زیست تکرارِ نفس ہو جیسے
صرف جینے کی ہَوس ہو جیسے
صحنِ گلشن میں بھی جی ڈرتا ہے
سایۂ گل میں قفس ہو جیسے
ترکِ الفت کی قسم کھاتے ہیں
دل پہ انسان کا بس ہو جیسے
وہی رفتارِ مہ و سال ہنوز
وقت، خاموش جرس ہو جیسے
واقعی، سال 2018ء قصّۂ پارینہ ہوگیا، لیکن مہ و سال کی چال ڈھال، روش، رفتار بدلی اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں کچھ بدل سکا۔ گرچہ ’’تبدیلی، تبدیلی، تبدیلی‘‘ کا ایسا رولا پڑا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہ دیتی تھی، مگر عملاً عوام کے لیے کیا تبدیل ہوا۔ ایوانِ صدر، گورنر ہائوسز کے دروازے کُھلنے، دیواریں گرنے، پی ایم ہائوس کو یونی ورسٹی میں بدلنے، مہنگی گاڑیوں، بھینسوں، کٹّوں کی خرید و فروخت اور انڈے، مرغی فارمولے سے ایک عام شخص کے طرزِ زندگی پر بھلا کیا فرق پڑے گا۔
جس طرح سالِ گزشتہ عام آدمی نے دنیا بھر سے رشین، برازیلیئن صدر کے انتخاب، چین، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا، امریکا کےصدور کی ملاقاتوں، مہاتیر محمّد کی سیاست میں دوبارہ آمد، فائنل بریگزٹ ڈیل مارچ، امریکی مِڈٹرم الیکشن، فُٹ بال ورلڈ کپ، ناسا مشنز، ماحولیاتی تبدیلیوں کےلیے ہونےوالی کانفرنس، ایران پر امریکی پابندیوں، جمال خاشقجی کے قتل، سعودی قوانین میں اصلاحات اور پرنس ہیری، میگھن مارکل کی شادی کے بعد ایشا امبانی، دیپکا اور پریانکا چوپڑا کی مہنگی ترین شادیوں کی بڑی بڑی تقریبات کی خبریں سُنیں، دیکھیں، کچھ پہ رنجیدئہ خاطر، کچھ سے محظوظ ہوا، ایسا ہی ردّعمل مُلکی منظر نامے کی سیاہ اسکرین پر اُبھرتے، ڈوبتے، جلتے بُجھتے رنگوں، روشنیوں، نظاروں، کھیل تماشوں پہ دیکھا گیا(ایک خوشی کی خبر زینب کے سفّاک قاتل کی پھانسی کی صُورت ملی، تو اُس کا کریڈٹ بھی سابقہ حکومت ہی کو جاتا ہے) یہاں تک کہ سال بھر جن الفاظ کی بازگشت سماعتوں پر ہتھوڑے کی طرح برستی رہی، اُن میں بھی کچھ خاص نیا پَن نہیں تھا۔
وہی نوٹس، ایکشن، سوموٹو، کارروائی، دھاندلی، خلائی مخلوق، غیر مُلکی/ آہنی ہاتھ، بیانیہ، تبدیلی، انقلاب، الیکٹیبلز، اسکینڈلز، ٹوئٹس، ٹرینڈز، ہیش ٹیگز، جیالے، پٹواری، انصافیے، یوتھیے اور یوٹرن۔ عوام النّاس کو پچھلے ستّر، اکہتّر برسوں سے جن روایتی وعدوں، دعووں کا لولی پاپ دے کے بہلایا جارہا ہے، سالِ گزشتہ بھی اس پر محض نام نہاد ’’تبدیلی‘‘ کا رنگین ریپر ہی چڑھایا گیا، اندر سے وہی کچھ نکلا، جو برسوں سے عوام کا مقّدر ہے۔
سال 2018ء پاکستان کے لیے اس اعتبار سے اہم تھا کہ یہ بہ ظاہر الیکشن ایئر، جمہوریت کے تسلسل (مُلکی تاریخی میں لگاتاردوسری بار ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقلئ اقتدار) کا سال تھا۔ انتخابات پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے تحفّظات، ’’قومی احتساب بیورو‘‘ (نیب) کی احتساب کے نام پر لگائے جانے والے سرکس، یک طرفہ ریفرنسز، کارروائیوں، فیصلوں، اختیارات کے غلط استعمال، اداروں کے کام میں غیر ضروری مداخلت کی باتیں ایک طرف، کنٹینروں سے مچائے جانے والے دھاندلی کے شور سے، تبدیلی کے نعروں کی گونج میں، کام یاب انتخابی سفر کی آخری منزل، شیروانی پہن کے حلف اُٹھالینے تک عوام کو ایسےایسےسرسبز و شاداب باغوں کے نظارے کروائے گئے کہ حامی تو حامی، ووٹر تو ووٹر، مخالفین کو بھی کبھی خوابوں میں، تو کبھی جاگتی آنکھوں سے بھی کرپشن کی دلدل سے ایک ’’نیا پاکستان‘‘ ہی اُبھرتا نظر آرہا تھا۔
