• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

"کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں،نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا‘‘۔

پنجاب میں اقتدار کی رسہ کشی اصل واردات اور گریٹ گیم کا ثانوی اور ضمنی عمل ہے۔

اپریل 2014 میں ''سیاست نہیں ریاست بچاوَ''،اپریل2022 میں ریاست نہیں سیاست بچائو''کا روپ دھارچکے۔تجسس،2014میں ریاست پر وہ کونسی اُفتاد آن پڑی کہ پارلیمان کو آڑے ہاتھوں لیاگیا۔آئین قانون اورنظام سے کھلواڑ ہوا۔چشم تصور میں ایمپائرز نواز شریف کو گھر بھیج کرمملکت پر اگلی کئی دہائیاں وسیع تر قومی مفاد اور قومی سلامتی کے جھنڈے گاڑنا تھے۔ آج کی تاریخ میں " ریاست اور سیاست " دونوں ٹھپ جبکہ قومی سلامتی اور وسیع تر قومی مفادات تتربتر ہو چکے ہیں۔

ریاست بچی نہ سیاست دونوں دفن ہونے کو۔ اللہ کی کبر یائی، تخلیق کے لئے" کُن فیکون‘‘کافی ۔ فرعون سے آج تک نسلِ انسانی میں اپنے آپ کو خدا سمجھنے والے بکثرت ،وطن عزیز میں بھی موجود ہیں۔مطلق العنان (almighty ) اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ، وطنی قسمت سے کھیلتے رہے ، حقوق ملکیت اپنے ہاتھ میں محفوظ رکھے ۔ آج کے بیشتر سیاستدان اُن کی مخلوق جبکہ بوگرا سے لے کر بھٹو ، نواز شریف ، عمران خان اور شہباز شریف سارے کردار انہی کی تخلیق، ساری حکومتیں اُن کی وجہ سے ہیں۔ تخلیق پاکستان کے چار سال چار ماہ بعد پہلی فوجی بغاوت وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خلاف ہوئی۔ بغاوت اور سازش ناکام ضرور ہوئی ، آنے والے سارے سالوں میں ساری بغاوتوں اور سازشوں کے لئے رہنما اُصول متعین ہو گئے۔

پہلا کامیاب آپریشن خواجہ ناظم الدین کے خلاف ہوا۔ نا اہلی، کرپشن ، قومی سلامتی ، وسیع تر قومی مفاد کا ڈھنڈورا پیٹنا محض FASCAD تھا۔ عزائم مصمم اور مستحکم کہ مملکت کو سیاستدانوں ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے رحم و کرم پر چھوڑنا ، قومی مفاد کی نفی ہوگا۔ جب سے حکومتیں بنانااور توڑنا، تخلیق کرنا اور تہہ تیغ کرنا ،سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کی بدولت، جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری ہے۔ 7 جنوری 1951کو پاکستان آرمی وجود میں آئی ۔ طاقتور بیورو کریسی نے فوج کے ساتھ مل کر ریاست کو ہتھیانے کی ٹھانی ۔خواجہ ناظم الدین کی برخاستگی کے سال بعد (1954 ) امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ سیٹو(SEATO) اوربعد ازاں سینٹو (CENTO)پر دستخط کئے۔ معاہدوں کے ساتھ ہی جنگی سازوسامان کی ترسیل شروع ہو گئی۔ پاکستانی افواج کو ناقابل تسخیر بنانے کا لا متناہی سلسلہ وجود میں آیا۔نئی حاصل ِ طاقت کے بل بُوتے پر 7 اکتوبر1958 کو آئین منسوخ اور پاکستان کی وحدت پر خط ِتنسیخ کھینچ گیا۔

بھارت دُشمنی فوبیا میں مبتلا قوم اپنی افواج کی مضبوطی پر فخر سے سینہ پُھلا کر اِتراتی نظر آئی ۔ 7 جنوری 1951 کو جنرل ایوب جس سرعت سے بریگیڈیئر سے میجر جنرل اور پھر لیفٹیننٹ جنرل اور پہلے پاکستانی کمانڈر اِنچیف بنے۔اُن کے اِس مقام تک پہنچنے میں کئی شکوک و شبہات اور سازشی تھیوریاں چار سُو ٹھکانے ڈھونڈ چکی تھیں ۔

اگرچہ سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں نے پاکستان کی عسکری طاقت میں اضافہ کیا۔ امریکی اسلحہ سے لیس ہوئیں تو پہلا باقاعدہ حملہ ریاست پر، مملکت پر دھاوا بول دیا گیا۔ پھر شاید ہی کوئی عسکری سربراہ بچا ہو جو ریاست کی اُکھاڑ پچھاڑیاحکومتوں کو بنانے توڑنے میں موثر کردار اد کرنے میں کسی کوتاہی کا شکار رہا ہو۔ ایک اُصول طے کہ کسی فوجی سربراہ کا آئین توڑنا ، پاکستان توڑنا ، ریاست کو برباد رکھنا اور پھر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا سوچ سے باہرتھا ۔ ایک دلچسپ پہلو ۔اجتماعی، فوجی ذہن ،سویلین بالا دستی بارے بد اعتمادی کے ہیجان میں مبتلا ہو گیا۔

