صحابئ رسولؐ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ قبیلۂ خزرج کے بُلند پایہ شاعر تھے۔ وہ جب رجز پڑھتے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کے ہر قافیے کے ساتھ آواز ملاتے۔ (وفاء الوفاء180/1)۔آنحضرتؐ کے اس طرزِعمل سے صحابہ کرامؓ کی نہ صرف تھکن دُور ہوجاتی، بلکہ اُن کے جوش و خروش میں بھی مزید اضافہ ہو جاتا۔ مسجد کی دیواریں کچّی اینٹوں اور پتّھر سے بنائی گئی تھیں۔ (صحیح بخاری، حدیث، 446)۔ مسجد نبویؐ کی لمبائی 35 میٹر اور چوڑائی 30 میٹر رکھی گئی تھی۔ زمین پر ریت اور سنگ ریزوں کا فرش بچھایا گیا تھا۔
اس وقت قبلہ بیت المقدس کی جانب تھا۔ جب قبلہ، خانہ کعبہ کی طرف ہوا، تو شمال کی جانب ایک نیا دروازہ بنا دیا گیا۔ (سیرت النبیؐ،178/1)۔ اقامتِ صلوٰۃ کے نظام کے علاوہ یہی مسجد مسلمانوں کی اجتماع گاہ اور ایوانِ عدالت، قصرِ سیاست، مہمان گاہ، پارلیمنٹ ہائوس اور درس گاہ بھی تھی۔ غرض، اسلامی ریاست کے تمام اُمورکا محور و مرکز مسجدِ نبویؐ تھی۔ غزوئہ خیبر سے واپسی پر آپؐ نے مسجد نبویؐ کی توسیع فرمائی۔ لمبائی میں 15میٹر اور چوڑائی میں 20 میٹر کا اضافہ فرمایا۔ جس کے بعد لمبائی اور چوڑائی 50، 50میٹر ہوگئی۔ (مدینے کی تاریخی مساجد، صفحہ 10)۔
ازواجِ مطہراتؓ کے حُجروں کی تعمیر: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے متصل دو حُجرے بھی تعمیر کروائے۔ ایک اُمُّ المومنین، حضرت سودہؓ اور دُوسرا اُمُّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے لیے۔ اس وقت حرم نبویؐ میں یہی دو ازواجِ مطہراتؓ تھیں۔ ان حُجروں کی لمبائی 7یا 8گز اور چوڑائی 5یا 6گز تھی۔ اُن کی دیواریں کچّی اینٹوں کی اور چھت کھجور کے پتّوں کی تھی۔ حضرت حسن بصریؒ کا بیان ہے کہ ’’مَیں لڑکپن میں بلوغ سے پہلے ان حُجروں میں گیا ہوں۔ اُن کی چھتیں اتنی نیچی تھیں کہ مَیں ہاتھ لگا کر انھیں چُھو لیا کرتا تھا۔ (سیرتِ سرورِ عالم ؐ ، جِلد3صفحہ،57)۔ حُجروں کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد آپؐ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ اور حضرت ابو رافع کو مکّہ روانہ کیا، تاکہ وہ آپؐ کے اہلِ خانہ کو مدینہ لے آئیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنے صاحب زادے، عبداللہؓ کو پیغام بھیجا کہ وہ بھی والدہ اور بہنوں کو لے کر مدینہ آجائیں۔ حضرت زیدؓ اپنے ساتھ حضرت سودہؓ اورحضورؐ کی دونوں صاحب زادیوں حضرت اُمّ کلثومؓ، حضرت فاطمہؓ، اپنی اہلیہ اُمِّ ایمنؓ اور صاحب زادے حضرت اسامہؓ کو لے کر مدینہ آگئے۔ آپؐ کی بڑی صاحب زادی حضرت زینبؓ نہ آسکیں۔ (اُن کی ہجرت کا واقعہ آگے آئے گا)۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ اپنی والدہ اُمِّ رُومانؓ اور بہنوں حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہؓ کو لے کر مدینہ آگئے۔ اہلِ خانہ کی ہجرت کے بعد حضورؐ بھی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر سات ماہ قیام کے بعد اپنے حُجروں میں تشریف لے آئے۔ (سیرت سرورِ عالمؐ،58/3)۔
صُفّہ اور اصحابِ صُفّہ: مسجدِ نبوی ؐ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے باہر شمال مشرقی حصّے میں ایک سائبان بنانے کا حکم فرمایا۔ عربی میں سائبان یا سایہ دار جگہ کو ’’صُفّہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ اُن مساکین و مہاجرین کی رہائش گاہ، اقامتی درس گاہ اور خانقاہ تھی، جن میں سے بعض کا نہ گھر بار تھا اور نہ اہل و عیال۔ جنھوں نے خود کو تزکیۂ نفس، قرآن و حدیث کے علوم کے حصول اور فیضانِ مصطفویؐ سے سیراب ہونے کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ صُفّہ، عالمِ اسلام کی پہلی درس گاہ، پہلی یونی ورسٹی اور پہلا ہاسٹل تھی۔
یہاں کے رہائشی فاقہ مست غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات کے ہر ہر لمحے معلّمِ انسانیتؐ کے دربار میں حاضر رہ کر رُوحانی غذا کی حلاوتوں اور جلوئہ محبوبؐ کی سعادتوں سے سرشار ہو کر دُنیا جہاں سے ایسے بے پروا ہوجاتے کہ پھر انھیں نہ تو کھانے کی فکر ہوتی اور نہ پینے کی۔ کئی کئی دن کچھ کھائے بغیر گزر جاتے۔ ملا تو کھا لیا، ورنہ پیٹ سے پتھر باندھ لیا۔ اصحابِ صُفّہ کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی تھی، لیکن ایک وقت میں کم از کم 70اصحاب ضرور ہوتے تھے۔ (سیرت النبیؐ، صفحہ183/1)۔ علّامہ جلال الدّین سیوطیؒ نے ان کی تعداد چار سو، جب کہ قتادہؓ نے 700 تک تحریر کی ہے۔ (سیرت رحمۃ اللعالمینؐ، ص 215 )۔
اذان کی ابتدا: مسجدِ نبویؐ کی تعمیر کے بعد یہ خیال آیا کہ شہرِ مدینہ میں نماز کی بروقت اطلاع کیسے کی جائے، صحابہؓ سے مشورے کے دوران مختلف تجاویز سامنے آئیں، مثلاً نماز کے اوقات میں ایک بُلند جھنڈا لہرا دیا جائے یا کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دی جائے، یا عیسائیوں کی طرح ناقوس (گھنٹہ) بجایا جائے یا پھر یہودیوں کی طرح سینگ یعنی بگل بجایا جائے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرمسلم اقوام سے تشبیہ پسند نہ تھی۔
ابھی اس مسئلے پر غور و خوض جاری تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے ایک جیسا خواب دیکھا، جس میں ایک شخص اذان کے الفاظ دُہرا رہا تھا۔ دُوسرے دن صبح ان حضرات نے اپنا خواب حضورؐ کے گوش گزار کیا۔ (جامع ترمذی، جلد 1،حدیث 180)۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ کم از کم دس صحابہ کرامؓ نے اسی طرح کا خواب دیکھا۔ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وحی کے ذریعے اذان کے الفاظ بتا دیئے گئے تھے۔
اسلام کے پہلے مؤذن: محمّد بِن عبداللہ بن زید اپنے والد کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جب صبح ہوئی، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے خواب کی خبردی۔ آپؐ نے فرمایا ’’تمہارا خواب سچّا ہے اور تم بلالؓ کے ساتھ کھڑے ہوجائو۔ اس لیے کہ وہ تم سے بُلند آواز والے ہیں اور انھیں وہ سکھائو، جو تمہیں کہا گیا ہے اور وہ اُسے بُلند آواز سے کہیں گے۔‘‘ راوی کے مطابق، جب حضرت عُمرؓ بن خطاب نے حضرت بلالؓ کی اذان سُنی تو اپنی چادر کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس ذات کی قسم، جس نے آپؐ کو سچّا دین دے کر بھیجا ہے۔ مَیں نے بھی اِسی طرح کا خواب دیکھا ہے، جس طرح بلالؓ نے کہا ہے۔ (جامع ترمذی، حدیث 180)۔ حضرت بلالؓ جب عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈُوب کر والہانہ انداز میں اذان دیتے، تو مدینے کی فضائوں تک پر سحر طاری ہو جاتا۔ حضرت بلالؓ کے شیریں لبوں سے نکلے ہوئے مقدّس کلمات سُن کر لوگ دیوانہ وار مسجدِ نبویؐ کی جانب دوڑ اٹھتے۔
انصار و مہاجرین کے درمیان نظامِ مواخات: بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد ہجرت کا اِذنِ عام ہوا۔ اللہ نے یثرب کو مدینۃ الرسولؐ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ فرما دیا تھا۔ دُنیا میں پہلی اسلامی ریاست کا وجود عمل میں آنے کو تھا۔ مکّہ مکرمہ کے مسلمان اپنا گھر بار، مال و اسباب، کاروبار غرض اپنی تمام متاعِ حیات چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں اپنے گھروں سے بے سروسامانی کی حالت میں نکلے اور جب دارالہجرت مدینہ منورہ پہنچے، تو ہر لحاظ سے تہی دست، بے وسیلہ تھے۔ اُن کے دل غریب الوطنی کی وحشت اور قوم و قبیلے کی جدائی سے داغ داغ تھے۔ مکّہ مکرمہ کی جدائی اور یادیں بے قراری میں مزید اضافہ کردیتیں۔