مگر.....آنکھ کُھلی، تو کیا بدلا۔ مانا کہ سو، ڈیڑھ سو دِنوں میں، جنموں کا گند صاف نہیں ہوتا، لیکن یہ ایک سو دِنوں کا لارا لپّا بھی تو خود صاحبانِ اقتدار کے اپنے ہی منشور کا حصّہ تھا، کوئی عوام کا مطالبہ تو نہیں۔ ایّام کی اِس سینچری میں اگر چلے ہوئے کارتوسوں کی اقتدار میں شمولیت، دوستوں پرنوازشات، غیرمُلکی سرکاری دَوروں، آئی ایم ایف سے رجوع، امداد کے لیے گُھٹنے ٹیکنے، مہنگائی بم گرانے، ڈی پی او، پاک پتن/ آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیسز، پہلے مذہبی سیاسی جماعتوں کو سخت تنبیہ، پھر مصالحت، پھر گرفتاری، سو روزہ نام نہاد کارکردگی پر وزراء کو شاباشی، تشہیری مہم (ہم مصروف تھے) اور سب سے بڑھ کر میڈیا پر کنٹرول جیسے بائونسرز پھینکے، یُوٹرنز نہ لیے جاتے، تو بھی کچھ بات بن جاتی۔ عوام مزید سو، دو سو روز تو کیا شاید ہمیشہ کی طرح یہ عرصۂ اقتدار بھی صبر کے ٹھنڈے گھونٹ، آہیں بھرتے گزار دیتے، مگر ضد تو یہ ہے کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے‘‘۔
سبزباغوں کا رنگ بدلنے ہی میں نہیں آرہا۔ اب بھی وہی کرپشن، کرپشن کا راگ، وہی مظلومیت، وہی رونا دھونا، وہی بے اختیاری کی باتیں (خاتونِ اوّل کو وزیراعظم ہونے کا یقین دلانا پڑتا ہے) اپوزیشن کے بغیر اور ریاست کے سب ستونوں کے ایک پیج پر ہونےکےباوجود بھی حکومت کرنا مشکل ہورہا ہے۔ معروف تجزیہ کار، ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق ’’وزیراعظم عمران خان کے بقول، وہ 22سال تک پاکستان اوراُس کےمسائل کے بارے میں سوچتے رہے، تو انہوں نے کچھ تو سوچا ہوگا۔ کم از کم اب تک تو اُن کی کوئی ایک ایسی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی، جس سے اندازہ ہو کہ انہوں نے حکومت کے لیے کوئی تیاری، کوئی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
2018ء سے قبل مُلک میں نو عام انتخابات ہوئے، جن کے بعد بننے والی کسی بھی حکومت نے الیکشن سےپہلےکیے وعدے پورے نہیں کیے اور موجودہ حکومت بھی یہی کررہی ہے، تو صرف کرپشن، کرپشن کے شور اور سابقہ حکومتوں پر تنقید سے کوئی حکومت کام یاب نہیں ہوسکتی۔‘‘ وہ جو کہتے ہیں ناں ’’پُوت کے پائوں پالنے سے نظر آجاتے ہیں‘‘ تو پیر دیکھ کے تو فی الحال بَروا کے ’’ہونہار‘‘ نکلنے کے کوئی خاص آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.....؟؟
مُلک کی معاشی ابتری کا اندازہ روز افزوں بڑھتی مہنگائی کے علاوہ آپ اخباری صنعت کے مسلسل بحران سے بھی لگاسکتے ہیں۔ نہ جانے کتنے اخبارت و جرائد بندہوئے۔ سیکڑوں کارکنان بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ورکرز کو چار چار ماہ سے تن خواہوں کی ادائیگی نہیں ہو پارہی اور یہ جو ہم 80,60یا 100صفحات کے ضخیم ’’سال نامے‘‘ کی بجائے، آج اِن چند صفحات کے ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کے ساتھ حاضر ہیں، تو یہ بھی اِسی معاشی بدحالی ہی کا شاخسانہ ہے، وگرنہ ہماری محنت و استقامت میں کوئی کمی آئی ہے، نہ ہمّت و حوصلہ پست ہوا ہے۔
