• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 6)

قیامِ دہلی کے دوران بستی نظام الدّین اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیا وہ جگہیں تھیں،جہاں ہمارے متعدّد چکّر لگے۔ایک مقناطیس کی طرح یہ بستی ہمیں اپنی طرف کھینچتی تھی کہ اِس بستی میں غالب ِسوختہ جاں کا مرقد ہے۔یہیں تبلیغی جماعت کا مشہور تبلیغی مرکز ’’مسجد بنگلا والی‘‘ہے۔سبز برج سے تھوڑا آگے جا کر داہنے ہاتھ متھرا روڈ پہ بستی نظام الدّین ہے۔ ایک دو رویہ سی گلی متھرا روڈ سے اندر جارہی تھی، جہاں گلی کو دو رویہ بنانے کے لیے درمیان میں آہنی سلاخوں کی باڑ سی لگی تھی۔

ان آہنی سلاخوں پر ہرے،نارنجی اور سفید رنگ سے بھارتی پرچم،ترنگا عکس کیا گیا تھا۔ اس سڑک کے بائیں ہاتھ کی جانب سے پھولوں کی دُکانیں شروع ہو رہی تھیں۔تھوڑی دُور جاکر بائیں ہاتھ ہی غالب اکیڈمی کی گلابی و سفید عمارت قائم تھی، جس کے بغل میں اسد اللہ خاں غالب کا مقبرہ ہے۔لکڑی کا دروازہ اس وقت مقفّل تھا،ایک بڑے سے آہنی کنڈے نے ایک سنہری قفل کی مدد سے اکیڈمی کا سرمایہ محفوظ و مامون کر رکھا تھا۔ دروازے کے بالکل سامنے سنگِ مرمر کی سیڑھیاں گلی تک اتر رہی تھیں۔ 

ان سیڑھیوں پہ کھڑے ہو کر ہم نے کچھ تصویریں کھنچوائیں۔ مئی کا آخر تھا اور مرزا اسداللہ خاں غالب کا پسندیدہ پھل آم ابھی تک نہ لاہور پہنچا تھا اور نہ ہی دہلی۔ ہاں، اکیڈمی کی سیڑھیوں کے بالکل بغل میں ایک ریڑھی پہ بہت سے پپیتے راہ گیروں کی نظرِ کرم کے منتظر تھے۔ پپیتے جیسے غیر رومانی و غیر شاعرانہ پھل کی اس دیدہ دلیری کے ساتھ مرزا اسداللہ خاں غالب کے مرقد کی ہم سائیگی نے ہمارے دلِ نرم و نازک پہ چُھریاں سی چلا دیں۔چوں کہ شام کے اندھیرے بستی نظام الدّین کے دَرو دیوار پہ اُتر آئے تھے، تو مرزا غالب کے مقبرے کا داخلی راستہ بھی مقفّل ہو چُکا تھا۔

دوسرے دن دوبارہ بستی نظام الدّین کا چکّر لگا، تو غالب اکیڈمی کا دروازہ کُھلا تھا۔ اندر جاکے ہم نے اکیڈمی کی شایع شُدہ کتب دیکھیں،جو تعداد میں بہت کم تھیں۔کچھ دیر کتب کی ورق گردانی کی، وہاں ایک عجیب سی اُداسی و ویرانی کا ماحول تھا۔شاید یہ اُداسی مرزا نوشہ کے مرقد کی قربت کی وجہ سے تھی۔ اس روح کی گہرائیوں میں اُترتی اداسی کے ساتھ، اکیڈمی کے ری سیپشن پہ موجود ادھیڑ عمر آدمی سے رخصت لی۔سنگِ سیاہ اور سنگِ مَرمَر کی سیڑھیاں اُتر کر دائیں ہاتھ مُڑ گئے، جہاں ایک بوسیدہ سی ڈیوڑھی سے گزر کر غالب اکیڈمی کے عقب میں ایک چھوٹا سا قبرستان تھا۔ 

یہ خاندانِ لوہارو کا قبرستان ہے۔ یہ ایک بارہ دَری نما دالان ہے،جس کے نیچے پندرہ، بیس قبریں موجود ہیں۔انہی قبروں کےکتبے پڑھتے ہوئے مرزا نوشہ کے مزار کے احاطے میں داخل ہو ئے،جو اس دالان کے غربی رُخ تھا۔نیز، دالان کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا احاطہ تھا،جو بازار بستی نظام الدّین سے متّصل تھا۔اسی احاطے میں شہنشاہِ اقلیمِ سخن، مرزا اسداللہ خان غالب کا مرقد ہے۔ ایک پتّھر کی دیوار میں سے چھوٹا سا داخلی در مرزا غالب کے مقبرے کے احاطے میں کُھل رہا تھا۔مراز نوشہ کے مزار اور غالب اکیڈمی کی عمارت کی دیوار کے درمیان ایک چبوترے پہ کچھ قبریں بھی تھیں، جن میں سےایک قبر کے کتبے پہ مٹے ہوئے حروف میں ’’ساغر نظامی‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اُردو نظم اور غزل کا ایک بڑے نام، سیماب اکبر آبادی کے شاگردِ رشید۔ 

