• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہنستے بستے ملک کو کس نے اجاڑ ڈالا؟ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے، کیا 2008ء میں پرویز مشرف کا اقتدار زمیں بوس ہونے سے قبل بھی یہی حالات تھے؟ ڈالر ساٹھ روپے کا تھا، ملکی و غیر ملکی قرض ملا کر صرف چھ ہزار ارب روپےتھے۔ ان اعداد و شمار کاسہرا صرف مشرف کے سر نہیں سجتا،نہ ہی چھ ہزار ارب روپے کا یہ قرض پرویز مشرف کے دور میں لیا گیا۔ یہ چھ عشروں کے مجموعی اعداد و شمار ہیں۔چھ دہائیوں کی تمام سول اور فوجی حکومتوں کا خلاصہ۔یہ ایک بچگانہ بات ہے کہ امریکہ سے ڈالر آرہے تھے۔ امریکہ سے جو پچیس تیس ارب ڈالر آئے، اس میں زرداری صاحب کا دور بھی شامل ہے۔ دوسرا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کا نقصان 120ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پندرہ سال کی قلیل مدت میں پاکستان کس خوفناک تباہی کی جانب بڑھنے والا ہے۔ مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے ہنگام کے بعد پاکستانی عوام بالآخر یکسو ہوئے۔ سول بالادستی کے اس جذبے سے سرشارکہ اکیسویں صدی کے اس دور میں فوجی اقتدار کسی ملک کو زیبا نہیں۔ مری میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ اجلاس میں جشن منایا جا رہا تھا۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ وہ جشنِ طرب نہیں بلکہ کہرام تھا! ایک زرداری سب پہ بھاری کا اقتدار ملکی قرضوں میں آٹھ ہزار ارب روپے کا اضافہ کر گیا۔سالانہ ترقی کی شرح دو فیصد۔ شیر اپنے پانچ سال مکمل کر کے لوٹا تو سولہ ہزار ارب روپے کا ہوشربا اضافہ کر چکا تھا۔ ان پانچ برسوں میں شاہد خاقان عباسی کی حکومت بھی شامل ہے۔ وہ ملک کے کامیاب ترین کاروباری لوگوں میں سے ایک اور سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے اراکینِ اسمبلی میں شامل ہیں۔ آصف علی زرداری اور شریف برادران سمیت ساری ملکی اشرافیہ شوگر ملیں چلاتی ہے۔ کسی ایک لیڈر کا کوئی ایک کاروبار بھی گھاٹے میں نہیں۔ بالفرض کسی پروجیکٹ میں نقصان ہو بھی جائے تو فی الفور اسے ختم یا کسی دوسرے منصوبے میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ریلوے، پی آئی اے اورا سٹیل مل سمیت ملک کا کوئی ایک بھی بڑا ادارہ مسلسل نقصان سے باہر نہیں نکل سکا۔ آخر کیوں؟ پھر عمران خان آئے۔ وہ ذاتی طور پر کاروباری آدمی نہیں، اگرچہ شوکت خانم ہسپتال اور نمل جیسے اداروں کے بانی ہیں۔ دنیا دیکھ رکھی ہے۔ ان کے ساتھ جہانگیر ترین اور عبد العلیم خان جیسے مایہ ناز کاروباری لوگ تھے۔ خان صاحب کا کہنا یہ تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد مجھے اگر قرض لینا پڑا تو میں خودکشی کر لوں گا۔ اتنا بڑا دعویٰ تو وہی شخص کرسکتاہے جس کے پاس معیشت ٹھیک کرنے کا مکمل منصوبہ ہو اور وہ بھی قرض لئے بغیر۔ خان صاحب کے دور میں قرضوں میں بیس ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

لوگ یہ کہتے ہیں کہ پرانے قرضے واپس کرنے کے لئے نئے قرض لئے گئے۔ ایک شخص اگر نئے سو روپے لے کرپرانے سو روپے ادا کرے تو مجموعی قرض اتنا ہی رہنا چاہئے۔ ان تین ادوار اور اب پی ڈی ایم کے چوتھے دور میں ڈالر کی قیمت میں 170روپے کا اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں پیٹرول کی قیمت خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ پیٹرول مہنگا ہونے کا مطلب ہے معیشت کی تباہی۔ اس ساری صورتِ حال کا مطلب یہ ہے کہ زرداری صاحب اور ان کی کابینہ، شریف برادران اور ان کے حواری، کپتان اور اس کی ٹیم معیشت سے یکسر نابلد تھی۔ وہ سب تو مگر شوگر ملوں اور نجی ہوائی کمپنی سمیت درجنوں کامیاب کمپنیوں کے مالک تھے، پھر معیشت وزیرِ اعظم کو خود نہیں چلانا ہوتی۔ وزیرِ خزانہ سمیت اسے ماہرینِ معیشت کی ایک پوری ٹیم میسر ہوتی ہے۔ 2008ء سے قبل ساٹھ سال تک ملک کیسے کامیابی سے چلتا رہا؟ کیا پہلے ساٹھ برسوں میں ایسے کوئی معاشی نابغے ملک میں پیدا ہوئے، جو اب مر کھپ چکے؟ پی آئی اے، ریلوے اورا سٹیل مل اگر نقصان سے نکل نہیں سکتیں تو انہیں بیچ کیوں نہیں دیا جاتا؟ملک بھر کے کامیاب ترین کاروباری افراد تینوں سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا ہیں، پھر بھی ملک ڈوبتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں ایک شک پیدا ہوتاہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ جان بوجھ کر دنیا کے واحد اسلامی ایٹمی ملک کو دیوالیہ کیا جا رہا ہے؟ کہ یہ روٹی کے بدلے اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے۔ ایسے ایک منصوبے پر اگرعمل جاری ہے تو ملک کی سیاسی اشرافیہ اس میں شامل نہیں تو لا تعلق ضرور ہے۔ اتنے قرضے ان میں سے کسی کے ذاتی کاروبار پہ چڑھے ہوتے تو رات دن وہ دیوانوں کی طرح کام کرتے اور ساری کارپوریشنوں کی نجکاری کر چکے ہوتے۔ یہ سب کچھ اگرمنصوبے کے تحت ہو رہا ہے تو آئی ایم ایف مسئلے کا حصہ ہے، حل کا نہیں

میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

گو دوست ممالک امداد کے لئے آگے بڑھے ہیں لیکن خودکشی پہ تلے شخص کو ایک دوست کتنی دیر تسلی دے سکتا ہے؟ جب کہ اسے اپنی ذاتی مصروفیات بھی لاحق ہوں۔ دنیا پاکستان کی طرح فارغ تو نہیں۔ قطر کی طرح اسے ورلڈ کپ منعقد کروانے جیسے اپنے معاشی منصوبوں پر عمل کرنا ہے۔ ایک کمزور، گھٹنوں کے بل جھکا ہوا اور تین چار ارب ڈالر کی بھیک مانگتا ہوا پاکستان امریکہ اور مغرب کے مفاد میں ہے۔ پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی شہ دماغ نظر نہیں آتا جو اندرونی چیلنجز اور بیرونی سازشوں کو ناکام بنا سکے۔

تازہ ترین