• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی بی محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی یادیں سائے کی طرح ہمارے ساتھ رہتی ہیں، میں نے انہیں ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مارشل لا کیخلاف طویل جدوجہد کرتے، جیلیں کاٹتے اور دومرتبہ وزیرِاعظم بننے کے بھی مراحل سے گزرتے دیکھا ہے، شہید بی بی نے شاید ہی کوئی سکھ کا سال دیکھا ہو، نوجوانی میں اپنے والد کو شہید ہوتے دیکھا، پھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ضیاالحق جیسے آمر سے لڑتے ہوئے ثابت کیا کہ ایک عورت کتنی مضبوط اور طاقتور ہو سکتی ہے۔ شہیدبینظیربھٹو 1988میں وزیراعظم بنیں تب بھی ان کیلئے مشکلات کا دور ختم نہ ہوا تھا، ان کے ہزاروں کارکنان تب بھی جیلوں میں قید تھے، ان سے کہا جارہا تھا کہ فلاں جیالے کو وزیر اعظم ہائوس سے دور کردیں، فلاں کسی ملک کے لئے کام کررہا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن بات یہاں ختم نہ ہوئی تھی، بینظیر بھٹو شہید وزیر اعظم تو بن گئیں لیکن ملک کے ادارے انھیں وزیراعظم قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کے خلاف بھرپور سازشیں تو 77 سے ہی ہو رہی تھیں لیکن وزیراعظم بننے کے بعد بھی یہ سازشیں ختم نہ ہوئیں، ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کو شہید بینظیر بھٹو کے خلاف استعمال کر کے پیغام دیا گیا کہ وہ جب چاہیں انھیں وزیر اعظم ہائوس سے نکال باہر کرینگے اور پھر یہی ہوا 1990میں ان کی پہلی حکومت ختم کردی گئی۔

شہید بی بی کا اقتدار ختم کرنے والی قوتیں یہ نہیں جانتی تھیں کہ انھیں وزیر اعظم ہائوس سے تو باہر کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کے دلوں سے نہیںنکالا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ 1990ءمیں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو پی پی پی کو شکست دینے کے لئے بھرپور طریقے سے مہم چلائی گئی، سرکاری پیسہ خرچ کیا گیا، مہران بینک جیسے اسکینڈل بھی ہمیں دیکھنے کو ملے، یہ دھاندلی سے بھرپور انتخابات تھے، جس کا نشانہ پی پی پی کو بنایا گیا، پھر اس دھاندلی کا کیس عدالت بھی گیا اور دنیا نے دیکھا کہ عدالتوں میں کیا ہوا، خیر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ 1990ءکے انتخابات میں شہید بی بی کو شکست دینے کے لئے ہمارے ادارے ایک پیج پر رہے۔ بی بی شہید ایک بار پھر 1994میں وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئیں تو سازشی چہرے تبدیل ہوچکے تھے مگر ان کی سازشیں اور رویہ یکسر وہی تھے، شہید بی بی کو اس دور میں بھی وزیر اعظم ہائوس سے باہر کرنے کیلئے ہر طریقہ اپنایا گیا، بینظیر بھٹو کو اپنے ہی دور میں اپنے بھائی میر مرتضی بھٹو کے قتل کا دکھ بھی سہنا پڑا، اس دور میں کراچی میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں پی پی پی کے کارکنان بھی قتل ہوتے رہے۔حکومت سےایک بار پھر بی بی شہید کو اقتدار سے نکال باہر کیاگیا جس کے بعد وہ 1999ءمیں اپنے بچوں کی وجہ سے جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئیں کیوں کہ ان کی سب سے بڑی طاقت آصف علی زرداری کو جیل میں قید کیا جا چکا تھا اور وہ جانتی تھیں کہ آصف علی زرداری کے ساتھ نہ ہونے سے انکی زندگی کو کن خطرات کا سامنا ہے، انہیں اپنی نہیں اپنے بچوں کی پرواتھی،جب بچے بڑے ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب ان بچوں کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان میں انہیں قتل کردیا جائیگا شہید بی بی نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا، انھیں اندازہ تھا کہ پرویز مشرف انھیں کسی صورت سیاست نہیں کرنے دینگے لیکن انہوں نےکوئی پروا نہیں کی اور پاکستان آگئیں، پرویز مشرف نے شہید بینظیر بھٹو کی جماعت کو توڑنے میں 2001ءسے 2008 ء تک کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور وہ جانتے تھے کہ اگر شہید بی بی پاکستان میں رہیں گی تو ان کو جیل جانا پڑے گا کیوں کہ آئین شکنی جرم ہے اور مشرف پے در پے یہ جرم کر کے قومی مجرم بن چکا تھا۔

بی بی شہید کو ہمیشہ پاکستان کی مقتدرہ نے ناقابل قبول سمجھا اور انھیں قتل کرنے کی کئی بار پلاننگ کی گئی جو ناکام ہوتی رہیں مگر27دسمبر 2007کو دشمن کا وار کامیاب ہوا اور بی بی شہید کو قتل کرکے جائے واردات پر تمام ثبوت مٹانے میں دیر نہ کی گئی مگر امریکہ میں بلاول بھٹو زرداری جو کام کر کے وطن واپس آرہے ہیں اور جس طرح کا ہندوستان میں صف ماتم برپا ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں پھوٹنے والی روشنی ہی عالمی سازشی عناصر سے بی بی کی شہادت کاا انتقام ہے۔بی بی کے قاتل آج بلاول بھٹو زرداری کو عالمی افق پر اس طرح نمودار ہوتے ہوئے یقینی طور پر ماتم کرتے ہونگے کہ جس بی بی کو شہید کردیا گیا و ہ بھی باپ کی طرح امر ہو چکی ہے۔

تازہ ترین