فیض احمد فیض نے کہا تھا ؎ ’’اِس وقت تو یوں لگتا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے.....مہتاب، نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا.....آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حُسن کی چلمن.....اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا.....ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سُنا ہو.....گلیوں میں کسی چاپ کا اِک آخری پھیرا.....شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید.....اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا.....اِک بَیر، نہ اِک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ.....تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا.....مانا کہ یہ سُنسان گھڑی سخت کڑی ہے.....لیکن مِرے دل پہ تو فقط اِک ہی گھڑی ہے.....ہمّت کرو، جینے کو تو اِک عُمر پڑی ہے۔‘‘ بڑے شعراء کا یہی کمال ہوتا ہے کہ اُن کا مخصوص حالات و تناظر میں لکھا گیا کلام بھی آنے والی کئی صدیوں پر منطبق ہوتا ہے اور خصوصاً مُلکِ عزیز کے جو حالات ہیں، حصولِ آزادی کو پون صدی ہو چلی ہے، مگر ’’اِس وقت تو یوں لگتا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔
رواں برس ’’نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر کے بھی چار سال مکمل ہوجائیں گے، مگر دن بہ دن غربت و افلاس، ناخواندگی و بے روزگاری کی دلدل میں دھنستے، ہوش رُبا منہگائی کے عفریت میں جکڑتے (’’دی اکانومسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 43 منہگے ترین ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے) چلےجانے والے عوام نے اب کن خُوش رنگ و خُوش نما وعدوں، دعووں کے جال میں پھنسنا، سبز باغوں، سنہرے خوابوں کے پیچھے بھاگنا ہے اور پرانے پاپیوں، نئے کھلاڑیوں کو بھی آزمالینے کے بعد اب کسے اپنا ’’نجات دہندہ‘‘ ماننا ہے، ہنوز ایک سوال ہے۔ یا پھر ؎ سب گناہ و حرام چلنے دو.....کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو.....ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی.....یونہی سب بےلگام چلنے دو.....اہلیت کیا ہے میری، چھوڑ اسے.....نام کافی ہے، نام چلنے دو .....تیرے اجداد کے تھے آقا ہم.....خود کو بھی زیرِ دام چلنے دو.....شاہ جائے گا، شاہ آئے گا.....تم رہو گے غلام، چلنے دو۔
عالمی حالات و واقعات پر سرسری نظر دوڑائیں، تو سال کا آغاز ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہائوس سے رخصتی اور نئے امریکی صدر، جوبائیڈن کی تقریبِ حلف برداری سے ہوا۔ گرچہ سال 2020ء ہی سے کورونا ویکسینز کی تیاری کی نوید سُنائی جارہی تھی، لیکن 2021ء میں جس طرح یکے بعد دیگرے 5 ویکسینز مارکیٹ میں آئیں اور پھرجس تیزی سے دنیا بھر میں ویکسی نیشن کا عمل شروع ہوا، وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔
جی سیون ممالک کی چین اور روس کے خلاف صف آرائی، بعد ازاں سال کے اختتام پر امریکی صدر جوبائیڈن اور چینی صدر، شی جن پنگ کی ساڑھے تین گھنٹے کی ورچوئل میٹنگ، جرمنی کی خاتونِ آہن، چانسلر انجیلا مرکل کی بھرپور سیاسی کیریئر کے بعد، سیاست سے کنارہ کشی، سوڈان، میانمار میں فوجی بغاوت، لگ بھگ چار سال بعد خلیجی ممالک سے قطر کے روابط کی بحالی، سعودی عرب کی مسلسل بڑھتی ’’روشن خیالی‘‘، مریخ اور خلائی سائنس میں سائنس دانوں کی اہم کام یابیاں، مراکش میں حکمران جماعت کی شکست، ایران کے صدارتی انتخابات میں ابراہیم رئیسی کی فتح، اسرائیلی وزیرِاعظم کے پہلی بار عرب امارات کے دورے اور اسرائیل کی عین رمضان المبارک اور عید الفطر کے ایّام میں غزہ پر شدید بم باری، خواتین، بچّوں سمیت 250 افراد کی شہادتیں، نیز، افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے، کینیڈا میں ایک جنونی شخص کے چار پاکستانیوں کو ٹرک تلے کچلنے اور فرانسیسی صدرکوسرعام تھپّڑ پڑنے جیسے واقعات سے سال 2021ء کا منظر نامہ مجموعی طور پر کبھی دھندلایا، تو کبھی جگمگایا۔ مگر.....
