• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ وہ تین الفاظ ہیں جو جب عام آدمی سیاست میں قدم رکھتا ہے تو اس کا تکیہ کلام بن جاتے ہیں۔ پھر اگر اس کو کوئی عہدہ مل جائے تو کیا کہنے۔ جس جس جگہ اس کی جائیداد اور گھر والے ہوں وہ ریڈ زون (خطرہ کی جگہ) بن جاتی ہے۔ پھر اس کی جان، اس کے گھر (چاہیے خالی ہی کیوں نہ ہو)کی حفاظت کے لئےبپولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی جاتی ہے۔ یوں تعینات کئے جانے والے پولیس والے بہت خوش ہوتے ہیں کیوں کہ۔اب کام کم اور آرام زیادہ ہوتا ہے، کھانے کو بھی بہت اچھا ملتا ہے، کوئی سختی بھی نہیں ہوتی، پولیس موبائل کی سب سے اچھی گاڑی ان کے پاس ہوتی ہے۔ اب ذرا سوچیں یہ ایک شخص کی حفاظت کی کہانی ہے ایسے ہی کتنے لوگ ہیں جو "جان کے خطرہ" کے نام پر عوام کے ٹیکس کی کمائی اڑا رہے ہیں اور دولت بھی لوٹ کر ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔ لیکن ملکی ترقی میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ یہ صرف ایک شخص یا ایک خاندان کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی بڑا حکومتی عہدہ ہوتا ہے یا کسی سیاسی جماعت کا بڑا رکن ہوتا بس اس کی " جان کو فورا خطرہ" ہوجاتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف دعویداری ہے کہ "عوام کی خدمت" کے لئے سیاست میں قدم رکھا یا کسی سرکاری ادارے میں اعلی عہدہ صرف اور صرف "خدمت خلق" کے لئے حاصل کیا ہے، تو یہ اشخاص جب "اتنی نیک نیتی" سے عوامی خدمتگار بنتے ہیں تو فورا ان کو کیسے پتا چلتا ہے کہ ان کی "جان کو خطرہ" ہے؟ دراصل یہ خیال فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل میچ کو دیکھنے کے بعد آیا۔ فائنل میچ فرانس اور ارجنٹائن کے درمیان تھا ۔ جس کو دیکھنے کے لئے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون بھی ائے تھے۔ صدر میکرون وہ متنازعہ شخصیت ہے جس کے خلاف تقریبا تمام مسلمانوں کی ایک ہی رائے ہے کہ اس نے ایک شاتم رسول کی حمایت کی تھی۔ فرانس کے صدر کے خلاف پاکستان سمیت بہت سے ملکوں میں احتجاج ہوا تھا، پتلے جلائے گئے تھے۔ لیکن قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں اس کو اکیلا دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ جس طرح وہ اپنی ٹیم کی اکیلے حوصلہ افزائی کررہے تھے "بغیر کسی ہمنوا" کے۔ سوٹ پہن کر آئے تھے گرمی لگی تو خود ہی کوٹ اتار کر رکھ دیا اور قمیض کی آستینیں اوپر چڑھا لیں، کسی خدمتگار کی ضرورت نہیں پڑی۔ پھر جب آخر میں فرانس کی ٹیم ہار گئ، کھلاڑی افسردہ ہوگئے اور رونے لگے تو فرانس کے صدر بغیر کسی گارڈ، فوجی، وزیر، اور خدام کے اکیلے میدان میں آگئے اور روتے ہوئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ کھلاڑی زمین پر جھکے ہیں تو نیچے بیٹھ کر کھلاڑی کو اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں یا ہمت بڑھا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔کیا اس وقت فرانس کے صدر کوئی خطرہ نہ تھا؟ جب کہ وہ خود ایک مسلم ملک میں موجود تھے جہاں دنیا بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے کوئی ردعمل آسکتا تھا۔ اس نے کوئی پرواہ نہ کی نہ لوگوں کو کہا کہ مجھے گھیرے میں لے کر چلو، کچھ بھی نہ کہا کیوں کہ اس کے لئے اپنے ملک کے کھلاڑی اور ان کی حوصلہ افزائی زیادہ اہم تھی۔ حکمرانی اصل میں خدمت کا نام ہے نہ کہ "ہمارے حکمرانوں کی طرح بادشاہ سلامت بنے کا"۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جو بھی حکمرانی کرنے آئے بادشاہت کی خواہش لے کر آئے، پاکستان کو سونے کی چڑیا سمجھا، خوب مال لوٹا، خوب مال لٹایا اپنی حفاظت کے نام پر کیوں کہ تبھی تو "بادشاہت کا ٹچ" آتا ہے۔ اگر ان حکمرانوں، سیاستدانوں اور سرکاری اداروں کے اعلی عہدیدار کی حفاظت پر ہونے والے خرچ کا حساب لیں تو اندازہ ہوگا کہ ملک پہ جتنا قرضہ ہے اس سے کہیں زیادہ رقم تو ان "بے فیض لوگوں" کی "فرضی خواہش"(جان کو خطرہ) پہ ضائع کردی گئی۔ اس سے کہیں زیادہ تو عام لوگ بے گنا (ان بڑوں کی فرمائش پہ) قتل کردیئے گئے۔ اور ابھی تک ہوتے جارہے ہیں۔ لطف اور ساتھ ساتھ دکھ کی بات یہ ہے کہ جب یہ سارے "بادشاہ سلامت" معاف کیجئے گا صرف "پاکستان میں عزت مآب" ملک سے باہر تشریف لے جاتے ہیں تو سڑکوں پہ مارے مارے پھرتے کوئی ان کو پلٹ کر نہیں دیکھتا تب ان کی جان کا سارا خطرہ ہوا بن کر اڑ جاتا ہے۔ مہینوں اور سالوں وہاں گزارتے ہیں کوئی پروٹوکول نہیں چاہئے ہوتا لیکن پاکستان میں قدم رکھتے ہی ان کو اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ چلتے ہیں تو پچیس تیس افراد کے گھیرے میں، بارش ہوجائے یا گرمی ہو رہی ہو تو چھتری کوئی اور پکڑ کر ان کے سر پر تانے رہے، جناب نے خود پکڑ لی تو گناہ ہو جائے گا۔ کہیں سفر کرنا تو ائیر پورٹ میں جہاز تک بیٹھتے بیٹھتے بھی اپنے چھوٹے سے ہینڈ کیری کو ہاتی نہیں لگاتے جب تک جہاز میں تشریف نہ لے جائیں۔ ایک خادم ان کا سامان پکڑے مسلسل چلتا رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی دوسرے ملک پہنچتے ہیں ہینڈ کیری بھی خود اٹھاتے ہیں، امیگریشن میں لائن میں بھی لگتے ہیں، سامان بھی خود ہی باہر لیکر باہر نکلتے ہیں۔ تب "جان کا خطرہ" کہاں چلا جاتا ہے۔ پچھتر سال بہت بے وقوف بنا لیا اور عوام بن بھی گئے اب ختم کیجئے "جان" کا ڈرامہ۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین