• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت اسلام آباد میں نہیں، پنڈی گھیپ اور تلہ گنگ میں ہوں۔ میرے ایک طرف حمید شاہد اور دوسری طرف فتح محمد ملک اپنی زندگی کی تاریخ کتابی شکل میں لیے موجود ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ہر زمانے کے آمر مزاج لوگ دیکھے ہیں سوائے بھٹو صاحب کے (ویسے ان کے اندر ایک ان کی غریب ماں تھی جو غریبوں کو دیکھ کر انہیں یاد آجاتی تھی۔ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے غریبوں کو پانچ مرلے پلاٹوں میں تقسیم کرتے کرتے، آخر کو سخت لہجے میں بولنے لگے تھے) باقی زمانے تو مارشل لاؤں کے رہے اور لگتا ہے رہیں گے۔

خیر یہ باتیں تو فنا فی العرض ہیں ، اچھی کتابوں کی باتیں آپ کو سنانا اور کہیں کہیں دہرانا چاہتی ہوں۔ فتح محمد ملک بظاہر سیاسی نعرہ بازی میں اور خود کو لبرل یا ترقی پسند کہلانے سے کتراتے ہیں۔ان کے اندر ان کا ماضی مگرتحریرہے جب ڈاکٹر برق پیر قطبی شاہ اور دادا امیر حیدر کا بیک زبان عقیدت اور احترام کے ساتھ کالج کے ابتدائی زمانے اور بچپن میں اپنے ابا کادیوانگی کے ساتھ عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقاریر سننے کے لیے جانے کا احوال بیان کرتے ہیں تو اپنی جوانی اور عسرت میں منو بھائی اور شفقت تنویر مرزا کے ساتھ ایک کمرے میں رہنے اور نیا لکھنے کے شوق کو آوارگی سے آمیز کرکے لکھتے ہیںکہ وہ اٹک اور پنڈی کی ادیبوں کی محفلوں میں شامیں گزارنے اور استاد یوسف ظفر، مختار صدیقی اور کامریڈ فضل دین سے بہت کچھ سیکھنے کا شوق فراواں کرتے ہوئے، پروفیسر کی منزلوں کو پھلانگتے ہوئے، صحافت کو مساوات کے دامن میں لپیٹ کر سیاسی راہ داریوں کی جانب، حنیف رامے کے اہم رازداں بنے، پوٹھوہار کے علاقے میں بھٹو صاحب کو چھوٹے چھوٹے اضلاع اور ان کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے، مصطفیٰ کھر اور پیپلز پارٹی میں دوغلے چہروں کا ذکر جس میں ان کے ذاتی تعصبات اور تجزیہ بھی شامل ہے، کرتےہیں۔ کتاب پڑھنے والوں کو قیام پاکستان سے پہلے کے آداب زندگی اور بعدازاں قیام پاکستان کے ابتدائی تین برسوں میں قائداعظم اور قائد ملت کی رحلت کے بعد، ایوب خان کے عہد سے چلنے والی سیاست سے جو تنگ نظری، غلاظت پھیلی ، اس کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا، جب حنیف رامے سے بھی بیزار ہوگئے تو ہائیڈل برگ میں اقبال چیئر قبول کرلی۔ مجھ سے تھوڑے سے سینئر ادیب ہونے کے ناطے، ہم نے پاکستان کو بنتے، ٹوٹتے، بگڑتے اور زوال کی منزلوں کو ضابطۂ تحریر میں قلم بلند کرتے ہوئے، اپنے زمانے کے ہر عمر کے ادیبوں سے رابطے، مباحثے، ایک دوسرے کی تحریک کی تحسین و تنقید کے باوجود محبتوں کو خاندانوں تک پھیلایا۔ فیض صاحب، ندیم صاحب سے لے کر ہمارے ہم عصر ادیبوں کی جس حد تک مدد کرسکتے تھے، کرتے رہے،جرمنی میں قیام کے دوران پورے یورپ کے ادبی مراکز اور کارل مارکس کے گھر کو بھی دیکھا۔

حمید شاہد سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے افسانے اور تنقید کے معرکے مارنے کے بعد، ریٹائرمنٹ کے دنوں کی یادوں کو اسی طرح آباد کیا ہے جیسے ادا جعفری، مختار مسعود اور مستنضر تارڑ کی طرح اپنے آباؤ اجداد کو یاد کیا ہے، اس بیان کی حدت کہیں کہیں اتنی بڑھتی ہے کہ اپنے ہی افسانوں اور تنقیدی مضامین کا خود ہی تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ 1965کا زمانہ ہے وہ ہم لوگوں کی جوانی کا ہے مگر یہ زمانہ حمید شاہد کی طالب علمی کا احوال ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حمید شاہد نے زرعی یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور زرعی بنک میں نوکری کرتے ہوئے، بہت سے چھوٹے بڑے شہر میں، وہاں کے بسنے والوں کے دن رات کو اپنے افسانوں میں سمویا ہے۔

اسی طرح کی سیاسی اور ادبی فروگزاشتیں حوالوں کے ساتھ درج کی ہیں۔ مثلاً جائیداد میں بیٹی کو برابر کا حصہ دینے اور بیٹی کی مرضی سے اس کی شادی کرنا۔ یہ ہمارے پرانے بزرگوں نے سکھایا یا سیاسی طور پر جو زرعی اصلاحات مسعود کھدر پوش یا پھر بھٹو صاحب نے اعلان کی تھیں، ان پرعملدرآمد نہ ہونے کا ملال حمید شاہد کی نسل کو بھی رہا ہے۔ طالبان اور عمران کی لفاظی نے جس طرح نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کے ذریعے، زمانۂ جاہلیت میں پہنچانے کی کوشش کی ہے، اس نے ذہنی آلودگی، بچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور جرگہ سسٹم کو ختم کرنے کی بجائے، اس کو ہوا دی، حمید نے ان وحشیانہ مناظر کو افسانوں میں لپیٹ کر بیان کرنے کی جرأت کی۔ اس کی ابتدائی تصانیف میں رسالت مآب ﷺ کی زندگی پہ مختصر مگر جامع کتاب بھی شامل ہے۔ حمید شاہد خاندان کی اجتماعی نیت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ فتح محمد ملک اور حمید شاہد، دنوں نے، ہر مرحلے پر اپنی بیویوں کی ہمت اور دوسراہٹ کو سراہا ہے۔ منشایاد، اس کا استاد بھی تھا اور یار غار بھی۔ منشا کی اچانک رحلت پر کٹی پتنگ کی طرح ہوگیا۔ پھر ہم سب دوستوں کے ساتھ ادبی محفلیں کرتے کرتے، کورونا کے دنوں میں قلم اور کاغذ نے منشا یاد کی جگہ لے لی۔ ہر مرحلے پر اس نے اور ہم سب نے آصف فرخی کو یاد کیا۔ آصف نے بھی ہم سب کے خوابوں پر ’’لکھتے رہنے کی تاکید کی‘‘۔ اسی محبت کے ساتھ احمد فراز کو میرے دونوں لکھنے والوں نے بہت یاد کیا ہے۔ حمید شاہد نے دل میں پیوند لگواتے ہوئے، یہ احوال لکھتے ہوئے یاسمین یعنی بیوی کی مسیحائی کو یاد کیا۔

تازہ ترین