ہونے کی وجہ سے پاکستان کی درجہ بندی’ ’انتہائی زیادہ خطرے سے دوچار‘‘کے زمرے میں ہے۔ یاد رہے کہ ’’انتہائی زیادہ خطرے سےدوچار‘‘ ممالک میں بچوں کو ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مہلک خطرات کے ساتھ پینے کے پانی ، صفائی ستھرائی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کی کم یابی جیسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ صورت حال میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بعد از آفت بحالی اور تعمیرنو کا کام کسی بھی صورت میں دو یا چار سال کا نہیں بلکہ طویل المدت ہوتا ہے۔ اس کے لیے دس پندرہ برس کی منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ دنیا میں اب تک اس حوالے سے بہترین کام امریکا میں کیا گیا تھا۔ یہ مثالی کام انہوں نے سول وار (خانہ جنگی) کے بعد کیا تھا۔ بہت سے ممالک اور افراد نے اس سے بہت کچھ سیکھا اور وہ انداز اپنایا ہے۔ شمال اور جنوب کی ریاستوں کے درمیان غلامی ختم کرنے کے معاملے پر شروع ہونے والا جھگڑا خانہ جنگی تک جاپہنچا تھا جس میں امریکا کا جنوبی علاقہ بری طرح تباہ ہوگیا تھا۔
اس خانہ جنگی کے بعد کافی عرصے تک امریکا میں اقتصادی بحران بھی رہا تھا۔ جنوبی علاقہ زراعت کی وجہ سے اہمیت کا حامل تھا۔ تعمیرنو کا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے مسائل کو ان کے علاقے میں جاکر سمجھنے کی کوشش کریں، پھر ان مسائل کی نشان دہی کرکے انہیں حل کرنےکےلیےماڈل بنائیں۔ یوں تحقیق اور لگن کے ساتھ انہوں نے اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی حکومت غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس طرح کا کام کرسکتی ہے۔
دنیا بھر میں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قدرتی آفات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں انتہائی غریب اور نچلے متوسط طبقات کے لوگ سر فہرست ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بحالی کے کاموں میں شفافیت کی کمی اور عام لوگوں کی شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے با اثر افراد بحالی کے لیے ملنے والی رقوم اور امداد کا غلط اور ناجائز استعمال کرتے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر میں 2005ء میں آنے والے قیامت خیز زلزلے اور 2010ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد بھی ایسی شکایات عام تھیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے والوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے لہذا بحالی کے منصوبوں میں ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