• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کہہ دیجئے کہ اللہ یکتا ہے۔ اللہ بے نیاز ہے، نہ ا س سے کوئی پیدا ہوا ہے اورنہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اورنہ کوئی اس کا ہم جنس ہے۔(سورۃ الاخلاص) توحید باری تعالیٰ کا عقیدئہ صافی ابتدائے آفرینش سے ہی کائنات جن و انس کے لئے آزمائش کا ذریعہ اور نجات کا باعث رہا ہے ،کیونکہ یوں تو کائنات کی ہر مخلوق بے چوں و چر ااپنے خالق و مالک کی حمد و ثنا بغیر کسی آمیزش کے اپنے اپنے انداز میں کئے جا رہی ہے۔ 

البتہ انسان اور جن ایسی مخلوقات ہیں جو اپنے خالق کی تخلیق ہونے کے باوجود اس کی ذات و صفات میں اللہ کی دیگر مخلوقات کو اس کا ہمسر اور شریک گردانتی ہیں۔ یہ عقیدئہ توحید ہی خیر و شر‘ کفر و اسلام ‘ جنت و جہنم اور کامیابی و ناکامی کا حد فاصل اور کسوٹی رہا ہے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کو اس کے تمام تر تقاضوں کے ساتھ سمجھا اور جانا وہ تو دنیا و آخرت کی فوز وفلاح سے ہمکنار ہوئے اور جنہوں نے ذات باری تعالیٰ کاانکارکیا ‘یا اللہ کی ذات و صفات میں دوسروں کو بھی شریک ٹھہرایا ،وہ تباہیوں اور بربادیوں کا شکار ہوئے۔

قرآن وحدیث اور تاریخ انسانی کا مطالعہ اس پر شاہد ہے۔ جو قومیں کفر و شرک کے مرض میں مبتلا ہوئیں وہ صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں، ان کی دنیاوی شان و شوکت بھی خاک ہوگئی اور آخرت میں بھی ان کے لئے جہنم مقدر بنادی گئی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ عقیدئہ توحید کا زبان و دل سے اقرار ہی ذریعہ نجات ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لئے تخلیق آدم سے لے کر محسن انسانیت ﷺ کی آخری نبوت تک جس قدر انبیاء و رسل دنیا میں تشریف لائے، ان سب کی دعوت و فکر کا محور ومرکزیہی فلسفہ توحیدرہا۔ سرور عالم ﷺ کی بعثت کے ساتھ اس عقیدئہ توحید پرایمان و ایقان کی حجت کر دی گئی۔

جیسا کہ اوپر بیان کردہ سورۃ الاخلاص میں رب تعالیٰ نے انتہائی وضاحت سے زبان رسالت ﷺ سے کہلوادیا کہ آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اللہ یکتا ہے یعنی وہ اپنی ذات و صفات میں اکیلا ہے اور ان امور میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے، گویا اللہ تعالیٰ نہ صرف اپنی ذات بلکہ صفات عالیہ مثلاً خالقیت ‘مالکیت‘ رزاقیت زندگی دینے اور چھین لینے ‘ قیامت کے دن میزان قائم کرنے‘ حسا ب و کتاب لینے‘ اولاد دینے نعمتوں کے چھین لینے یا ہر طرح کی بھلائیوں و خیرکا عطا کرنے والا ہے اور نظام کائنات کو اپنے حسن و تدبیر سے چلانے میں اسے کسی کی مدد یا اعانت کی ضرورت نہیں‘ اسی طرح نہ اسے کسی نے جناہے اور نہ ہی اس نے کسی کو جنا، گویا نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کی اولاد یا اس کے وجود کا حصہ ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ 

وہ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے ،وہ کسی چیز کا محتاج نہیں، بلکہ سب مخلوقات انسان ‘جنات ‘چرند‘ پرند شجر ‘حجر ‘زمین آسمان ‘ولی پیمبر ‘ فرشتے سارے اس کے محتاج ہیں ‘ وہ ہر چیز پر قادر مطلق ہے ‘کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی۔ وہی غیب کا جاننے والاہے اور کوئی اس کا مشابہ نہیں، وہ مثالوں سے پاک ہے، اس کی کوئی مثل یا نظیر نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ وہ عالم سے جدا ہے وہ سب کا خالق ہے ،اس لئے وہی ہر قسم کی عبادتوں کا مستحق ہے۔

