• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندرا گاندھی کا طنز،" دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا"، گونج اعصاب شل رکھتی ہے۔16 دسمبر1971 کی کارروائی رسمی ،20 سالہ سیاسی عدم استحکام ،ریشہ دوانیاں، افراط و تفریط ، اخلاقی گراوٹ، مالی بد عنوانیاں سب کچھ موجود تھا۔ نظریاتی مملکت کا تتر بتر ہونا دیوار پر کندہ تھا۔

تاریخِ انسانی کا نچوڑ ، سیاست کا تعلق فہم و فراست، تدبر اور عاقبت اندیشی سے ہے۔غزوہ اُحد کے موقع پررسالت مابﷺ کی تدبیر پر عمل نہ ہوا ، انسانوں کا بہترین لشکر پسپا ہونے پر مجبورتھا۔ محسن انسانیت ﷺکی ذات مبارکہ دنیاوی معاملات میں حکمت، تدبر،عاقبت اندیشی اور فہم و فراست کی معراج ہی تو تھی۔میثاق مدینہ، بیعت رضوان ، صلح نامہ حدیبیہ ، فتح مکہ، غزوہ اُحد سے غزوہ تبوک، بادشاہوں کو خطوط، ہر جگہ دانش مندی ، تدبیر ، حکمت عملی ، فہم و فراست کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

اللہ تعالی کا نظام، اپنے حکمت و تدبر سے مالا مال باغیوں ، سر کشوں کو بھر پوراور طویل عرصہ اقتدار سے مستفید رکھا ۔دوسری طرف اللہ کے بہترین بندے حکومت، سیاست میں ناکام رہے ، جنگیں ہاریں کہ فریق مخالف کی حکمت و فراست بہتر تھی۔ دیانت ، صداقت ، شرافت اسلام سے باہر بھی موجود، قوموں اور ریاستوں کے بناؤ اور بگاڑ میں ہمیشہ بنیادی رول ہے۔"جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا" ، برسوں پہلے دیدہ ورنابغہ روزگار حرف بہ حرف نشاندہی کر رہے تھے، بے سود گئیں۔جو لوگ مؤثر تھے وہ اپنے مفادات اوراپنی اپنی ذات کے سحر میں جکڑے تھے۔ کچھ کے حصہ میں اقتدار اورکچھ کے قبضہ استبداد میں وطنی سیاست تھی۔سب کے قومی مفادات اُن کی ذات کے زیر نگیں تھے۔رہنما اُصول ایک ہی،" اگر ہم نہیں تو کوئی دوسرا یا مملکت بھی نہیں" ۔ نتیجتاً مملکت تو دو لخت ہوگئی جبکہ ایسے سارے کردار آج بھی مختلف صورتوں میں موجود ہیں ۔ہزاروں قومیں اور مملکتیں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں، تاریخ کے جھروکوں سے چند مثالیں،قبل مسیح روم کی دل دہلا دینے والی آگ حرف بہ حرف محفوظ ، حکمران نیرو (NERO) 20کلومیٹر کے فاصلے پر قائم شاندار محل میں اپنی بنسری اور داشتائوں سے دل بہلا رہا تھا ۔ ہلاکو خان 1258 میں بغداد میں داخل ہوا تو عباسی حکمران ابو احمد عبد الله المستعصم بالله (Al-MUST`ASIM Bi-llah) نرم و گداز قالینوں اورہیرے جواہرات کے ڈھیر پر بیٹھا زندگی کے مزے لوٹ رہا تھا ۔منگولوں نے خلیفہ کو انھی دبیز قالینوں میں لپیٹ کرگھنٹوں گھوڑے کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا ، اذیت ناک موت سے دوچار کیا۔

اسپین میں مسلمانوں کے8 سو سالہ دور، ایک ہی ہلے میں نام و نشان مٹا دیا گیا۔حکمراںابو عبداللہ میلوں پھیلے محل میں اپنی ذات میں گم تھا ۔ مغلیہ سلطنت کی شکست و ریخت کی کہانی محمد شاہ رنگیلا کے دورسے شروع ہوئی تو آخری باب بہادر شاہ ظفر کا بھیانک انجام تھا۔محل میں گزری آخری رات شہنشاہ ہند نے مشاعرہ کی نذر کر دی۔ مضبوط ترین عالمی طاقت 600 سالہ سلطنت عثمانیہ کا اختتام، ٹوٹ پھوٹ ایک عرصہ سے جاری تھی ۔بگاڑ کی وجوہات، تباہ حالی قوموں سے ملتی جلتی، انجام بھی انہی جیسا تھا۔ درج چند مثالوں میں افراط و تفریط ، بغاوتیں ، صوبائی، قومی، علاقائی عصبیتیں، حکمرانوں کے ذاتی مفادات، اغراض و مقاصد جیسی خرافات موجود تھیں۔چنانچہ قانونِ فطرت ایسی ساری اقوام کی تباہ حالی کے لئے یکساں رہا۔

