تفہیم المسائل
سوال: میرے والد قربانی والے دن قربانی کے جانور کی کلیجی پر نبی کریم ﷺ، حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہماالسلام کی فاتحہ دیتے تھے اور پھر کھانا شروع کرتے تھے، اس سے پہلے کچھ نہیں کھاتے تھے، میں نے بھی والد کا طریقہ اپنایا ہوا ہے، کیا یہ طریقہ درست ہے ؟( طفیل الدین ، کراچی)
جواب: آپ کے والد کا اُس کلیجی پر حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام اور رسول اللہ ﷺ کو ایصال ِ ثواب کے لیے فاتحہ دلانا مستحسن اور مستحب امر ہے، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ :حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پیے بغیر نہیں نکلتے تھے اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے اور آپ ﷺقربانی کے جانور میں سے ابتدا کلیجی تناول فرمانے سے کرتے تھے،(اَلسّنَن الْکُبریٰ لِلْبَیہَقِی:6161)‘‘۔
لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی اتّباع کی نیت سے اس پر عمل کرسکتے ہیں، البتہ کلیجی نہ ملے تو قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز کرنے سے بھی استحباب حاصل ہوجائے گا، اس عمل کی حکمت یہ ہے کہ قربانی میں رغبت اور شوق بڑھے گا۔
الموسوعۃ الفقہیۃ الکوتیۃ میں ہے : ترجمہ:’’ جس کے پاس قربانی کا جانور ہو، فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے لیے قربانی کے دن روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرنا اور کھانے سے رکنا مستحب ہے، تاکہ وہ اپنے قربانی کے جانور کی کلیجی سے کھانے کی ابتدا کرے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ عید الفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پیے بغیر نہیں نکلتے تھے اور عیدالاضحی کے دن نمازِ عید اداکرنے سے پہلے کچھ نہ تناول فرماتے۔
ایک روایت میں اس طرح ہے: قربانی کے دن اس وقت تک کچھ تناول نہ فرماتے، جب تک (قربانی کا جانور) ذبح نہ کرلیتے اور چونکہ قربانی اور اس میں سے کھانا عید الاضحی پر مشروع کیا گیا ہے، اس لیے مستحب ہے کہ اس میں سے کسی چیز سے کھایا جائے، (الموسوعۃ الفقہیۃ الکوتیۃ، جلد:45، ص:341) ‘‘۔ تاہم اس دورانیے کو روزہ قرار نہیں دیاجائے گا، بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنّت ہے ۔( واللہ اعلم بالصواب )