• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 5)

دن کے نو بج چُکے تھے، دیوبند شہر کے دَر و دیوار سورج کی روشنی میں نہا چُکے تھے۔ اس شہرکےساتھ تاریخ کا ایک باب بھی پیچھے سرکتا چلا گیا اورگاڑی کے تمام مسافر اگلی منزلوں کے سفر پہ نکل کھڑے ہوئے۔ گاڑی کا اگلا پڑاؤ مظفّر نگر اسٹیشن تھا۔ شہروں کے یہ سارے نام ہمارے حافظے میں شکیل عادل زادہ کے ناول’’ بازی گر‘‘ کے طفیل محفوظ تھے۔ یوں لگا، جیسے ہم شکیل عادل زادہ کے ناول’’ بازی گر ‘‘کے جہاں گرد ہیرو ،بابر زمان خان کے ہم سفر ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ ریل گاڑی میں بھارت کے طول و عرض کی خاک چھان رہے ہیں۔مظفّر نگر کے بعد وہ تاریخی شہر آیا،جس نے ہندوستان کی تاریخ اور تقدیر بدل کے رکھ دی،یعنی میرٹھ شہر۔ وہی میرٹھ،جہاں سے جنگِ آزادی1857 ءکا شعلہ بھڑکا تھا اور اس شعلے نے دیکھتے دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

’’مہابھارت‘‘ کے دَور میں میں گوروؤں اور پانڈوؤں کا دارالحکومت،ہستناپور بھی میرٹھ کے آس پاس ہی تھا۔ سکندر لودھی کے اہم وزیر،سیّد صدر الدّین سُرخ پوش، جو قنوج میں پیدا ہوئے، بعد میں ان کا قیام بھی میرٹھ میں رہا۔ پنجاب، پاکستان میں واقع جھنگ کی مشہور گدّی، شاہ جیونہ کے دو مشہور گدّی نشین خانوادے، سیّد صدرالدّین سُرخ پوش ہی کی اولاد میں سے ہیں۔ ان دو خاندانوں کی دو شخصیات سیّدہ عابدہ حُسین اور مخدوم فیصل صالح حیات پاکستان کی سیاست میں آج بھی نمایاں ہیں۔

نیز، سپاہی منگل پانڈے نےمیرٹھ ہی کی چھاؤنی میں دو انگریز افسروں کو گولی مار کر قتل کیا تھا اور یہیں سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا آغاز بھی ہوا تھا۔جنگ ِ آزادی کے دوران برّصغیر کے مسلمانوں پہ قیامتِ صغریٰ کا نزول ہواتھا۔ توپوں کی گھن گرج سے سماعتیں کیا، کلیجے تک دہل جاتے۔ شمس العلماء مولوی محمّد حُسین آزاد کے والد مولوی محمّد باقر، جو بہادر شاہ ظفر کے حلقہ یاراں میں شامل تھے اور دہلی اُردو اخبار کے مالک تھے، صرف جنگِ آزادی کے حق میں خبریں لگانے کی پاداش میں توپ سے اڑا دیئے گئے، ان کا پورا خاندان بکھر کر رہ گیا،مولوی آزاد عرصۂ دراز تک رُوپوش رہے،پھر دلّی ایسی چھوٹی کہ لاہور آ کر آباد ہوگئے۔

میرٹھ ریلوے اسٹیشن
میرٹھ ریلوے اسٹیشن 

میرٹھ اسٹیشن گزرا، تو گاڑی غازی آباد پہنچ گئی۔یہ دہلی کے بالکل قریب اُتّر پردیش کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ اسے بادشاہ محمّد شاہ رنگیلا کے ایک وزیر، غازی الدّین خان نے آباد کیا تھا۔ سر سیّد احمد خان نے ’’سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ بھی اسی شہر میں قائم کی تھی۔اور پھر شاہدرہ آگیا…اپنے لاہور کا شاہدرہ نہیں، دہلی کا شاہدرہ۔ یہاں پہنچ کر جانے کیوں ٹرین بہت دیر تک رُکی رہی، پھر پولیس والے بھی کچھ گھبرائے ہوئے لگے، وہ لوگ آتے جاتے مسافرگِن رہے تھے۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ہمارے دو ہم سفر کہیں راستے میں لاپتا ہو گئے ہیں۔ سچ کہیں، تو یہ سُن کر پَیروں تلے زمین نکل گئی۔ پولیس والوں کا یہ کہنا تھا کہ جب تک ان لوگوں کا سُراغ نہیں ملتا، ٹرین یہیں کھڑی رہے گی۔

اچانک پولیس اہل کار ایک بار پھر ٹرین میں داخل ہوئے اور دوبارہ ’’قیدیوں‘‘ کی گنتی ہوئی، تو پتا چلا کہ ہمارے دو شہزادے جب انبالہ اسٹیشن پہ ناشتے کے لیے اُترے، تو پلیٹ فارم سے دُور کہیں کینٹین پہ ناشتا کرنے چلے گئے۔ پیچھے سے’’ کُوچ ‘‘ کا حکم آگیا اورانہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ جب وہ ناشتا کر کے واپس آئے، تو ٹرین، پلیٹ فارم چھوڑ چُکی تھی۔ بعد میں ان دوستوں میں سے ایک، ڈاکٹر شیراز نے بتایا کہ جب وہ دونوں واپس پلیٹ فارم پہنچے، تو حواس گُم،دل پریشان، دماغ ماؤف، خیر اسٹیشن ماسٹر کو خبر کی، پھر انبالہ شہر کے قریبی تھانے اور پولیس کو اطلاع دی، دہلی کے پاکستانی سفارت خانے کو بدست اسٹیشن ماسٹر خبر پہنچائی کہ ہمارے ساتھ یہ بیتی اور یوں ہم ڈار سے بچھڑے پرندے انبالے کے اسٹیشن پہ بے یارو مدد گار، تنہا رہ گئے ہیں اور امدادکے طلب گاررہے ہیں۔ 

اس طرح انبالے کے تھانےوالوں نے امرتسر پولیس اہل کاروں کو خبر کی کہ لاپتا افراد مل گئے ہیں۔خیر ،جب شاہدرہ اسٹیشن پہ ہمارےگُم شُدہ ساتھیوں کا پتا چل گیا،تو پولیس والوں نے سُکھ کا سانس لیا، پھر لپک جھپک پچھلی ٹرین سے وہ دونوں ساتھی انبالہ پولیس اہل کاروں کی حفاظت میں شاہدرہ پہنچے، تو ہمارے سارے قافلے کو اذنِ سفر ملا۔ دہلی اسٹیشن آیا،تو ایک بار پھر سے گنتی کا عمل دُہرایا گیا۔ امرتسر پولیس نے گِن گِن کر ’’قیدی‘‘دہلی پولیس کے حوالے کیے۔ پھر ہم لوگ اپنا اپنا سامان کھینچتے ہوئے دہلی جنکشن یا پرانی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پہ اُتر ے۔ 

پلیٹ فارم پہ ایک بار پھر قلیوں کی فوج ظفر موج نے ہلّہ بول دیا۔ ہم لوگ چاروں طرف سے ان کے محاصرے میں تھے، کوئی ٹانگ پکڑ رہا تھا، تو کوئی بازو سے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ایک نے ایک بیگ زبردستی پکڑ لیا،تو دوسرے نے دوسرا اُٹھا لیا، تیسرے نے نہایت بےتکلّفی سے کاندھے والا سفری تھیلا بھی اُتارلیا۔ یہ تو بھلا ہو، دہلی پولیس کا کہ جس کے آتے ہی اس ’’فوج‘‘ کا میمنہ و میسرہ پسپا ہوتا چلا گیاکہ اگر وہ ہماری حفاظت پر مامور نہ ہوتے، تو ہمارا سارا سامانِ سفر کئی قُلیوں کا زادِ سفر بن چُکا ہوتا۔خیر، اسٹیشن کے باہر چار بسیں ہماری منتظر تھیں، پھر سامان سمیت ہم لوگ بسوں میں لاد دیئے گئے۔

دلّی کی سڑکیں، قیامت خیز گرمی اوربے انتہا رش …یہ سمجھ لیں کہ ایک محشر بپا تھا۔ دہلی جنکشن یا پرانی دلّی کے ریلوے اسٹیشن پہ جب ہم لوگ اُترے، تو سورج سوا نیزے پہ تھا۔ اسٹیشن کی دو منزلہ عمارت سُرخ رنگ کی تھی،درمیان کی ڈیوڑھی اور عمارت کے سِرے پہ دو، دو مینار تھے۔ اسٹیشن کی دونوں منزلوں کے برآمدے وکٹورین طرز کی ڈاٹوں سے مزیّن تھے۔ اسٹیشن سے نکلتے ہی قلیوں کا ایک اور لشکر ہم پہ حملہ آور ہوگیا۔مذاق برطرف، قلیوں کی حالت یہاں اور وہاں بھی ایک جیسی ہی ہے۔ کیا کہیں کہ بندہ ِ مزدور کے حالات یہاں بھی بہت تلخ ہیں اوروہاں بھی۔چہروں سے عیاں بھوک اور سخت مشقّت کے آثار دیکھ کے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی۔

خیر، یہاں بھی بس کا ائیر کنڈیشنرخراب ہی تھا۔ کُھلی کھڑکیوں سے دہلی کی لُو کے تھپڑے جھیلتے ہوئے ہوٹل کی طرف محوِ سفر ہوئے۔پرانی دہلی جنکشن کے بالکل سامنے ابوالمظفّرشہاب الدّین محمّد شاہ جہاں جیسے بے مثل حکم ران کا آباد کیا ہوا شہر’’شاہ جہاں آباد‘‘پھیلا ہوا تھا۔اسی شہر میں ’’لال قلعہ‘‘ اور جامع مسجد ،دہلی بھی ہے،تو چاندنی چوک کا بازار بھی۔ دہلی جنکشن کے سامنے ہی دہلی پبلک لائبریری کی عمارت بھی نظر آئی۔ پرانی دلّی کی سڑکوں پہ ہماری پرانی سی بس ہچکولے کھاتی، ٹریفک کے بے پناہ ہجوم میں رُک رُک کر چلتی اور چل چل کے رُکتی ہوٹل کی طرف محو سفر تھی۔

سائیکل رکشے، آٹو رکشے، ٹیکسیاں اور چمچاتی گاڑیاں آب ِرواں کی طرح رواں دواں نظر آئیں۔ بس کی کھڑکی کے پار دیکھا ،گاڑیوں کے سیلِ بےکراں کو ایک سائیکل رکشے والا، دُبلا پتلا سانولے رنگ کا شخص حسرت سے سڑک کنارے کھڑا دیکھ رہا تھا، جس کے چہرے سے نقّاہت عیاں تھی۔ دو موٹے تازے آدمی اس کے رکشے میں سوار ہوئے اور اس نے پیڈل پہ پاؤں رکھ کر رکشا سڑک پہ ڈال دیا۔ پسینے میں شرابور وہ شخص بڑی مشکل سے رکشا کھینچ رہا تھا اوربڑی حسرت سے عمدہ لباس پہنے، قیمتی گاڑیوں میں محوِ سفر لوگوں کو تکتا تھا۔ہماری بس پہاڑ گنج میں ہوٹل کے سامنے جا رُکی۔ 