علی گڑھ میں پیدا ہوئے، علّامہ تاجور نجیب آبادی نے لاہور کے مشہور پبلشر عطر چند کپور اینڈ سنز کے ساتھ مل کر ایک اشاعتی ادارے، اُردو مرکز کی بنیاد رکھی، تو استاد محترم سیماب اکبرآبادی کے ساتھ لاہور میں ادارہ اردو مرکز میں بھی کام کیا۔ ایک زمانے تک سیماب اکبرآبادی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پھر استاد سے اختلافات پیدا ہوگئے،جن کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے، ان ہی سےباہم دست وگریباں ہوئے،سیاست میں بھی حصّہ لیا،کانگریس کے جلسوں میں نظمیں بھی پڑھتے تھے۔ ؎ لاؤ اِک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں …لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں۔ 

بستی نظام الدّین کا ایک منظر
بستی نظام الدّین کا ایک منظر

یہ مشہور شعر ساغر نظامی کا ہے، جب کہ کچھ تبدیلی کے ساتھ اسی قسم کا ایک شعر ساغر صدّیقی سے بھی منسوب ہے۔ ان کے بغل میں نواب الٰہی بخش کی قبر تھی۔ نواب الٰہی بخش، عرف میرزا جان عارف، مرزا اسداللہ خاں غالب کے سُسر تھے۔ان قبروں سےمتّصل اسی احاطے میں غالب اکیڈمی کی دیوار کے بغل میں مرزا نوشہ کا چھوٹاسا مقبرہ ہے۔قبر کےکتبے پہ فارسی میں ایک مٹامٹا ساقطع کندہ تھا، کچھ امتدادِ زمانہ سے الفاظ مٹ چُکے تھے، کچھ ہمارا ہاتھ بھی فارسی میں تنگ ،لوح مزار پہ لکھے اس قطعے کی عبارت نہ ہم پڑھ سکے، نہ ہمیں سمجھ آئی۔

قبر کے تعویذ پہ درمیان میں پھولوں کا ایک حاشیہ کھدا ہوا تھا۔ ہم کچھ دیر تک قبر کے تعویذ کے پاس بیٹھے رہے اور آنکھیں بند کر کے دل ہی دل میں کلام مجید کی تلاوت کی۔ فاتحہ خوانی کے ساتھ دعاؤں کے گل ہائے عقیدت شہنشائے سخن کی خدمت میں پیش کیے۔قبر کے تعویذ پہ گلاب کے سُرخ اور موتیے کے سفید پھول خُوش بُو بکھیر رہے تھے۔ اُن پھولوں کی مہک ہمیں اپنی روح میں اترتی محسوس ہوئی۔ کچھ دیر تک چُپ چاپ بیٹھ کر فقط شہنشاہِ سخن کی لحد کو تکتے رہے، پھر اُٹھ کر باہر صحن میں آگئے۔ سنگِ سُرخ کی دیوار کے پاس آم کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ٹکٹکی باندھ کے مرزا نوشہ کے مقبرے کی زیارت کی۔ 

بائیں ہاتھ لوہے کا جنگلا مزار کو بستی نظام الدّین کے بازار سے جدا کرتا تھا،جہاں ہم کھڑے تھے ،دائیں ہاتھ سنگِ سُرخ کی دیوار میں وہ دَر تھا،جو خاندان لوہارو کے قبرستان کے دالان میں کُھلتا تھا۔ اس دَر سے گزر کے ہم لوگ دوبارہ دالان میں داخل ہوئےاور وہاں سے محراب دار ڈیوڑھی میں سے ہوتےہوئے بستی نظام الدّین کے بازار کی بھیڑ کا حصّہ بن گئے۔ غالب اکیڈمی کے سامنے پانچ، چھے منزلہ عمارت مسجد بنگلاوالی کی تھی۔ جب کورونا کی وبا پھیلی ،تو مسجد بنگلا والی تبلیغی مرکز کو کورونا کے پھیلاؤ کا مرکز قرار دے کر کافی مطعون کیا گیا تھااور پوری دنیا سے تبلیغ کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو بے یارو مددگار تبلیغی مرکز چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ سو، ہم نےبستی نظام الدّین میں سرسری طور پر ہی سہی ،تبلیغ کے اس عالمی مرکز کی زیارت سےبھی آنکھیں ٹھنڈی کرلیں۔

غالب اکیڈمی کے دروازے کے سامنے تصاویر کھنچوائیں اور بازار کی طرف چل دیئے۔ بستی نظام الدّین کا یہ بازار تنگ پتلی سی بَل کھاتی گلیوں پہ مشتمل تھا۔ اس بازار میں داخل ہوتے یوں لگا، جیسے ہم آج کی دنیامیں نہیں کئی صدیوں کا سفر طے کرکے پچھلے زمانوں کی کسی بستی میں جا پہنچے ہوں۔ یوں لگا،جیسا ہم نے الف لیلوی کہانیوں کے کسی باب میں آنکھیں کھول لی ہوں۔ خلیفہ ہارون الرّشید کا دَور ہے اور ہم اُمّ البلاد، بغداد کی الف لیلوی گلیوں میں گھوم پھررہے ہیں۔ ہم دن کے وقت بھی اس بازار میں گئےاور رات کے وقت بھی وہاں سے گزر ہوا۔ رات کے وقت وہاں دن کا سماں تھا اور دن کے وقت رات کا۔خلقت اتنی کہ بس سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ 

دُکانوں میں آویزاں برقی قمقموں نے رنگ و نور کی کہکشاں سی آباد کر رکھی تھی۔ بازار میں دن کے وقت سورج کی روشنی بمشکل ہی پہنچ سکتی تھی اور راتیں تو گویا شبِ برات تھیں۔ پھول والوں کی دُکانوں سے اُٹھنے والی خُوش بُوجیسے روح کا طواف کرتی تھی۔ عطر اور لوبان کی لپٹیں پھولوں کی مہک سے ہم آغوش ہو کے روح کی گہرائیوں میں اُترتی تھیں۔ کچھ دُکان دار شرٹ ، پتلون میں ملبوس تھے اور کچھ نے سُوتی چست پاجامے،کُرتے زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ کچھ نے چوگوشیہ کپڑے کی ٹوپیاں اور کئی ایک نے جالی والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔

درگاہ پہ نذرانےکے لیے دست یاب رنگ برنگی چادروں نے ان دُکانوں پہ بہار کا سا سماں کر رکھا تھا۔اُودی، نیلی، پیلی،دھانی اور قرمزی چادروں کے رنگ چاروں طرف بکھرے پڑے تھے۔نیز، دُکانوں سے آنے والی قوّالی کی صدائیں بھی عجب وجد کی سی کیفیت طاری کررہی تھیں۔ بستی نظام الدّین کے اس بازار میں دُکان داروں کی آوازیں راستہ روکتی تھیں۔ ’’سلطان جی (حضرت نظام الدّین اولیاؒ) کی حاضری کے لیے جا رہے ہیں، کچھ تو ساتھ لیتے جائیے۔ یہ چادر لے جائیں، یہ پھول اُٹھا لیں، عطر لے جائیے، لوبان لے جائیں۔یہ شیرینی درگاہ پہ نذرانہ کر دیجیےگا۔‘‘ 

مرزا غالب کے مقبرے پر…
مرزا غالب کے مقبرے پر…

دکان داروں کی صدائیں راہ گیروں کو اپنی جانب متوجّہ کر رہی تھیں۔ ہم نےایک دُکان دار کے پاس جوتےاُتارے اور اس سے گلاب کے پھولوں کی ایک پلیٹ خریدی۔اس بازار کے اندر یہ سفر ایک خواب ناک سفر تھا کہ لوگوں کی ایک بھیڑ سلطان جی کی درگاہ کی طرف رواں دواں تھی۔ ان میں ہم جیسے پتلون شرٹ پہنے،ہیٹ لگائے دنیادار لوگ بھی تھے اور پگڑی پوش سکھ، سردار بھی۔ برقعے پوش خواتین بھی تھیں اور تلک لگائے ساڑی پہنے ہندو عورتیں بھی۔حضرت نظام الدین اولیاؒ کو دہلی کا سلطان کہا جاتا ہے۔یہ بھیڑ دل میں منّتیں مرادیں لیے سلطان جی کی درگاہ کی طرف رواں دواں تھی۔ 

