• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر پندرہ جنوری کو بادل ناخواستہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروادیا گیا۔ جتنی بے یقینی کی صورتحال میں یہ انتخابات ہوئے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آخری دن تو کیا آخری وقت تک لوگ شکوک و شبہات کا شکار تھے کہ آیا کل صبح ووٹ ڈالنے جانا بھی ہے یا نہیں یا آج ووٹ کاسٹ بھی کرنا ہے یا چھٹی کا دن منانا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر اور اس میں ہونے والے الیکشن اسی قدر بے یقینی کی صورتحال میں؟آخر کیا وجہ تھی؟ کیوں عوام کو اس قدر تذبذب میں رکھا گیا؟ اس کا کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان؟ بے یقینی پیدا کرنے والوں کو تو پتا ہوگا۔ لیکن عوام کو بعد میں پتا چلے گا کہ اس کی نفسیات سے کھیل کر کون کامیاب ہوا اور کون ناکام۔ لیکن جتنا پیسہ اور وقت برباد ہوا، اس کا حساب کون لے گا؟ ہر دفعہ لوگوں کے ذہنوں میں امیدواروں اور پارٹی کا انتخابی نشان محفوظ رکھنے کے لئے بینرز، پمفلٹ اور موبائل پیغامات کا تیار کرنا، امیدواروں کو بار بار اپنی ضروری مصروفیات چھوڑ کر نئے سرے سے لوگوں سے اپنا آپ کو متعارف کروانا، کراچی جیسے تیز اور مصروف شہر کے شہریوں کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کے لیے نت نئے طریقے استعمال کرنا۔ ان تمام چیزوں پہ جو رقم خرچ ہوئی وہ کچھ سرکاری کھاتے سے اور کچھ پارٹی فنڈز اور کچھ امیر لوگوں کی امداد سے۔ ایک ملک جس کو اپنے خرچے پورے کرنے کے لئے دوسرے ملکوں کے آگے جھولی پھیلانی پڑتی ہے، کسی صورت بھی اس قسم کی فضول خرچی بلکہ عیاشی کا متحمل ہوسکتا ہے؟ لیکن غریب ملک غریب حکومت لیکن خرچے کی کوئی حد نہیں۔ جتنا خرچ بے مقصد ہو اتنا زیادہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان اخراجات پہ اعتراض نہیں کیا جاتا۔ نہ ہی انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔لیکن ذرا سوچیں! اگر ایک ٹائم ٹیبل تیار کر fix کردیا جائے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے بلدیاتی انتخابات ہر ایک حکومت کی مدت پوری ہونے کے اتنے دن کہ بعد کروادیے جائیں گے۔ اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔ اس کے لئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے انتخابات ہوجاتے ہیں اور کسی عبوری حکومت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ہم تو ہر چیز میں امریکہ سے متاثر ہیں تو پھر الیکشن کرانے میں ان کی تقلید کیوں نہیں؟ خاص طور پر شہری حکومت/ بلدیاتی انتخابات میں عبوری یا نگراں سیٹ اپ کی کیا ضرورت ہے۔ اس نظام کو لایا گیا تھا کہ غیر سیاسی لوگ آئیں گے اور غیر جانبدارانہ شفاف انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا بلکہ حکومت میں رہنے کا یہ اچھا بہانا بن گیا کہ حالات کی خرابی کا کہہ کہہ کر انتخابات ملتوی کرتے رہو اور اقتدار کے مزے لوٹو۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انتخابات کروانے کے لئے حالات سازگار نہیں ہوتے لیکن حکومت کرنے کے لئے حالات بالکل سازگار ہوتے ہیں۔ کیوں کہ عام زندگی میں اگر حالات سازگار نہ ہوں تو لوگ اپنے اوپر سے ذمہ داریوں کا بوجھ اتارتے ہیں، لیکن نگران سیٹ اپ ذمہ داری کو گلے سے لگا لیتا ہے۔ کتنے ذمہ دار ہیں یہ لوگ! کتنا درد یہ عوام کا ان کے سینے میں کہ مشکل وقت میں اپنی گردن پیش کر دیتے ہیں عوامی نمائندوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے!

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین