• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانتہ رابعہ، گوجرہ

’’ارےبھئی کہاں ہو؟‘‘ راجا صاحب خوشی سے چہکتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور بیوی کو آواز لگائی۔’’کیا ہوا، خیر تو ہے؟‘‘نجمہ خانم نے سدا کے گُم صم رہنے والے میاں کو غیر معمولی طور پرخوش دیکھتے ہوئے قدرے حیرانی سے پوچھا۔’’بڑی اچھی خبر ہے، نورین بھابھی بچّوں کے ساتھ فیصل آباد آرہی ہیں۔ بھیّا کام کے سلسلے میں بلوچستان گئے ہوئے ہیں،ایک دو ہفتوں میں واپس آجائیں گے، تب تک بھابھی اور بچّے ہمارے ہاں ہی رہیں گے۔ ویسے ایک اور خوشی کی بات یہ ہے کہ بھیّا نے یہیں کینال روڈ کی طرف کسی کالونی میں ایک بڑا ہی خُوب صورت گھر خریدا ہے۔ 

بلوچستان سے واپس لوٹتے ہی شفٹنگ وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔‘‘ راجا صاحب خوشی میں ایک ہی سانس میں بولے چلے جا رہے تھے۔ ’’ہائیں…!! وہ لوگ بھی فیصل آباد شفٹ ہو رہے ہیں…‘‘ نجمہ خانم ذرا پریشانی سے بولیں۔ ’’ہاں بھئی، مَیں تو کہتا ہوں، اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے،کیوں نہ اس خوشی کے موقعے پرلگے ہاتھوں اپنے نعمان کے لیے بھیّا کی شمائلہ کا ہاتھ بھی مانگ لیں…‘‘ انہوں نے تسلّی سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ’’وہ گنجی کبوتری، ہکلا ہکلا کر بولنے والی باؤلی سی لڑکی ، کیا ہوگیا ہے آپ کو، میرے لائق فائق بیٹے کے لیے وہی ایک بچی ہے۔‘‘

نجمہ خانم نے غصیلے لہجے میں میاں جی کے سامنے ان کی بھتیجی کا مذاق اُڑاتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔ ’’خدا کا خوف کرو، ایک بچّی کی اس طرح تضحیک کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آرہی اور جسے تم ’’گنجی کبوتری‘‘ کہہ رہی ہو، اُسے دیکھ لو، اُس سے مل لو، تو اُسی کے نام کی مالا جَپنے لگو گی۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ کوئی ایویں سی لڑکی ہے، ارے اُس کے لیے تو رشتوں کی لائن لگی ہے۔ بےحد ہونہار، سلیقہ شعار اور تعلیم یافتہ بچّی ہے، جو پڑھائی میں اوّل ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں بھی ماہر ہے۔نجمہ خانم! کون سی دنیا میں رہتی ہیں آپ؟ اسی لیے توکہتا ہوں کہ رشتے داروں سے میل جول رکھا کریں، تاکہ دنیا کی بھی کچھ خبر ہو۔‘‘

راجا صاحب نے بیوی کو اچھا خاصا جھاڑتے ہوئے کہا۔ ’’نہ بھئی نہ، آپ چاہے جو کہیں، اپنی بھتیجی اور رشتے داروں کی شان میں قصیدے پڑھیں یا تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیں، مگر مَیں رشتے داروں میں سے بہو نہیں لاؤں گی، پھر چاہے آپ کی بھتیجی ہو یا میری۔ اور آپ کی بھتیجی تو ہرگز نہیں، جسے ایک فقرہ مکمل کرنے میں گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ شکل و صورت بھی واجبی سی ہے، مَیں نے دیکھی ہوئی ہے۔ 

مَیں تو اپنے گھبرو جوان کے لیے کوئی حورپَری ہی لاؤں گی، جس کے آنے سے میرا گھر جنّت بن جائے‘‘نجمہ خانم بدستور اپنے فیصلے پر قائم تھیں۔ بیگم کی بات سُن کر راجا صاحب بھی چُپ ہو گئے۔ اُنہیں اپنی بھتیجیوں،بھانجیوں سے بہت پیار تھا، بھانجیاں تو خیر سب شادی شُدہ تھیں، مگر وہ چاہتے تھے کہ کم از کم ایک بھتیجی تو انہی کے گھر کی بہو بنے۔