بس سے اُترے،تو ایک لمبا تڑنگا گارڈ ہلکے نیلے رنگ کی وردی میں ملبوس شیشے کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں،جو ہونٹوں کے اوپر سے سفر کرتے ہوئے گالوں پہ جا کے بل کھا رہی تھیں۔ ماتھے پہ تلک لگائے، چہرے پہ خشونت لیے ،ہمیں ایک لمحے کے لیے وہ کسی پرانے زمانے کے ہندو راجے مہاراجے کی فوج کا سپہ سالار لگا اور محسوس ہوا، گویا ابھی وہ گھوڑے پہ سوار ہو گا اور تلوار سونت کے میدانِ جنگ کا رُخ کر لے گا۔ مگر نہ وہ گھوڑے پہ سوار ہوا، نہ اس نے تلوار سونتی بلکہ دونوں ہاتھ باندھ کے، جُھک کر نمسکار کیا اور دروازہ کھول دیا۔ 

اس کے چہرے کی خشونت کچھ لمحوں کے لیے مسکراہٹ میں بدل گئی تھی۔ اندر داخل ہوئے ،تو کاوئنٹر پہ ایک سانولے رنگ کے منحنی سے آدمی نے رجسٹر میں ناموں کے اندراج کے بعد تیسری منزل پہ کمرانمبر309 کی چابی ہمارے حوالے کر دی۔ بیگ دھکیلتے ہوئے لفٹ میں اور لفٹ سے تیسری منزل پہ جا پہنچے۔ کمرے کا دروازہ کھول کے ہانپتے کانپتے اندر پہنچے۔ فیض مصطفیٰ، قادر گُل اور چاچا منظور ہمارے رُوم میٹ تھے۔ سامان کو کمرے کے بیچوں بیچ ڈھیر کر کے پنکھا چلایا کہ ہمارے کمرےکا ائیر کنڈیشنر بند تھا اور اے سی کی تار ایک بورڈ میں لگی تھی۔ کوئی ریموٹ نہیں،کوئی بٹن نہیں۔ 

ہم حیران پریشان کے اے سی چلے تو کیسے چلے۔ اس کی آرتی اُتاریں،پرنام کریں، اس کے سامنے دیئے جلا کے پوجا پاٹ کریں، آخر کیا کریں،جب کہیں سے کچھ سمجھ نہ آیا اور گرمی نے دماغ تک اُبال کے رکھ دیا،تو ری سیپشن پہ فون کھڑکادیا۔ ادھر سے منحنی آدمی نے فون اٹھایا اور دھیمے لہجے میں’’ہیلو ‘‘کہہ کر استفسار کیا ’’جی بتائیں ،مَیں کیا خدمت کرسکتا ہوں آپ کی؟‘‘ ہم نے آواز میں پریشانی کی آمیزش لاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’خدمت کو گولی ماریں،یہ کمرے میں ایک لاش پڑی ہے، وہ اُٹھا لیں۔‘‘’’ہائیں، لاش…؟‘‘ اُدھر سے گھبراہٹ بَھری آواز سُنائی دی اور یوں لگا جیسے ریسیور اس منحنی شخص کے ہاتھ سے گر گیا ہو۔ 

حیرت کے جھٹکے سے سنبھلنے کے بعد اس کی کپکپاتی ہوئی آواز سنائی دی۔ ’’لاس کہاں سے آگئی کمرے میں بھیا؟‘‘’’یہ ہمارے کمرے کی دیوار پہ ایک اے سی کی لاش لٹک رہی ہے، اگر اس نے چلنا نہیں ہے،تو اُتار ہی لیں۔‘‘ اتنا کہنا تھا کہ اس کی آواز کی گھبراہٹ قہقہے میں بدل گئی۔’’ابھی جندہ کیے دیتےہیں اس لاس کو۔ ‘‘دوسری طرف سے کاؤنٹر کے نیچے سے کوئی بٹن دبانے کی آواز سُنائی دی۔ اور ایک دم سے جیسے اے سی میں جان سی پڑ گئی۔ وہ کمرا،جو کچھ لمحے پہلے کسی لق و دق صحرا کی طرح تپتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، یکایک ایک ٹھنڈے نخلستان میں بدل گیا۔پھرسامان درست کیا ،کچھ دیر تھکن اتاری ، ٹھنڈا پانی پی کےتازہ دم ہوئےاورنیچے لا بی میں جاپہنچے۔ ہوٹل سے ٹیکسی بُک کی اور دو دن کا کرایہ، جو وہ چار ہزار روپے مانگ رہے تھے، مول تول کر کے کچھ لڑ جھگڑ کے3600 روپے کروایا اوربستی نظام الدّین کی طرف نکل کھڑے ہوئے ۔