اسی عقیدۂ توحید کی تعلیم کے لئے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرامؑ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے اپنے اپنے معاشروں‘ علاقوں‘ بستیوں اور قوموں میں آ کر یہی فلسفہ سمجھایا کہ اللہ کی توحید کا اقرار کرو او ر دیگر معبود ان باطلہ سے برأت کا اظہار کرو۔ جیساکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس مسئلے کو مختلف انداز میں یوں سمجھایا گیا ہے۔ ترجمہ! اے ہمارے نبی ﷺ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے سب کو یہی حکم دیا تھا کہ میں یکتا(اللہ) اکیلا ہی عبادت کے لائق ہوں، تم صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا۔ (سورۃالانبیاء ۲۵)

دوسر ے مقام پر اس طرح فرمایا: لوگو،تمہارا صرف ایک ہی اللہ ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،وہ بہت رحم کرنے والامہربان ہے۔(سورۃ البقرہ ۱۶۳)ایک مقام پر شرک سے یوں منع فرمایاگیا: اور اللہ نے فرمایا۔ دو معبود (الہٰ) نہ بنائو بس، وہ ایک ہی الہٰ (اللہ) عبادت کا حقدار ہے تم مجھ ہی سے ڈرو (سورۃ النحل ۵۱)اسی طرح ایک جگہ اطاعت کا حکم اس طرح دیا گیا: کہہ دیجئے، بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا صرف ایک ہی الہٰ یعنی اللہ عبادت کے لائق ہے ،تو اب تم مسلم (اطاعت گزار) بن جائو۔ (سورۃ الانبیاء ۱۰۸ا)توحید کی حقیقت سمجھانے کے لئے ایک جگہ اپنی کبریائی کا اظہار یوں فرمایا: اور وہ ایک اللہ ہی عبادت کے لائق ہے جو سب پر قابو پانے والا ہے۔(سورۂ ص ۶۵)ان آیات مبارکہ سے توحید کی عظمت و اہمیت واضح ہوتی ہے۔اس کے علاوہ اس قسم کی اور بہت سی آیات مبارکہ قرآن مجید میں موجود ہیں۔ جن سے اللہ کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات کاملہ میں یکتا اور بے مثل ماننے کا نام توحید ہے اور ایسی توحید بحمداللہ صرف مذہب اسلام میں ہی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر آپ مذاہب عالم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا سوائے اسلام کے جتنے بھی مذاہب موجود ہیں یا تو ان میں سرے سے توحید کا تصورہی نہیں ہے یا اگر ہے تو ناقص۔

اسلام نے ابتدا سے انتہا تک یہی کوشش کی ہے کہ انسان و جنات کو شروع سے آخر تک توحید ہی پر قائم رکھا جائے۔ چونکہ حضرت انسان نے عالم ارواح میں اپنے رب سے اسی کا اقرار کیا تھا۔ پھر ہمارے مالک و آقا نے اس دنیا میں آنے کے بعد بھی ہمیں اسی کی پابندی کا حکم دیا کہ توحید خالص پر ہی اپنا عقیدہ و عمل استوار رکھیں اور اس کے مقابل ہرطرح کے شرک سے بے زاری کا اظہار کریں ،کیونکہ جس خالق و مالک نے ہمیں تخلیق کیا اور شرف انسانیت سے نوازا اور اس حیات مستعارمیں دنیا کی زیب و زینت اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر زندگی کی بہاریں نصیب فرمائیں تو شکر نعمت کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنے مالک و خالق کا ہو کر رہے۔ توحید پر ایمان ہی درحقیقت دین کی اساس ہے۔

عقیدۂ توحید ہی دین کا وہ بنیادی سرچشمہ ہے جو انسان کو اپنے معبود حقیقی یعنی اللہ عزو جل کی معرفت عطا کرتا اور بندے کو ایمان اور صراطِ مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔ توحید کا اعتراف اور اس پر ایمان ہی بندگی کا حقیقی مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں توحید باری تعالیٰ کو سمجھنے اور عمل پیر اہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)