جو اکیلے تھے، وہ تو ’’صُفّہ ‘‘ چبوترے کی آغوش میں پناہ گزیں ہوگئے، لیکن جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ تھے، وہ اہلِ مدینہ کے محتاج تھے۔ مدینے کے انصار بھی زیادہ امیر و کبیر تو نہ تھے، لیکن انھوں نے آگے بڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کو گلے لگایا۔ ابھی مسجد نبویؐ کی تعمیر مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انسؓ کے مکان پر انصار و مہاجرین کی ایک مجلس منعقد کی، جس میں دونوں طرف کے90افراد نے شرکت کی۔
آپؐ نے اخوت و بھائی چارے پر گفتگو فرمائی اور پھر ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کے درمیان مواخات کا ایسا اَن مول رشتہ قائم فرمایا، جو رہتی دُنیا تک کے مظلوم مہاجرین کی مدد و خیرخواہی کرنے والوں کے لیے اَجر و ثواب کی ایسی روشن مثال بن گیا، جس کی نظیر دُنیا کے کسی مذہب، کسی نظریے اور کسی تحریک میں نہیں ملتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ مواخاتِ مدینہ کے اس خُوب صُورت رشتے کو اللہ نے مزید مستحکم فرما دیا اور وحی نازل فرمائی کہ (ترجمہ) ’’اور مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (سورۃالحجرات، آیت 10)۔ سورۂ توبہ میں فرمایا ’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دُوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘ باہمی محبّت و اخوت اور بھائی چارے کے اسی جذبے سے سرشار ہوکر انصارِ مدینہ اپنے ان مہاجر بھائیوں کو اپنے گھروں میں لے گئے اور اپنے گھر بار، مکانات و کاروبار، باغات و مال مویشی غرض اپنی ملکیت میں موجود کل اثاثے کا نصف حصّہ اُن کی خدمت میں پیش کردیا۔ (البدایہ والنہایہ، جِلد 3،صفحہ، 225)۔
انصار کے ایثار کا ایک خوب صورت واقعہ: یثرب کے جنگجو قبائل خزرج اور اوس کے لوگ، جو برسہا برس سے ایک دُوسرے کے خون کے پیاسے تھے، جب مشرف بہ اسلام ہوئے، تو اسلام کی برکت سے ان کے دل محبت و ایثار سے لبریز ہوگئے۔ تاریخ میں انھیں انصار کے نام سے یاد کیا گیا۔ انصار کے ایثار کے بہت سے واقعات تاریخ میں رقم ہیں، لیکن یہاں ہم صرف ایک واقعے کا تذکرہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔
حضرت سعد بن ربیع انصاریؓ اپنے مہاجر بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اپنے گھر لے گئے اور فرمایا ’’اے میرے برادرِ عزیز! میرے پاس کثیر مال و زَر ہے۔ اس میں سے آدھا مَیں آپ کو دیتا ہوں۔ میری دو اہلیہ ہیں، جو آپ کو پسند آئے، مجھے بتائیں، مَیں طلاق دیتا ہوں، عدّت کے بعد آپ نکاح کرلینا۔‘‘ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے انھیں دُعائیں دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’میرے بھائی! آپ مجھے بازارکا راستہ بتادیں۔‘‘ چناں چہ وہ بازار چلے گئے اور وہاں سے مال لے کر بیچنا شروع کردیا۔ پہلے دن انھیں منافعے میں کچھ پنیر اور تھوڑا سا گھی ملا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔
آپؐ نے دیکھا کہ اُن کے کپڑوں پر خوشبو کی زردی کا نشان ہے۔ فرمایا ’’عبدالرحمٰنؓ! یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے ذرا شرماتے ہوئے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک انصاری خاتون سے نکاح کر لیا ہے۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم نے اپنی اہلیہ کو مہر میں کیا دیا ہے؟‘‘ عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایک گٹھلی کے برابر سونا دیا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اب تم ولیمہ کرو، خواہ ایک ہی بکری کا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 2048)۔
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ مہاجرین نے عرض کیا۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے انصار جیسے سخی اور ہم درد لوگ کبھی نہیں دیکھے۔ یہ ہمارا تمام معاشی بوجھ خود اُٹھاتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سارا ثواب ان ہی کو مل جائے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ہرگز نہیں، جب تک تم ان کے لیے اللہ سے دُعائیں کرتے رہوگے اور ان کے حُسنِ سلوک کی تعریف کرتے رہوگے، اللہ تعالیٰ تمہیں بھی پورا پورا اَجردے گا۔‘‘ (مسندِ احمد،204/3 )۔
