سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریلوے کی زمینوں کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قرض لینے کے معاملے پر سیکریٹری ریلوے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
سیکریٹری ریلوے مظفر رانجھا نے دورانِ سماعت بتایا کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالرز کا منصوبہ ہے، قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) منظوری دے چکی ہے، ایم ایل ون منصوبے کے لیے اربوں روپے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ملک میں قرض لینا ایک حساس معاملہ بن چکا ہے، ہر کوئی اربوں ڈالرز قرض لے کر منصوبے لگانے کی بات کرتا ہے۔
اُنہوں نے سوال کیا کہ ملک میں اربوں ڈالرکا انفرااسٹرکچر موجود ہے، اس پر کیا پیش رفت ہو رہی ہے؟
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اربوں ڈالرکا قرض لینے کا نتیجہ آج عوام بھگت رہے ہیں، چھٹیوں کے دوران سندھ میں ریل کا سفر کیا، سندھ میں ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے، بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں، سردیاں آ گئیں اور پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا۔
انہوں نے ریلوے انتظامیہ کی خراب کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں صورتِ حال سندھ سے بھی بدتر ہے، بین الاقوامی جریدے نے پاکستان کی سڑکوں پر ضمیمہ چھاپا تھا اور اس ضمیمے کا عنوان تھا ’وہ سڑکیں جو کہیں نہیں جاتیں‘۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں، پرفارمنس اور استعداد کار چاہیے، اربوں ڈالرز کے منصوبے لگانے سے عدالت متاثر نہیں ہو گی۔
اُنہوں نے کہا کہ ریلوے لائنز کے گرد تجاوزات بڑھ رہی ہیں، اگر ادارے اپنی زمینوں کا تحفظ نہیں کریں گے تو تجاوزات ہی ہوں گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سیکریٹری ریلوے کو یاد دلایا کہ ریلوے ٹریک پر رکشہ چڑھنے سے بھی حادثہ پیش آیا تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ریلوے سالانہ کتنا منافع کما رہا ہے؟
جس کے جواب نے سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ پچھلے سال ریلوے کا سالانہ منافع کا ٹارگٹ 58 ارب روپے تھا، ریلویز نے 2022ء میں 62 ارب روپے کمائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ انجن کی ایک موٹر خراب ہو جائے تو دوسری ریل گاڑی کا انجن نکال کر لگا لیتے ہیں، کیا ریلوے کا نظام ایسے چلا رہے ہیں؟
سیکریٹری ریلوے نے جواب دیا کہ پاکستان ریلوے پلِ صراط پرچل رہی ہے کیونکہ سیلاب کے دوران پاکستان ریلوے کو 628 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