بلوچستان کے دُوردراز علاقے میں مقیم بڑے بھائی خود تو سال میں ایک آدھ چکّر لگالیتے تھے، لیکن ان کے بیوی، بچّے کم ہی آتے تھے کہ بقول بھیّا آب و ہوا کی تبدیلی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، پھر بچّوں کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ آخری مرتبہ وہ سب لوگ ایک ساتھ بڑی آپا کے انتقال پر آئے تھے، تب شمائلہ میٹرک میں تھی۔ بوائے کٹ بال، بات بات پر بچّوں کی طرح روتی، حلق پھاڑ کر قہقہے لگاتی، خود سے لاپروا سی، کسی کو کچھ زیادہ خاطر میں نہ لاتی تھی۔

اب جس لڑکی کا ایسا امیج ہو، اُسے بہو بنانے پر بھلاکس کا دل آمادہ ہوگا،تو اس لحاظ سے نجمہ خانم کا غصّہ بھی جائز ہی تھا۔ خیر، وہ دل کی بھڑاس نکال کر بڑبڑاتی ہوئی کچن میں چلی گئیں۔

چوبیس گھنٹے گزرتے کون سا صدیاں لگتی ہیں،تو پلک جھپکتے دن گزر گیا اور نورین بھابھی اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ اُن کے گھر آگئیں۔ شمائلہ سے چھوٹی عائشہ تھی، جسے وہ دیکھتے ہی پہچان گئیں کہ وہ پہلے بھی گپلو، گونگلو سی تھی اور اب بھی۔ قد بھی برائے نام ہی بڑھا تھا، لیکن ان کے ساتھ جو دوسری لڑکی تھی، وہ پہچانی نہیں جا رہی تھی ’’لو جی، انہوں نے تو کہا تھا کہ نورین بھابھی اور بیٹیاں ہی آئیں گی اور یہاں تو جیٹھانی صاحبہ مزید مہمان بھی لے آئیں۔‘‘ 

نجمہ خانم اس لڑکی کو دیکھ کر منہ ہی منہ میں بڑبڑائیں اور دو تین مرتبہ پلکیں جھپک کر دیکھا۔ دراز قد، دمکتا رنگ،گھٹنوں کو چھوتے سیاہ بال،جو بڑی سی چُٹیا کی شکل میں کمر پر آرام فرما تھے، مُسکراتی انکھیں، بولتا چہرہ…’’ارے بھابھی! اپنی شمائلہ کہاں ہے؟‘‘ بڑی مشکل سے انہوں نے خود کو گنجی کبوتری کہنے سے روکا اور دل پر جبر کرکے ’’اپنی شمائلہ‘‘ کہا۔’’ہائے چچّی! آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘ تھوڑی دیر پہلے تک جسے مہمان سمجھ رہی تھیں، اسی لڑکی نے اپنا تعارف شمائلہ کہہ کر کروایا، تو تھوڑا سا جھینپتے ہوئے، انہوں نے نظر کی کم زوری کا بہانہ بنایا۔ ’’وہ، چشمے کا نمبر شاید بدل گیا ہے، اس لیے پہچان نہیں سکی۔‘‘ انہوں نے دوسروں سے زیادہ اپنے آپ کو تسلّی دی۔ مگر اُنہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ چند سالوں پہلے تک جو لڑکی اس قدر عجیب و غریب دِکھتی تھی، اس میں اس قدر تبدیلی کیسے آگئی۔

اگلی صبح نجمہ کے اُٹھنے سے پہلے ہی شمائلہ باورچی خانے میں موجود رات کے برتن دھو کر،آٹا گوندھ کر ایک طرف رکھ چُکی تھی اور اب چائے کا پانی چولھے پر چڑھائے کسی دھیان میں گم تھی کہ اتنے میں نجمہ خانم کچن میں آگئیں۔ ’’چچی!مَیں نے سوچا ،آپ کی ناشتے میں کچھ مدد ہی کروادوں…‘‘ شمائلہ نے مُسکراتے ہوئے کہااور ناشتے کی تیاری میں لگ گئی۔ پُھرتی سے برتن میز پر لگائےاور پھر سب کو ناشتا کروا کر برتن دھو دُھلا کےگھر والوں کے ساتھ آبیٹھی۔ دوسری جانب، نجمہ خانم گویا حیران پریشان اُسی بچپن والی شمائلہ کی تلاش میں تھیں۔ بطورِ خاص اُس کی ایک ایک بات نوٹ کر رہی تھیں کہ وہ تو بولتی بھی اس قدر دھیمے لہجے میں ہے کہ سُننے والا بس سُنتا ہی چلاجائے۔

پھر اگلے پندرہ، بیس دن دُور بین بلکہ خرد بین سے شمائلہ کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ شمائلہ اُن کی آرام طلب بیٹیوں سے ہزار گُنا محنت کرنے والی، آگے بڑھ کر دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے والی اور سلجھی ہوئی تعلیم یافتہ لڑکی ہے، جس سے گفتگو کرتے ہوئے کسی اردوئے معلٰی سکھانے والی کا گمان ہو، انہوں نے دل ہی دل میں اسے گنجی کبوتری اور دوسرے القابات سے نوازنے پر اللہ تعالیٰ سے خُوب معافی مانگی اور پھر اُن کے دل و دماغ نے اُسے بہو بنانے پر آمادگی کا اظہار کردیا، لیکن وہ کسی سے اس بات کا ذکر کرنے سے قبل اس سوال کا جواب جاننا چاہتی تھیں کہ شمائلہ میں آخر اتنی تبدیلی کیوں اور کیسے آئی۔

آج نجمہ خانم کے چھوٹے بیٹے علی عمران کی سال گرہ تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ بیکری سے سامان لانےکے بجائے گھرہی میں چیزیں تیار کی جائیں، لیکن ان کی بیٹیاں قابو ہی میں نہیں آرہی تھیں۔ ایسے میں شمائلہ کسی بوتل کے جن کی طرح نمودار ہوئی اور نگٹس،رول اور فروٹ چاٹ تیار کرتے ہوئے نجمہ خانم سے بولی۔’’چچی! ہم لوگ سالِ نو بھی بہت اہتمام سے مناتے ہیں۔‘‘ ’’کیا، سالِ نو…؟‘‘ نجمہ کا تو منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔’’مطلب یہ کہ چچی، یہ جو آپ مجھے دیکھ کر حیرت کرتی ہیں ناں کہ مَیں ایک سڑیل، بدتمیز بچّی سے اس قدر اچھی کیسے ہوگئی، تو اتنی تبدیلی کی وجہ ہر نیا سال ہے۔ 

یعنی میٹرک کے بعد سے مَیں نے ایک عادت اپنائی کہ ہر سال کی آخری رات مَیں اپنی کمیوں، کوتاہیوں، بُری عادات کا جائزہ لیتی ہوں، پھر سالِ نو کی پلاننگ کرکے انہیں سُدھارنے کی کوشش کرتی ہوں۔نیز، سال کے آغاز پر دو رکعات نفل پڑھ کر اپنے رب کے حضور سب گھر والوں کی سلامتی، خوش حالی کی دُعائیں بھی مانگتی ہوں، جو عادتیں بدلنی ضروری ہوں، اُن کے متعلق سوچتی ہوں۔ 

الغرض، سالِ نو کے اہداف طے کرکے پھر پوری یک سوئی سے ان پر عمل بھی کرتی ہوں،مثلاً اس سال کے آغاز پر مَیں نے عہد کیا تھا کہ دو بچیوں کو لکھنا،پڑھنا سکھاؤں گی، بیکنگ سیکھوں گی، گرافک ڈیزائننگ کا کورس کروں گی،سونے سے پہلے بابا کے پاؤں دبایا کروں گی اور دیکھیں ،ابھی تو سال ختم ہونے میں دو دن باقی ہیں اور الحمدُ للہ میرے سارے اہداف پورے کرہو چُکے ہیں۔‘‘

شمائلہ اپنی ہی دُھن میں بولے چلے جارہی تھی اور نجمہ خانم کی آنکھیں ندامت سے جھکی جارہی تھیں، بلکہ ندامت پانی بن کر آنکھوں سے بہہ نکلی تھی۔ وہ تو بس یہی سوچ رہی تھیں کہ جسے گنجی کبوتری، بد تمیز اور جانے کیا کیا کہتی تھیں، وہ آج عقل و شعور کے خزانوں کی کنجیاں ہاتھ میں لیے سامنے کھڑی تھی،پل بھر کے بعد انہوں نے قدم آگے بڑھایا اور اُسے اپنے گلے لگا کر پیار سے ماتھے پر بوسہ دے دیا، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اپنی غلطی مان کر اُسے دل سے اپنی بہو تسلیم کر چُکی ہیں۔