• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی پر ایک الزام تواتر سے لگتا آیا ہے کہ یہ اندرون سندھ رہنے والے دیہی طبقے کی جماعت ہے، حالانکہ اس جماعت کی جنم بھومی تو لاہور ہے، اس جماعت میں ہر طبقے، ہر شہرکی نمائندگی ملے گی، اس جماعت کو یہ اعزاز ضرورحاصل ہے کہ سندھ کے لوگوں نے اس جماعت کے قائدین کیساتھ وفا کا ایسا رشتہ جوڑا ہے کہ کوئی توڑ نہ پایا۔ سابق آمروں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح سندھ میں اس جماعت کو تقسیم کیا جائے جس کیلئے انہوں نے بڑے بڑے جاگیرداروں کو خریدا اور اپنا ہم پیالہ و ہم نوالہ بنا یا۔ جب جاگیردار اور وڈیرے پی پی پی کے خلاف استعمال نہ ہوئے تو پھر صوبے کو دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کردیا گیا ، اس تقسیم کو ایم کیو ایم جیسی جماعت کو جنم دے کر مضبوط کرنےکی کوشش 30سال سےجاری ہے ۔ پی پی پی اپنے قیام سے آج تک جان توڑ کوشش کرتی رہی کہ وہ کراچی شہر میں بھرپور انداز سے ابھر کر سامنے آئےتاہم کراچی شہر میں اسے ووٹ ملے نہ ملے اس نے یہاں کے رہنے والے عہدیداروں کو سینیٹ اور اسمبلیوں تک پہنچایا، ایسے چند ناموں میں مسرور احسن، وقار مہدی، سعید غنی، مرتضیٰ وہاب، رخسانہ زبیری سمیت بیسیوں لوگ ہیں جن کا کراچی میں نہ کوئی حلقہ تھا، نہ وہ جاگیردار تھے، نہ سرمایہ دار لیکن پی پی پی نے انھیں کراچی سے منتخب کرواکر اسلام آباد بھیجا ۔ کراچی کی ترقی پر اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ شہر میں مسائل کیوں ہیں، حالانکہ یہ سوال تو ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سےکرنا بنتا ہے کہ وہ براہ راست اس شہر پر حکمرانی کرتے رہے پھربھی مسائل حل کیوں نہ کئے، شہر کی اہم سڑکوں کو کمرشلائز کر کے شہر میں ٹریفک کے جو مسائل جماعت اسلامی نے اپنے دور میں پیداکئے اس پر بھی کئی صفحات لکھے جا سکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی میں ایک بات مثبت نظر آئی کہ اس نے کبھی اختیارات کا رونا نہ رویا اوردستیاب اختیارات کو کراچی کی نظامت اور میئرشپ کے دنوں میں خوب استعمال کیا، دوسری طرف یہاں ایم کیو ایم کے بھی میئر رہے ، مشرف کے دور میں تو کراچی کے ناظم کے پاس وزیر اعلیٰ سے زیادہ اختیارات تھے، ایم کیو ایم پورے سندھ کے سیاہ و سفید کی مالک تھی، کیا کراچی میں اس دور میں پارک کی زمین پر ایم کیو ایم کے وفاتر نہیں بنے ؟ کیا پارک اور گراؤنڈز پر پلازے اور بلڈنگز نہیں بنیں ؟ کیا ایم کیو ایم اس بات سے انکار کر سکتی ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں انہوں نے گھوسٹ ملازمین بھرتی کئے؟کچھ سال پہلے تک یہاں ایم کیو ایم کا مئیر تھا اور کراچی بارشوں میں ڈوبتا رہا، ایم کیو ایم نے آخر اس مسئلے کے حل کے لئے کیا کیا؟ کیوں کہ وہ اس وقت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ وفاق میں حصے دار تھی، پیپلز پارٹی کے پاس کچھ سال پہلے کراچی کے ضلع کورنگی میں ایک کونسلر کی نشست بھی نہ تھی لیکن کورنگی جیسے ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ میں پی پی پی نے ووٹ نہ ملنے کے باوجود فلائی اوورز اور سڑکوں کا جال بچھا دیا، یہی نہیں کراچی میں این آئی سی وی ڈی جیسا ادارہ قائم کر کے پورے کراچی میں جگہ جگہ اس کے ایمرجنسی پوائنٹس بنا کر پی پی پی نے ثابت کیا کہ اختیارات کا رونا دھونا صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے تھا، جنہیں کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کر گزرتے ہیں، پیپلز پارٹی نے کراچی کی ترقی کے لئے جہاں جہاں وفاقی اداروں کا مینڈیٹ ہے وہاں پر خود جاکر کام کیا، کنٹونمنٹ علاقوں میں بھی پیپلز پارٹی نے سندھ کا پیسہ استعمال کیا جس کی ایک مثال شاہراہِ فیصل ہے اور دوسری مثال کراچی کا کینٹ اسٹیشن ہے، اس کے علاوہ بھی سندھ حکومت نے ڈی ایچ اے اور کلفٹن کنٹونمنٹس میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائےجب کہ انہی علاقوں سے کنٹونمنٹ بورڈ اربوں روپے کا ٹیکس جمع کرتا ہے ، پنجاب چورنگی انڈر پاس ہو یا سب میرین فلائی اوور، پی پی پی نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ یہ وفاقی ادارے کے ماتحت چلنے والے علاقے ہیں یا نہیں، جہاں کوئی کام نہیں کررہا تھا وہاں پی پی پی آگے بڑھی اور کام کیا، یہی وجہ ہے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل جہاں نائن زیرو بھی ہے اور یہ علاقہ ہمیشہ ایم کیو ایم کا گڑھ رہا ہے، آج وہاں سے بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی عہدیدار بلامقابلہ جیت رہے ہیں، پی پی پی کو اس شہر کی ترقی کے لئے ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔ شہر کراچی سب جماعتوں کو آزما چکا ہے لیکن اس شہر میں پی پی پی کا کبھی میئر نہیں رہا، اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو پی پی پی کی جیت یقینی نظر آرہی ہے اور پی پی پی اگر اپنا میئر بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ کسی امتحان سے کم نہ ہوگا، میری پی پی پی کی قیادت سے گزارش ہے کہ اس عہدے کے لئے ایسا بندہ سامنے لایا جائے جسے اس شہر کے مسائل کادرد ہو کیونکہ اس شہر کے گمبھیر مسائل کو وہ شخص ہی حل کرسکتا ہے جو یہاں کی ہر گلی سے واقف ہو اورجس کے دفتر میں ٹھیکیداروں کا داخلہ ممنوع ہو۔

تازہ ترین