گھڑی چار بجا رہی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور ایک کم زور سا لڑکا تھا۔ رنگ سیاہی مائل اور کپڑے سفید۔ڈرائیور بولا’’بھیّا!سب سے پہلے کہاں چلو گے؟‘‘ ساتھی فیض مصطفیٰ نے کہا ’’سب سے پہلے ہم لوگ بستی نظام الدّین جائیں گے، پھر کہیں اور چلیں گے۔‘‘ دلّی کی سڑکوں پہ گاڑیوں کا ایک انبوہ ِعظیم رواں دواں تھا۔متھرا روڈ پہ ہمایوں کے مقبرے اور سندر نرسری کے پاس ایک گول چکر تھا، جس کے بیچوں بیچ ایک ہشت پہلو مقبرہ نظر آیا۔دو تین دن بعد جب ہم لودھی روڈ پہ پیدل ہی آوارہ گردی کرنے نکلے تھے، تو اس مقبرے کے قریب مشروبات کی ریڑھی والے سے پانی کی بوتل خریدتے ہوئے صاحبِ مقبرہ سے متعلق پوچھا، تو وہ بے خبر تھا کہ یہاں کون محو ِخواب ہے۔ 

سبز برج کا بیرونی منظر
سبز برج کا بیرونی منظر 

لودھی گارڈن پیدل جاتے ہوئے اس مقبرے کو قریب سے دیکھا، جس پہ لگے کتبے پہ ’’سبز برج‘‘نام کندہ تھا۔ اس کے بغل ہی سے لودھی روڈ نکل رہا تھا۔ یہ مقبرہ سولہویں صدی میں مغل شہنشاہ ،جہانگیر کے کسی مصاحب فہیم خان کا تھا۔چار طرف بڑے محرابی در تھے اور چار طرف چھوٹے در، جب کہ اوپر ہرے اور نیلے رنگ کے امتزاج سے ایک گنبد کا تاج رکھا تھا۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے استفسار کیا، تو وہ بھی بے خبر تھا کہ یہ کس کا مقبرہ ہے۔ جلیل القدر اور رفیع الشّان حاکم، خلقِ خدا کے آس پاس ابدی نیند سورہے ہیں اور لوگ اس قدر بے خبر ہیں کہ یہ تک نہیں معلوم کہ یہاں کون خاک اوڑھے، خاک نشین ہے۔

وہ جن کا نام سُن کر کسی زمانے میں لوگوں کے کلیجے منہ کو آجاتے تھے، جن کے ناموں سے دشمنوں کی ٹانگیں تھر تھر کانپتی تھیں، اب ان لوگوں کا کوئی نام لیوا تک نہیں۔ ایسے ایسے کمان دار، لشکری،سپہ سالار اور سردار دہلی کی زمین اوڑھے سو رہے تھےکہ بھلے وقتوں میں جن کے گھوڑوں کی سموں کی آواز سن کے میدانِ کارزار کا سینہ شق ہو جاتا تھا۔ سبز برج سے تھوڑا آگے جا کر داہنے ہاتھ متھرا روڈ پہ بستی نظام الدّین تھی اور ایک دو ریہ سی گلی متھرا روڈ سے اندر جا رہی تھی۔ (جاری ہے)