کیسے مان لوں کہ آج کا پاکستان شر سے بچ پائے گا۔ تباہی و بربادی کے سارے اجزائے ترکیبی اپنے آپ کو دُہرارہے ہیں ۔ کیا آج پھر وطن کا امتحان مقصود ہے ؟موجودہ حالات کا ذمہ دار عمران خان نہ نواز شریف۔ عمران خان سیاسی ردی کا حصہ بننے کو تھا کہ کاریگروں نے ڈینٹنگ، پینٹنگ، اوورہالنگ کر کے لانچ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 2014 میں " سیاست نہیں، ریاست بچاؤ" سے شروع سفر 2018 کے RTS الیکشن کا اختتام عمران حکومت پر منتج ہوا۔ آج کے حالات کی بنیاد بنا۔ یقینا عمران خان مستفید ہوئے کہ ایک سیاسی چہرہ اور مہرہ ایسوں کی اشد ضرورت تھی۔

گو اسٹیبلشمنٹ دلجمعی سے عمران خان کی کرپشن سے لے کر اخلاقی معاملات پر آڈیو، ویڈیو اور دیگر لوازمات پیش کر رہی ہے۔ بہت سارے ہنر آزما کر بھی خاطر خواہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ اقتدار سے علیحدگی پر عمران خان کی مقبولیت 7 فیصد سے اُٹھ کر ساتویں آسمان پرجا پہنچی۔ اپوزیشن کی SLOT جیسی سہولت ، جلسے جلوس ، ضمنی الیکشن ، پنجاب حکومت کی اُکھاڑ پچھاڑ سب کچھ عمران خان کی سیاست کو چار چاند لگا گئے ۔ آج کی صورتحال ، اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ حکمراں اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے نہ پائے رفتَن نہَ جائے ماندَن۔میرا گمان ، وفاقی حکومت ، پرویز الٰہی، سبطین خان، دیگر چنداور بھی، در پردہ طاقتورحلقوں سے مُک مُکا کرچکے ہیں۔چنانچہ اسمبلیاں بھی تحلیل ہوتی نظر نہیں آتیں۔عمران خان کے پاس سیاست چمکانے کا بے شمار مواد موجود ہے۔ قانونی موشگافیوں کے تناظر میں 3/4 مہینے جنگ و جدل کا ماحول عمران خان کو موافق رہے گا ۔ اس کی سیاست کو زندہ رکھے گا۔ امکان یہ بھی ہے کہ عمران خان خود بھی FACE SAVING اور قومی اسمبلی میں واپسی کیلئے شاید آن بورڈ ہوں۔

اسمبلیاں تحلیل ہوں یا نہ ہوں ، فی الحال میڈیا اور سیاست دونوں عمران خان کے رحم و کرم پر ہیں۔ہر دو صورتوں میں ریاست کو مزید متاثر ہونا ہے ۔ مملکت جانکنی کے عالم میں ، سیاسی، اقتصادی بحران اور دہشت گردی نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہو، معاشی بحران یادہشت گردی، ہر وہ عمل جو ریاست کو ڈھیر کرنے میں ممد و معاون ، عمران خان کے جذبہ،ولولہ اورجوش کو تحریک دے رہا ہے، بڑھ رہا ہے۔عمران خان اور پارٹی رہنما نے معاشی بحران اور سیاسی انتشار پھیلانے میں پہلے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑرکھی ۔قومی بد قسمتی ،ریاست کا بگاڑ، عمران خان سیاست کی جان بن چکا ہے ۔ کیا ریاست ایسے ابتر حالات سے نبرد آزما ہو پائے گی ؟ کیا ریاست جس دلدل میں پھنسی ہے اس سے نکل پائے گی ؟ اگرچہ میرے پاس جواب موجود مگر ناخوشگوار چنانچہ اپنے تک ہی محدود رکھوں گا۔

مملکت کی افراط و تفریط ، صوبوں میں منافرت سیاسی ، اقتصادی ، لا اینڈ آرڈر، درجنوں بحران ، کیا ریاست متحمل ہو پائے گی؟ نبردآزما ہو سکے گی؟ اس مختصر زندگی میں مملکت کو دوسری دفعہ زندگی و موت کی کشمکش میں دیکھ رہا ہوں ۔کیا اس دفعہ ہمیں کوئی بچا پائے گا؟ حیف ! بچانے والے کردار وں کے مفادات کی ترجیح ان کی ذات کی تزئین و آرائش ، مملکت جائے بھاڑ میں۔ ایسوں کے مفادات ہی تو ریاست کی سلامتی کی ضد ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین