• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہزارہ قبائل تاریخ میں اہم مقام ومرتبہ کے حامل ہیں، گزشتہ اتوار کوعالمی ثقافتی ڈے کے سلسلے میں کراچی ہزارہ کالونی میں پورے تزک واحتشام سے پروقارکلچرل ڈے منایاگیا،جس کے انتظامات ہزارہ کی معروف تاریخی شخصیت و کراچی کے ممتاز سماجی رہنما ممتاز اعوان ودیگر احباب نے کئے تھے۔ پروگرام تواپنی مثال آپ اور نظم وضبط ویگانگت کا اعلیٰ نمونہ تھا ہی ،جب کہ وہاں تاریخ سے روشناسی کی بھی ہمہ جہت معلومات ملیں،جن کے مطابق ہزارہ میں تقریباً 19 قبائل آباد ہیں ، یہاں ہم جناب نعیم اشرف کے ایک مقالے کو مستعار لیتے ہیں ،سادات آل رسولؐ کہلاتے ہیں ،یہ قوم سید جلال باباسواتی کے لشکرمیں شامل ہوکر اس ملک میں آئی۔ زیادہ ترہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں آبادہیں۔ سربراہ ِ قوم مدےخیل یوسفزئی ہیں۔جناب نعیم اشرف کے مقالے کےمطابق تاریخی کتابوں میں مدے بابا یوسف زئی تھے ، ان کا شجرہ قیس عبد الرشی سے جا ملتاہے۔واضح رہےقیس عبدالرشید کی تاریخ کو مستند تواریخ میں رَد کیا جاچکاہے،افغانستان کے مورخین تو اس حوالے سے یک رائے اور یکسو ہیں ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ایرانی اور مغل اپنے وقت کی استعماری قوتیں تھیں ،اور افغانوں کو اپنا حریف گردانتی تھیں،چنانچہ وہ انہیں زیر تسلط رکھنے کیلئے بروئے کار آتیں ،اور اس سلسلے میں اپنی قومی برتریکے لیے افغانوں کی قومی تضحیک کیلئے سازشیں کرتیں،شہنشاہ جہانگیر کے دور میں ایرانی سفیر عباس شاہ صفوی نے دربار میں موجود افغان امراکے سامنے افغانوں کے نسب پر حملے کئے، اس موقع پر جہانگیر کےافغان سپہ سالارنواب خان جہان لودھی نے افغان امراقطب خان ،سرمست خان ابدالی ،حمزہ خان توخی، عمرخان کاکڑ،ظریف یوسفزئی پرمشتمل وفد افغانستان بھیجا،وہاں انہوں نے دیگر مستند تواریخ کی بجائے خود کو اپنے حریفوں سے اعلیٰ نسبت دینے کی خاطر ایک غیر مصدقہ کہانی تراشی ،حالانکہ افغانوں کی ہزاروں سال کی تاریخ خود کو منوانےکیلئے کافی تھی، اب ہم ہزارہ قبائل کامختصراجمالی جائزہ لیتے ہیں۔

یلہ ترکانی کی چار ذیلی شاخیں ،وزیر خیل ، پاپنی، کوت دالان اور دلزاک ہیں۔قبیلہ تزکانڑی کی باجوڑ سے جانب مغرب، علاقہ لمغان، افغانستان میں 1508ء کے آغاز تک اپنی ریاست تھی جو مغل حکمران کے ہاتھوں برباد ہوگئی اور ان لوگوں نے خان گجو خان کے عہد میں علاقہ یوسفزئی تپہ باجوڑ میں آکر پناہ حاصل کی۔تواریخ حافظ رحمت خانی میں ہے کہ 1808ء میں یوسف زئی بہ سرکردگی ملک احمدخان باجوڑ میں دلزاک سے نبرد آزما تھے۔ ترکانی (ترکانڑی) جو شیخے سے اور قبیلہ یوسفزئی رگگیانی کی برادری کی ذیلی شاخ لوئے ماموند کے نام سے علاقہ باجوڑ میں موجود ہے۔ یہ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر سمیت پختونخوا کے 72 دیہات میں آباد ہیں ۔قوم ا عوان اپنا سلسلہ عرب النسل بتاتے ہیں جو حضرت علیؓ کے غیر فاطمی بیٹے سے ہے اور یہ اپنا شجرہ آٹھویں پشت میں’’حضرت عون قطب شاہ‘‘ کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ ایبٹ اباد ، ہری پور اور مانسہرہ کے ہر گائوں میں کثیر و قلیل تعداد میں آباد ہیں،،قوم گوجرہندوستان کی پرانی اقوام میں سے ایک ہے ۔ مانسہرہ ، ہری پورمیں ان کی اکثریت ہے۔ ہمارے دوست اور معروف سیاسی وسماجی رہنما عارف خان تنولی کی قوم تنولی (پٹھان) غزنی افغانستان کے درہ تانال سے آئی اور یہ غلزئی ہے ۔ افغاستان کے بعد یہ قوم سوات پر حکمران رہی اس کے بعد یوسفزئی قبیلہ نے انہیں دریائے سندھ کے پار علاقے مہابن میں دھکیل دیا جس کا نام اس قوم کے نام پر تناول پڑا۔ دو خود مختار مسلم ریاستیں ریاست امب اور ریاست پھلڑہ اسی قوم کی تھیں۔ ان کی اکثریت سے ملحقہ علاقہ تناول کہلاتا ہے جو کہ تین ضلعوں میں تقسیم ہے جب کہ ضلع تورغر (کالا ڈھاکہ) میں بھی ان کی آبادی ہے ۔ جدون ،گدون سے ہزارہ آئے ۔ سواتی اور دلزاک سوات میں یوسفزئیوں سے جنگوں کے بعدیہاں آئے، ترین پٹھانوں میں سربن قبیلہ ہے۔ گکھڑ ایرانی النسل ہیں جو مغلوں کے دست وبازو رہے ،یہ اپنے نام کے ساتھ لقب راجہ لگاتے ہیں۔ بابا حیدر زمان کا تعلق بھی اسی قوم سے ہے۔ یہ بدھ مت سے مسلمان ہوئے۔ قریشی عرب النسل کہلائے جاتے ہیں۔ مشوانی نامورافغان قبیلہ جو یوسف زئیوں کے ساتھ افغانستان سے اس علاقہ میں آیا۔ ثقافتی ایام اور تہوار منانے کاایک مقصد نئی نسل کوتاریخ سے آگاہی بہم پہنچانا ہوتا ہے، ہزارہ برادری اس حوالے سے بھی اس برس بے مثال رہی کہ یہ واحدبرادری تھی جس نے کراچی میں کلچرل ڈے کو شایانِ شان طریقے سے منانے کا اہتمام کیا،جس پران کے اکابر تحسین کے مستحق ہیں۔

تازہ ترین