مُلکی حالات و واقعات پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے یا عمیق نگاہی سے تجزیہ ہو، دونوں صُورتوں میں خال ہی کہیں روشنی کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہے۔ سال کا آغاز 9 جنوری کو بجلی کے مُلک گیر بریک ڈائون سے ہوا، جس سے ملک کا لگ بھگ 90فی صد حصّہ تاریکی میں ڈوب گیا اور پھر اس تاریکی سے کیسی کیسی افواہوں نے جنم نہیں لیا۔
متنازع ضمنی انتخابات، پی ڈی ایم کے جلسے جلوس، حکومت، اپوزیشن کے ایک دوسرے پر ناشائستہ الزامات، سینیٹ انتخابات میں بدترین ہارس ٹریڈنگ، آزاد کشمیر کے انتخابی جلسوں میں انتہائی اخلاق باختہ تقاریر، سیاسی پلیٹ فارمز سے ذاتی حملے، بدزبانی، بداخلاقی، سال بھر مختلف اداروں، تنظیموں کے متاثرین، عوام النّاس کے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے، دھرنے، احتجاج، تحریکِ لبیک پاکستان کاطویل دھرنا، جواباً پُرتشدد کارروائیاں، بعدازاں مطالبات کی منظوری،گھوٹکی ریل حادثے میں 70 کے قریب ہلاکتیں، پولیو ورکرز پر حملے، تخریب کاری کے واقعات، اسٹریٹ کرائمز کا خصوصاً کراچی میں نہ رکنے والا سلسلہ، تعمیرات کی تو اب کسی کی پسلی ہی نہیں ہے، ہاں تجاوزات کے نام پر بسی بسائی عمارات ڈھانے کی کارروائیاں، صوبائی اسمبلیوں میں مستقلاً اُکھاڑ پچھاڑ، بیڈ گورنینس، قومی اسمبلی میں تاریخ کی بدترین ہنگامہ آرائی، ہلڑ بازی، دھینگا مشتی، ٹی وی ٹاک شوز تک میں مار کٹائی، جوتم پیزار، پھر ایک سے بڑھ کر ایک شرم ناک آڈیوز، ویڈیوز کا لیک ہونا، نورمقدم قتل کیس، مینارِ پاکستان المیہ اوربےلگام ہجوم کےہاتھوں سری لنکن شہری کی الم ناک ہلاکت… ایک سے بڑھ کر ایک ذلّت آمیز، باعثِ شرم و ہزیمت واقعہ۔
دنیا کی دیکھا دیکھی اور کچھ دوست ممالک کی عنایت کردہ ویکسین لگانے کا فوری آغاز نہ ہوتا، پولیو کیسز میں ناقابلِ یقین کمی نہ آتی اور پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کو بدترین شکست سے دوچار نہ کرتا، تو پورے سال کے دامن میں علاوہ ناکامیوں، رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کےدھرا ہی کیاتھا۔ ہاں، سال کےاختتام پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا ایک غیر معمولی اجلاس بھی ہوا، جس کا بنیادی ایجنڈا افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد جنم لینے والا انسانی و معاشی بحران تھا کہ اب مغربی دنیا کی تو اِس میں کچھ خاص دل چسپی رہی نہیں، لیکن ہمارے سَروں پر یہ تلوار لٹکتی ہی رہے گی۔ اور.....ان سب بےاعتدالیوں، بداعمالیوں کے ساتھ پورا سال مُلک کے 22 کروڑ عوام کی جس ایک لفظ پر وقتاً فوقتاً دل دوز چیخیں نکلتی رہیں، جس نے اچھوں اچھوں کی کمر توڑ کے رکھ دی، وہ تھا، ’’منہگائی‘‘۔ مانا کہ کورونا نے بھی کچھ غضب ڈھایا، مگر درحقیقت سارا کمال نااہل، نالائق اورناکارہ قیادت کا ہے اور یہ بات تو اب پی ٹی آئی کے اُن تمام سپورٹرز کو بھی بہت اچھی طرح سمجھ آگئی ہے، جنہوں نے پچھلے ساڑھے تین سال سے آنکھیں، ناک، کان سب بند کر رکھے تھے۔
کے۔ پی کے بلدیاتی انتخابات کا دھکّا یوں ہی نہیں لگا۔ مگر وہ قتیل شفائی نے کہا تھا ناں کہ ؎ ’’وعدئہ حور پہ بہلائے ہوئے لوگ ہیں ہم.....خاک بولیں گے کہ دفنائے ہوئے لوگ ہیں ہم.....یوں ہر ایک ظلم پہ دَم سادھے کھڑے ہیں.....جیسے دیوار میں چُنوائے ہوئے لوگ ہیں ہم.....جس کا جی چاہے، وہ انگلی پہ نچالیتا ہے.....جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم.....ہنسی آئے بھی تو ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے.....زندگی!یوں تیرے زخمائے ہوئے لوگ ہیں ہم.....آسماں اپنا، زمیں اپنی، نہ سانس اپنی تو پھر.....جانے کس بات پر اترائے ہوئے لوگ ہیں ہم.....جس طرح چاہے بنالے ہمیں وقت قتیل.....درد کی آنچ پہ پگھلائے ہوئے لوگ ہیں ہم۔‘‘ تو بس، ایسے ہی کچھ لوگ ہیں ہم۔