دوسرا اُصول، آرمی چیف کی بِلاشرکتِ غیرے طاقتورحیثیت نے جہاں فوج کا ڈسپلن مثالی رکھا وہاں چیف کو یہ باور کروادیا گیا کہ ملکی ادارے ،سیاستدان ، پارلیمان ، سپریم کورٹ سب آپ کے قدموں میں ،بس آپ کا ایک اشارہ کافی ہے۔

تیسرااُصول یقین دِلایاگیا کہ پاکستان کی قسمت کو چار چاند لگانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپکو چن لیا ہے۔ یہاں ایک مشکل، چوتھا اسٹار لگنے اور ادارے کی سربراہی سنبھالنے پر فوج جیسے مضبوط مربوط بڑے ادارے انتظام و انصرام چیف کے مضبوط کندھوں پر وہاں اپنے آپ کو آپے میں رکھنا ، اپنی ذات کو MANAGE کرنا چیف کے اپنے رحم و کرم پر ہے۔ کہاوت POWER CORRUPTS & ABSOLUTE POWER CORRUPTS ABSOLUTELY ۔مطلب مالی بد عنوانی سے زیادہ خبط عظمت اور زُعم انسانی خصلت کا حصہ بن جاتا ہے ۔ عہدے سے لازوال محبت ایک فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کوئی سربراہ عہدہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا ۔یہ وہ عوامل جس کا بیج ایوب خان نے بویا، آنے والے سربراہان نے آبیاری کی،آج تناور درخت بن چکا۔ جنرل باجوہ صاحب تک پہنچے تو اُن کے چھ سال نے پاکستان کے ’’کڑاکے‘‘ نکال دیئے ۔عسکری قیادت اورسیاستدان دونوں CLUELESSکہ ملک کو بیچ منجدھار سے کیسے نکالا جائے؟کیا ریاست بچ پائے گی ؟ حکومتی اور عسکری قیادت ہر سمت سر پٹ دوڑ میںملکوں ملکوں پہنچی ہوئی ہے ۔ ’’دے جا سخیاراہِ خدا، ترا اللہ ہی بوٹا لاوے گا‘‘۔’’ کس کے ہاتھ پر پاکستان کا لہو تلاش کروںـ‘‘،گو غلام محمد ،جنرل ایوب خان اور جسٹس منیرکے ناپاک الائنس نے سیاسی افراتفری کی بنیاد رکھی۔ جنرل باجوہ اور ثاقب نثار نے ہر حد ٹاپی ، مملکت کو تباہی کے گڑھے میں لا پھینکا۔ایوب خان نے فوجی قیادت سنبھالی تو اپنی ذات مبارکہ کو دوام دینا عزم ٹھہرا۔18 سال کے کھلواڑ کے بعد، جب 1969 میں اقتدار جنرل یحییٰ خان نے چھینا تو پاکستان کا ٹوٹنا ایک رسمی کاررؤائی ٹھہری۔آتے ہر سربراہ کی پہلی ترجیح اپنی ذات کو مستحکم کر نا ہی تھا ۔ دن دہاڑے اعتراف جُرم ہوئے ۔

جنرل باجوہ اور ٹیم کاسب سے بڑا کارنامہ،عمران خان کی تخلیق ہے۔ ہیرا تراشا گیا۔ تقویم و تشکیل انتہائی مہارت اور بہترین صورت میں کی ۔آج عفریت بن چکا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ غیر جانبدار رہ کر مملکت بچ سکتی ہے یا نظام میں جانبدار موثر کردار ادا کر کے مملکت کو بچایا جا سکے گا۔عمران خان کے معاملے میں جانبداری سود مند رہے گی یا غیر جانبداری بہترین عمل ہے ۔ ایک لاینحل مسئلہ بن چکا ہے۔دو رائے نہیں کہ عمران خان کا سیاسی وجود اسٹیبلشمنٹ کی نفی رہنا ہے اور ادارے کے اوپر بھاری گزرنا ہے ۔ آپ نےجانبداری کی ساری حدیں ٹاپ کرعفریت کی تخلیق کی ہے تو غیر جانبداری کیسے اس کو قابو کرے گی۔ایک مسئلہ فیثا غورث جبکہ عمران خان نے طے کر لیا ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو برباد کرنا ہے ۔ اُن کے نزدیک آسان طریقہ پاکستان کو کمزور کرنا یا ڈیفالٹ کا بحران اسٹیبلشمنٹ خود بخود دوزانو پر ۔ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے سوچنے کا سوال ہے۔ سمجھ سے باَلا تر عمران خان کی بیخ کُنی یا اُس کو اُس کے حال پر آزاد چھوڑنا، جانبدار یاغیر جانبدا ر فیصلہ آسان نہیں۔دونوں صورتوں میں مملکت کا پچھاڑ، اللہ رحم۔

تازہ ترین