قلم سے جہاد کرنے والوں کے لیے دَور تو کوئی بھی آسان نہیں ہوا کرتا۔ مشکلات تو سہنی ہی پڑتی ہیں۔ وہ کیا ہے ناں کہ ؎ جادئہ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں.....مَر کے رہ جاتا ہے فن کار امر ہونے تک.....چند ذرّوں ہی کو ملتی ہے ضیائے خورشید.....چند تارے ہی چمکتے ہیں سحر ہونے تک.....دلِ شاعر پہ کچھ ایسی ہی گزرتی ہے فگار.....جو کسی قطرے پہ گزرے ہے، گہر ہونے تک۔
تو تمام تر مسائل و مشکلات کے باوجود ہم نے تو اپنے طور پر بھرپور سعی و کوشش کی ہے کہ ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اِس ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کو بھی قارئین کی توقعات کے عین مطابق ہی ترتیب دیں اور اِس کوشش میں بہت حد تک کام یاب بھی رہے۔ گرچہ یہ ہلکا پھلکا سا جریدہ آپ کے اور ہمارے شایانِ شان نہیں، لیکن بے فکر رہیں، آپ کو دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہماری بھرپورتجزیاتی رپورٹس اگلے ایڈیشنز میں ملتی رہیں گی، تاوقت یہ کہ آپ کی مکمل تسلّی نہ ہوجائے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اس بار آپ کو ’’سال 2018ء کی دستاویز‘‘ کے طور پر ایک نہیں، تین، چار جریدے کھنگالنے، سنبھالنے ہوں گے۔ لیکن خیر ہے، ہم اور آپ ایک دوسرے سے الگ تھوڑا ہی ہیں۔ سجن، دشمن کی اصل پہچان تو ہوتی ہی کڑے وقت میں ہے۔ اور پھر اخبار کا وجود، زندگی تو ہے ہی قارئین کے دَم قدم سے۔ آپ ہیں، تو ہم ہیں۔ آپ ساتھ نہیں، تو ہم لاکھ خوش حال ہوکر بھی کچھ نہیں۔
گزشتہ کئی برس سے ہر سالِ نو کے موقعے پر آپ سے خصوصی استدعا ہوتی ہے کہ اس اہم ایڈیشن کے مطالعے کے دوران ہماری کوئی نادانستہ غلطی، خامی، کوتاہی نظر سے گزرے، تو درگزر کے ساتھ نشان دہی کیجیے گا اور اگر کچھ سیکھیں، حاصل کریں، پائیں، خوش ہوں تو داد کے ساتھ ’’جہاد بالقلم‘‘ کے رستے پر گام زن اس ادارے ’’جنگ گروپ‘‘ کی بقا و سلامتی اور فلاح و ترقی کے لیے ہاتھ بھی ضرور اٹھائیے گا۔ اور اس برس تو یہ دُعا کچھ اور بھی دل سے بلکہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مانگنے کی ضرورت ہے۔
ہماری طرف سے اس دُعا کے ساتھ ’’سالِ نو‘‘ کی مبارک باد قبول کیجیے ؎
صحرائے لاحدود میں تِشنہ لَبی کی خیر
ماحولِ اشک بار میں لب کی ہنسی کی خیر
لفّاظ سارے بن گئے، شاہِ سخن یہاں
صادق سخن وَروں کی سخن پروری کی خیر
ارزاں ہے مشتِ خاک سے انسان کی حیات
تہذیبِ قتل و خون میں، اب زندگی کی خیر
جمہوریت کی لاش پہ طاقت ہے خندہ زن
اس برہنہ نظام میں ہر آدمی کی خیر
مغرب سے آگئی یہاں تہذیبِ برہنہ
مشرق!تِری روایتی پاکیزگی کی خیر
اندھے پرکھ رہے ہیں یاں معیارِ روشنی
دیدہ ورِ ہنر، تِری دیدہ ورَی کی خیر
نرجس ملک
ایڈیٹر،
جنگ، ’’سن ڈے میگزین‘‘