ہم بھی اس بِھیڑ کا حصّہ بن گئے، گوکہ دل میں کوئی منّت، کوئی مراد نہیں تھی کہ جسے پورا کرنے کے لیے درگاہ پہ حاضری دی جاتی ، ہمیں تو فقط دربار کی زیارت کرنی تھی، جس صاحبِ مزار نے دلوں پہ راج کیا تھا،جس کی محبّت و عقیدت اور چاہت لوگوں کے دِلوں میں اتنی راسخ تھی کہ چترشاہی کے نیچے طلائی تخت پہ بیٹھنے والے، جیغہ و سر پیچ و تاجِ شاہی کو سروں کی زینت بنانے والے، زربفت اور کم خواب کی پوشاکیں پہننے والے اس فقیر کی دِلوں پر شہنشاہی سے حسد، رشک کرتے اور خائف ہوتے تھے۔ اس بھیڑ میں شامل ہم ناچیز اُس دَر کی طرف رواں دواں تھے، جو کئی لوگوں کے درد کا درماں تھا، ایک سنگِ مرمر کا محراب دار بےکواڑ کا در آیا، جس سے اندر داخل ہوئے تو سامنے درگاہ کا احاطہ تھا، جس میں بائیں جانب ایک اور چھوٹا سا مزار تھا۔

سنگِ سُرخ کی دیواریں، ان دیواروں میں چوطرفہ محرابی شکل کے دَر،ان دَروں کو سنگِ سُرخ کی جالیوں سے بند کیا گیا تھا۔ بام پہ سنگِ سُرخ کی چھوٹی چھوٹی سی برجیاں تھیں، اوپر سنگِ مَرمَر کا چوکور شکل کا گنبد ، گنبد کے اوپر برقی قمقموں کی لڑیاں لگی ہوئی تھیں،جو گنبد کے کلس سے چاروں طرف نیچے اُتر رہی تھیں۔ مزار کی جالیوں میں مختلف رنگوں کے بےشمار دھاگے بندھے ہوئے تھے۔ یہ سلطان الشعراء، طوطیِ ہند، ابولحسن امیر خسرو کا مزار تھا۔

امیر خسرو، جنہیں اُردو زبان کا پہلا باقاعدہ شاعر کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے موسیقی میں قوّالی کا فن ایجادکیا، جو طبلے اور رباب کے موجد تھے،جن کا کلام آج بھی دِلوں کو موم کرتا ہے، جن کی قوالیوں کے سُر آج بھی دِلوں میں پیار اور محبّت کی سَرگم چھیڑ دیتے ہیں۔ انسانیت جن کا مسلک، محبّت جن کا پیغام تھا۔؎ زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں…کہ تابِ ہجراں ندارم اے جان نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں…شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ…سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں…یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں…کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں۔(ترجمہ:اس غریب کے حال سے تغافل نہ برت، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کر…اب جدائی کی تاب نہیں مری جان، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے…جدائی کی راتیں زلف کی مانند دراز اور وصال کے دن عمر کی مانند مختصر…اے دوست! محبوب کو دیکھے بغیر یہ اندھیری راتیں کیوں کر کاٹوں…پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں، میرے دل کا سکون لے اُڑیں…اب کسے پڑی ہے کہ جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل سنائے۔)

امیر خسرو، جن کی شاعری محبت کے نغمے الاپتی ہے، جسے پڑھ کر، سُن کےآج بھی دلوں کے آبگینے آنسوؤں سے تر ہو جاتے ہیں،جو حضرت نظام الدّین اولیاؒ کے محبوب ترین شاگردوں میں سے تھے،جو شاہوں کے مصاحب بھی رہے، لشکروں میں تیغ بکف سپاہی اور سالار بن کر لڑتے بھی رہے، مگر جب حضرت نظام الدین اولیاؒ کا دستِ شفقت تھاما،تو باقی سب رتبے، مقام و مرتبے آنکھوں میں ہیچ ہوگئے۔ اس فقیر کی قدم بوسی نے انہیں شہنشاہوں کی قربت کی خواہش سے بے نیاز کردیا۔؎ من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی…تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری۔ (ترجمہ: مَیں ،تُو بن گیا ہوں اور تُو، مَیں بن گیا ہے، مَیں تم ہوں اور تُو، جان ہے، پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مَیں اور ہوں اور تُو اور ہے۔) فلسفۂ وحدت الوجود، جس کا اوڑھنا بچھونا تھا، جو فنا فی اللہ اور فنا فی الشیخ کی منزل کی طرف اس طرح سے جادہ ٔپیما ہوا کہ پھر اپنی ذات کو فراموش ہی کردیا ۔ امیر خسرو کے مزار کی جالیوں سے رنگ برنگے دھاگے بندھے تھے، لوگ اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے منّت مانتے ہیں اور اس منت کی تکمیل کے لیے نذر کا دھاگامزار کی جالی سے باندھ دیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ حصولِ برکت کے لیےان میں سے دھاگے پسند کر کے اُتار لیتے ہیں۔ (جاری ہے)