مدینہ منورہ میں سب سے پہلے بچّے کی پیدائش: سیّدہ اسماءؓ بنتِ ابوبکرؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’جب میں مکّے سے نکلی تو وضعِ حمل کا وقت قریب تھا۔ جب قباء آئی، تو عبداللہ بن زبیرؓ پیدا ہوئے۔ مَیں انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئی۔ آپؐ نے بچّے کو گود میں لٹایا۔ پھر کھجور منگوا کر چبائی، پھر اس کے مُنہ میں اپنا لعابِ مبارک ڈالا۔
اس طرح سب سے پہلے جو چیز اس کے شکم میں گئی، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لعابِ دہن تھا۔‘‘ (صحیح بخاری، 3909)۔ سیّدہ عائشہؓ نے فرمایا۔ ’’ہجرت کے بعد مسلمانوں کے گھر میں سب سے پہلے پیدا ہونے والا بچّہ عبداللہ بن زبیرؓ تھا۔ گھر والے اسے لے کر حضورؐ کی خدمت میں پیش ہوئے۔ آپؐ نے کھجور چبا کر اپنا لعاب اس کے مُنہ میں ڈالا۔ اس طرح سب سے پہلے اس کے مُنہ میں آپؐ کا لعاب مبارک داخل ہوا۔‘‘ (صحیح بخاری۔ 3910)۔
میثاقِ مدینہ..... دُنیا میں پہلا بین الاقوامی معاہدہ
مسجدِ نبویؐ کی تعمیر اور نظامِ مواخات کے بعد مدینے کی نوخیز ریاست کو شرانگیزی اور تخریب کاریوں سے محفوظ کرتے ہوئے شہر میں امن و امان کا قیام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ترجیح تھی۔ مدینے کے اندر اور قرب و جوار کے یہودی قبائل بہت بڑا خطرہ تھے۔ چناں چہ آپؐ نے ان قبائل سے تحریری معاہدہ کرنےکا فیصلہ کیا۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر دس یہودی (احبار و علماء) مجھ پر ایمان لے آتے، تو تمام یہودی مسلمان ہو جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری۔ 3941)۔
دو قوموں کے درمیان دُنیا کا پہلا بین الاقوامی معاہدہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے سخت ترین دُشمن یہودیوں کے تین بڑے قبائل کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا۔ اس تحریری دستاویز کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہ دُنیا کا پہلا تحریری بین الاقوامی معاہدہ تھا، جو دو قوموں کے درمیان ہوا اور یہی دُنیا کی پہلی اسلامی ریاست کا دستور بھی قرار پایا۔
یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ متعصّب یورپی مؤرّخین حقائق کو پسِ پشت ڈال کر مسلمانوں سے تعصّب اور دُشمنی کی بناء پر ’’میگنا کارٹا MAGNA CARTA‘‘ کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مغرب سے مرعوب اور یورپی تہذیب کے دل دادہ مسلمان بھی دین سے لاعلمی کی بناء پر ’’میگنا کارٹا‘‘ ہی کو دُنیا کا پہلا بین الاقوامی معاہدہ سمجھتے ہیں۔
میثاقِ مدینہ، ہجرت کے پہلے سال 622 عیسوی کو ہوا۔ جب کہ اس معاہدے کے 600سال بعد1215عیسوی میں میگنا کارٹا ہوا۔ میگنا کارٹا لاطینی لفظ ہے، جس کے معنی عظیم دستاویز ہے۔ اس معاہدے کے تحت برطانوی عوام نے انگلستان کے بادشاہ ’’جان اوّل‘‘ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس بات کو تسلیم کرے کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں۔ یہ معاہدہ انگلستان کے شہر لندن کےجنوب مغرب میں 20میل کی مسافت پر واقع دریائے ٹیمز کے کنارے ’’رنی میڈ‘‘ کے مقام پر ہوا۔
میگنا کارٹا عوام اور بادشاہ کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ تھا، لیکن اس معاہدے سے چھے سو سال پہلے جس اعلیٰ ترین دستوری و آئینی خصوصیات کی حامل تاریخی دستاویز پر دستخط ہوئے، وہ دُنیا کی دو عظیم قوموں کے درمیان تاریخ ساز معاہدہ تھا۔ ایک طرف بنی اسرائیل اور دُوسری طرف اُمتِ مسلمہ کے سربراہؐ محسنِ انسانیت، پیغمبر ِرحمت، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ (جاری ہے)