• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اور ہر باطن کا ایک ظاہر، یعنی نیکی کا باطن گناہ بھی ہو سکتا ہے، اور گناہ میں نیکی پوشیدہ ہو سکتی ہے، یہ تھا باطنیوں کے ایک گروہ کا عقیدہ، اور اس فرقہ کے ایک معروف رہنما تھے حسن الصباح جنہوں نے دو پہاڑوں کے درمیان واقع وادی میں ایک خانہ ساز جنت بنا رکھی تھی، ایک وسیع و عریض اور مسحور کن باغ تھا جس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے تھے، جا بہ جا شہد اور شراب کی نہریں تھیں، ان نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے تھے، لوگ پر تکلف اور طلائی گائو تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے تھے۔ خوب صورت،آفتِ روزگار لڑکے نہایت ہی نزاکت سے ساقی گری کرتے تھے۔ شراب کے دور چلتے، سدھائے ہوئے طیور گزک کیلئے پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کر لاتے اور ’’جنتیوں‘ ‘کے سامنے رکھ کر اڑ جاتے۔اس ’جنت‘ میں منتخب لوگوں کو بے ہوش کر کے لایا جاتا اور کچھ عرصے بعد جنت کے مزے چکھا کر بے ہوشی کی حالت میں ’جنت‘ سے نکال دیا جاتا، باغِ بہشت سے نکالے ہوئے لوٹنے کے لیے تڑپتے تو انہیں بشارت دی جاتی کہ فلاں شخص کو قتل کرنے پر انہیں دوبارہ جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ (اطالوی سیاح مارکو پولو سے عبدالحلیم شرر تک قلعہ الموت کے حوالے سے کچھ ایسے ہی دیو مالائی ’’حقائق‘‘ رقم ہیں)۔

پاکستان میں ہائی برڈ نظام کا ـ’سیم پیج‘ پھٹا تو گینگ ممبرز نے ایک دوسرے کی ’مدح‘ کا آغاز کیا، یوں لگا جیسے ہم بھی پچھلے کچھ برسوں سے ایک مصنوعی جنت میں رہ رہے تھے، جس کی بنیاد مکر پر اٹھائی گئی تھی، نظر کچھ آ رہا تھا، حقیقت کچھ اور تھی، جو نیک نظر آ رہے تھے ان کا میک اپ اترا تو ان صورتوں سے خوف آنے لگا،مذہب کے لبادے سے مکر برآمد ہوا اور قانون کی عبا سے جرم، نہ کوئی کسی کا دوست تھا نہ کوئی کسی کا وفادار، دھوکا در دھوکا،سراب در سراب ۔ بلا شبہ، ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اور ہر باطن کا ایک ظاہر۔

ماضی میں بھی اداروں میں شوقِ سیاست کی کمی نہیں رہی، کچھ اصحاب دن دہاڑے سرِ بازارِ سیاست خرامِ ناز کرتے نظر آئے، تو کچھ بھیس بدل کر رات کے پچھلے پہر اس بازار کا ایک آدھ چکر لگا کر شوق پورا کر لیتے تھے ، مگر ان سب کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ ’وہ کون ہیں‘ ، کس باغ کے مالی ہیں اور کس چمن کے غارت گر، یعنی میدانِ سیاست میں کس کے حامی ہیں اور کس کے مخالف لیکن باجوہ صاحب ہماری تاریخ کے وہ پہلے صاحب ہیں جن کے بارے میں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ سکی کہ وہ ’اِدھر‘ تھے یا ’اُدھر‘۔اس قسم کا ابہام کہ کافکا بھی سر پکڑ لے۔ باجوہ صاحب نے حسن الصباح کی طرح قلعہ الموت آباد تو کیا تھا لیکن کیا ہلاکو خان کی طرح اس قلعہ کو تباہ بھی کیا تھا؟ آپ ایمان داری سے بتائیے آپ کو کیا سمجھ آئی، باجوہ صاحب عمران حکومت کو بچانا چاہتے تھے یا ہٹانا چاہتے تھے؟کیا وہ واقعتاً صبح حکومت بچاتے تھے اور رات کو ہٹاتے تھے؟ صبح وفادار، شام کو بے وفا؟ یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ اب باجوہ صاحب اپنے دفاع میں جو کچھ بھی فرما رہے ہیں وہ در اصل اپنے ہی خلاف گواہی دے رہے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ، عمران خان کے لیے عدالتوں کا ’بندوبست‘ میں نے کیا، انتخابات میں نے جتوائے، ان کی حکومت میں نے بنوائی اور چلوائی، یعنی میں نے اپنے حلف کی مسلسل خلاف ورزی کی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں قلعہ الموت میں نہ کوئی آئین تھا نہ حلف،وہاں تو مکر اور دھوکے کا راج تھا۔پھر ایک صاحب تھے فیض حمید جنہوں نے عمران خان کے ساتھ عہدِ وفا باندھ رکھا تھا، دونوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا رکھی تھیں، لیکن اب پتا چلا ہے کہ دونوں کے تعلق کی بنیاد میں شک کا گارا بھرا ہوا تھا، فیض حمید عمران خان اور ان کی بیگم کے فون بھی ٹیپ کرتے تھے تاکہ بہ وقتِ ضرورت خان صاحب کو ’تُنکا‘ مارا جا سکے، وزیرِ اعظم ہائوس میں مامور ایک افسر یہ ’آئینی‘ ذمہ داری ادا کر رہا تھا، اسی گروہ کے افراد خان صاحب کے خفیہ و علانیہ جوہر بھی فلم بند کرتے رہے ہیں۔اس جنت میں دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہتی تھیں، حوریں اور غلمان بھی تھے اور مسکرات بھی وافر تھیں۔اس جنت کا ہر کردار مصنوعی نظر آتا ہے، بشریٰ بی بی کا دعویٰ تھا کہ وہ مقدس ترین ہستیوں سے ہر شب گفتگو فرماتی ہیں جو ان پر کائنات کے راز منکشف کرتی ہیں، جب کہ مبینہ طور پر انہیں خفیہ ایجنسیوں کے’ روحانی‘ اہل کار عمران خان کے فون ٹیپ کر کے معلومات فراہم کر رہے تھے، عمران خان کو جب اپنی خفیہ ترین باتوں کا خاتونِ خانہ سے پتا چلتا تو ان کا ایمان بشریٰ بی بی کی ’رحونیت ‘ پر اور بھی مضبوط ہو جاتا۔عمران کی حکومت کے دوران ہمیںذرائع نے مطلع کیا تھا کہ ہماری نمبر ون خفیہ ایجنسی میں ایک ’جادو ڈیسک‘ بھی قائم کیا گیا ہے، ہمیں اُس وقت یقین نہیں آیا تھا، اب آ گیا ہے، بے شک جادو ڈیسک برحق ہے۔روایت ہے کہ حسن الصباح کے فدائیوں کو حشیش پلا کر قاتلانہ مہمات پر بھیجا جاتا تھا، اسی نسبت سے وہ حشاشین کہلاتے تھے، اور اسی سے انگریزی کا لفط اسیسن نکلا۔ہمارے ہاں بھی یہ ایک’ حشاشین‘ کا گروہ تھا جنہوں نے پاکستان کے آئین، قانون، جمہوریت اور اخلاقیات کو Assassinate کر کے رکھ دیا۔

تازہ ترین