پھر سالِ رفتہ کیسی کیسی نابغۂ روزگار ہستیاں ہم سے جُدا نہیں ہوئیں۔ محسنِ پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، محبّ وطن پاکستانی، سیّد علی شاہ گیلانی، معروف عالمِ دین، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، ڈاکٹر صفدر محمود، نصیر ترابی، حسینہ آپا، فاروق قیصر، عُمر شریف اور مشاہد اللہ خاں جیسی ہستیاں داغِ مفارقت دے گئیں، تو کچھ نئے جوڑوں، شادی بیاہ کی تقریبات کا بھی خاصا شور ہنگامہ رہا۔
شوبز اسٹارز کی تو جوڑیاں بنتی، ٹوٹتی ہی رہیں، مگر بختاور بھٹو کی شادی، ملالہ یوسف زئی کےنکاح اور مریم نواز شریف کے صاحب زادے، جنید صفدر کی شادی کی تقریبات (اور اُن میں مریم نواز شریف کی آرایش و زیبایش اور حسن و جاذبیت کےچرچوں) نےخُوب رونق لگائی۔ چینلز کو مال مسالا مل گیا، تو عوام کو بیٹھکوں میں گفتگو کا موضوع۔ بہرحال قصّہ مختصر، جیسے تیسے، روتے ہنستے سال 2021ء بھی تمام ہوا اور اِس کے ساتھ، اِس سے وابستہ تمام تلخ و شیریں یادیں بھی قصّۂ پارینہ ہوئیں۔
اب بات کرلیتے ہیں، اپنے سنڈے میگزین کے ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کی۔ مُلکی حالات کی ابتری کا رونا ہم نے یوں نہیں رویا، میڈیا انڈسٹری کے حالات ہنوز ’’بدترین‘‘ ہیں، مگر.....وہ ہے ناں ؎ مِری تعمیر میں مضمر ہے، اِک صُورت خرابی کی، تو اس ’’بحران اسپیشلسٹ حکومت‘‘ نے ہمیں بھی بحرانوں میں جینے، اُن سے نمٹنے کا سلیقہ سکھا دیا ہے۔
اب ہم واویلا کرنے کے بجائے ’’سمجھوتا‘‘ کرنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ اور ہمارا یہ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ (حصّہ اوّل) اِسی سمجھوتے کا عکس ہے کہ ابتداً سو، ڈیڑھ سو صفحات سے آغاز ہونے والا یہ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ سُکڑ، سمٹ کے اب محض 24 -28 صفحات تک محدود ہوگیا ہے، لیکن ہم نے بہرحال حسبِ روایت اور آپ کے حسبِ توقع ایک بار پھر اپنا ’’بہترین‘‘ ہی تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
دو تین حصّوں کی شکل ہی میں سہی، آپ کے پاس لگ بھگ تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق، سالِ رفتہ کی ایک پوری دستاویز موجود ضرور ہوگی۔ آپ چاہیں تو اِسے یک جا کرکے ایک فائل کی صُورت بھی محفوظ کرسکتے ہیں۔ ہاں، مگر یاد رہے، ان تمام تر صفحات میں پیش کردہ حقائق، اعدادو شمار 24دسمبر 2021ء (شمارہ پریس جانے تک) کے ہیں۔
ڈاکٹر شاہدہ حسن کے سالِ نو کی مناسبت سے کچھ دل نشیں جذبات و احساسات کے ساتھ کہ ؎ تسلسل خُوب صُورت ہے، روانی خُوب صُورت ہے..... بدلتے وقت کی ساری کہانی خُوب صُورت ہے..... نظامِ زندگی کے باب میں ہم کچھ نہیں کہتے.....بس اتنا جانتے ہیں، زندگانی خُوب صُورت ہے.....نگاہِ شوق کہتی ہے، طلوعِ صُبحِ فردا سے.....لباسِ خاک، رنگِ آسماں خُوب صُورت ہے.....چلو، تازہ ورق پر اپنی مرضی سے لکھیں سب کچھ.....بجائے خوف کے، ہر خُوش گمانی خُوب صُورت ہے.....وہ جس کے رُوبرو چہرے جُھکے ہیں، گردنیں خم ہیں.....بس اُس کا رحم، اُس کی مہربانی خُوب صُورت ہے۔ آپ سب کو سالِ نو مبارک ہو۔
نرجس ملک
ایڈیٹر،
جنگ، ’’سن ڈے میگزین‘‘