• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم اور نئے آرمی چیف سے التماس ...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر

اگر آپ برا نہ منائیں تو میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ یہ سن کر میں نے اپنے بائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے مسافر کے چہرے پر نظر ڈالی اور اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ صبح ہی صبح یہ صاحب کیا پوچھنا چاہتے ہیں ۔ اسلام آباد سے لاہور کیلئے پی آئی اے کی پرواز اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہو چکی تھی اور دن کا آغاز بہت اچھا تھا ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا مسافر اپنے کسی سوال کے ذریعہ مجھے کسی غیر ضروری بحث میں الجھا دے ۔ بادل نخواستہ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ جی پوچھئے ۔مسافر نے بڑے دردناک لہجے میں پوچھا کہ یہ بتائیے آپ کے خیال میں پاکستان کا مستقبل کیا ہے ؟ میں نے دیکھا کہ سوال پوچھنے والے کے ہاتھ میں ایک اخبار تھا جس کی ہیڈلائن چیختے ہوئے کہہ رہی تھی کہ 35لاپتہ افراد 28نومبر کو سپریم کورٹ میں پیش نہ ہوئے تو پھر وزیر اعظم کو بلایا جائے گا کیونکہ وہ وزیر دفاع بھی ہیں ۔ اس قسم کی ہیڈلائن پڑھنے کے بعد کسی بھی شریف النفس اور محب وطن پاکستانی کا یہ پوچھنا قدرتی امر تھا کہ اس کے پیارے وطن کا کیا مستقبل ہے ؟ میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر کی پریشانی کو جائز سمجھتے ہوئے بڑے ہمدردانہ انداز میں کہا کہ دیکھئے اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ آج پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن انشا اللہ ہم مسائل کے گرداب سے نکل جائیں گے اور پاکستان کا مستقبل خطرات سے نکل آئے گا ۔ یہ سن کر سوال پوچھنے والا ٹکٹکی باندھ کر میرے چہرے کو بڑے غور سے دیکھنے لگا ۔ مجھے اسکی نظروں کی حدت اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔میں نے جھکی جھکی نظروں سے بڑے دفاعی انداز میں کہا کہ جناب جو سوال آپ نے پوچھا میں پچھلے کئی سال سے اس سوال کا جواب دے رہا ہوں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ کو اخبار کی ہیڈلائن نے پریشان کر دیا ہو، ہو سکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی آپ کے لئے ناقابل برداشت ہو لیکن یہ مسائل ہمارے دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی ہیں اور پاکستان کچھ ممالک سے خاصا بہتر ہے لیکن امید یہی ہے کہ پاکستان کے حالات پہلے سے بہتر ہو جائیں گے۔شائد سوال پوچھنے والا میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوا اس نے کمزور سے لہجے میں شکریہ کہا اور آنکھیں موند لیں ۔ میں سوچنے لگا کہ آج وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو الوداعی عشائیہ دیا جا رہا ہے ۔یہ وہی جنرل کیانی ہیں جن کے بارے میں تین سال پہلے نواز شریف نے مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جنرل کیانی کو اپنی مدت ملازمت میں دوسری دفعہ توسیع نہیں لینی چاہئے ۔جب جنرل کیانی نے دوسری مرتبہ توسیع لے لی تو یہ تاثر پیدا ہوا کہ فوج اور نواز شریف کے تعلقات کشیدہ ہیں ۔ کچھ یاران نکتہ دان نے ہنس ہنس کر یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ جس سیاست دان کو فوج خود اقتدار سے نکال دے وہ سیاستدان دوبارہ کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتا ۔ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ مفروضے غلط ثابت ہوئے ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں نواز شریف نے اکثریت حاصل کی اور وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن کر جی ایچ کیو پہنچے تو جنرل کیانی نے پوری فوجی قیادت کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ نواز شریف کی طرف سے جنرل کیانی کو بڑی عزت کے ساتھ رخصت کیا جا رہا ہے لیکن افسوس کہ جس دن جنرل کیانی کی مدت ملازمت ختم ہونی ہے اور نواز شریف کو نئے آرمی چیف کی تقرری کرنی ہے اسی دن سپریم کورٹ میں ایک ایسے مقدمے کی سماعت ہو گی جس میں وزارت دفاع سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ 35لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔سپریم کورٹ میں جو ریکارڈ پیش کیا گیا اس کے مطابق یہ 35افراد مالاکنڈ میں فوج کے پاس ہیں ۔ اگر ان 35افراد کو 26نومبر کو عدالت میں پیش کر دیا جاتا تو بات 28نومبر تک کبھی نہ پہنچتی ۔شائد کچھ افراد یا ادارےخود کو آئین و قانون سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں۔
غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو فوج یا وزیر اعظم کی ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا کوئی شوق نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جج صاحبان نے بے پناہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ عدالت نے جن لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کا حکم دیا انہیں قتل کرکے لاشیں سڑکوں پر پھینک دی گئیںاور عدالتوں کا مذاق اڑایا گیا لیکن جج صاحبان نے ملکی حالات کے پیش نظر خاموشی اختیار کی ۔ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ وزیر اعظم نے وزارت دفاع کو بھی سنبھال رکھا ہے اور اگر وزارت دفاع مسلسل عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کریگی تو آخر میں ذمہ داری وزیر دفاع پر عائد ہوتی ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بظاہر ہمیں نئی منتخب حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان بڑے خوشگوار تعلقات نظر آ رہے ہیں لیکن حکومت اور فوج مل کر لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کر پائے۔
صرف چار سال پہلے یہی نواز شریف تھے جنہوں نے معزول ججوں کی بحالی کیلئے لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تو یہی جنرل کیانی تھے جنہوں نے نواز شریف کے ساتھ لانگ مارچ میں شامل اعتزاز احسن کو فون پر بتایا کہ معزول ججوں کی بحالی کا فیصلہ ہو گیا ہے اور یوں لانگ مارچ ختم ہو گیا۔ چار سال پہلے معزول ججوں کی بحالی کیلئے عوام سڑکوں پر محض اس لئے نکلے تھے کہ انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے ۔ یہ کتنی خوش آئند بات ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور دیگر جج صاحبان نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ نواز شریف یا جنرل کیانی نے ان کی بحالی میں کوئی کردار ادا کیا تھا ۔ جج صاحبان کسی کے احسان مند ہیں نہ کسی کے شکر گزار ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل کیانی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کیلئے عدلیہ کی بھرپور مدد کرتے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا لہٰذا جج صاحبان آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے سب کچھ دائو پر لگانے کیلئے تیار نظرآتے ہیں۔سپریم کورٹ کی طرف سے وزارت دفاع کو 28نومبر تک 35لاپتہ افراد کو ہر صورت میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم میرے لئے امید کی کرن ہے ۔ایک ادارہ دوسرے ادارے سے کہہ رہا ہے کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی مت کرو، اگر کسی کو گرفتار کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کرو، ریاستی اداروں اور جرائم پیشہ افراد میں فرق ہونا چاہئے۔ جس طرح جنرل کیانی کی مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے اسی طرح چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت بھی کچھ دنوں میں ختم ہو جائے گی۔ جس طرح جنرل کیانی کی یہ خواہش ہو گی کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے اسی طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بھی حق ہے کہ انکے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جائے تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ انہیں بھی ایک اچھے جج کے طور پر یاد رکھیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین لاوارث ہو جائیں گے اگر منتخب حکومت اور نئی فوجی قیادت نے مل کر لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ کیا تو ریاستی اداروں کے مابین ہم آہنگی کے فروغ کا خواب ادھورا رہے گا ۔کوئی ایک ادارہ کسی دوسرے ادارے کو نیچا دکھا کر معتبر نہیں بن سکتا۔ آئین کی بالادستی قائم ہو کر رہے گی۔
جنرل کیانی بطور آرمی چیف لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں عدالتوں کی زیادہ مدد نہیں کر سکے لیکن اس ایک وجہ سے ہم انکی دیگر خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ فوج کے سربراہ بنے تھے تو فوجی جوان اور افسران وردی پہن کر شہر میں نکلنے سے گریز کرنے لگے تھے لیکن جنرل کیانی نے فوجی وردی کے وقار کو بحال کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں فوج کو سیاست میں مداخلت سے باز رکھنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ ان کے دور میں ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کا مارا جانا ایک اہم واقعہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے نے قومی دفاع کے بارے میں کئی سوالات کھڑے کر دیئے لیکن دوسری طرف کیانی نے اپنے سابق باس جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے حکومت کو گرین سگنل دیا اور یہ ثابت کیا کہ ان کے لئے ایک فرد سے زیادہ اہمیت آئین پاکستان کی ہے اور آئین کو پامال کرنے والے ہر شخص کو سزا ملنی چاہئے خواہ وہ سیاست دان ہو یا کوئی ریٹائرڈ جرنیل ہو۔ امید ہے کہ جس طرح جنرل کیانی نے فوج کی عزت و وقار میں اضافہ کیا نئے آرمی چیف بھی فوج کی عزت ووقار میں اضافہ کریں گے ۔ جس طرح عام پاکستانیوں کو فوج کی عزت ووقار عزیز ہے اسی طرح ہمیں عدلیہ کی عزت ووقار بھی عزیز ہے ۔ ہم ہاتھ جوڑ کر حکومت اور فوجی قیادت سے التماس کرتے ہیں کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جائے، لاپتہ افراد کو قید خانوں سے نکال کر عدالتوں میں پیش کیا جائے اور صرف کسی ایک فرد یا ادارے کو طاقتور ثابت نہ کیا جائے بلکہ سب مل کر آئین اور قانون کو طاقتور بنائیں ۔
تازہ ترین